سن اور تاریخیں مجھے کبھی یاد نہیں رہتیں۔ غالباً 69 کا ذکر ہے۔ ایوب خان اپوزیشن پارٹیوں کی مخالفانہ مہم کے نتیجے میں صدارت چھوڑ کر گھر بیٹھ گئے تھے البتہ انہوں نے آئین پاکستان کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی عبدالمنعم خان کو جو بنگالی تھے صدارت نہیں سونپی تھی بلکہ ایک خط کے ذریعے کمانڈر انچیف پاک فوج جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے اختیارات سپرد کرکے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا تھا۔ میں ان دنوں اردو ڈائجسٹ میں سات سال مدیرمعاون رہنے کے بعد اپنا ذاتی ہفت روزہ ’’کہانی‘‘ نکال رہا تھا کہ نامور قانون دان اور ایوب خان کے خلا ف مہم میں صف اول کے لیڈر ایم انور بار ایٹ لا کا انٹرویو شائع کیا جس کا ٹائٹل تھا ایوب خان کو سزائے موت دی جائے۔ کنور دلشاد جو آج کل سیکرٹری ریٹائرڈ الیکشن کمیشن میڈیا میں بڑے ان ہیں۔ ایوب خان کی مسلم لیگ کے طلبا ونگ کے سربراہ تھے اور عہدے کے اعتبار سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کررہے تھے۔ ہر ہفتے ایک سیاسی یا قومی شخصیت کا انٹرویو کرنے کے بعد میں اس کا پوسٹر تیار کرتا اور لاہور کی سڑکوں پر لگوا دیتا۔ ایم انور بار ایٹ لا کے انٹرویو کی سرخی والا پوسٹر بھی لاہور اور دوسرے شہروں میں دیواروں کی زینت بنا تو میرے دوست کنور دلشاد کا فون آیا۔ انہوں نے کہا یہ ایوب خان کے خلاف تم نے پوسٹر لگوائے ہیں۔ میرے جواب پر وہ بولے میرے ساتھ اسلام آباد چلو۔ ایوب خان نے کہا ہے کہ جس نے پوسٹر لگوائے ہیں اس رسالے والے کو میرے پاس لاؤ۔
قدرتی طور پر پہلے تو میرے ذہن میں آیا کہ ظاہر ہے کہ وہ مجھے برا بھلا کہیں گے۔ میں نوجوان تھا لیکن پھر اخبار نویس والی خواہش میرے دل میں پیدا ہوئی کہ اگر ایوب خان جو اقتدار سے الگ ہوکر گوشتہ نشین ہوگئے تھے اور کسی اخبار نویس سے نہیں ملتے تھے مجھ سے بات چیت کریں تو یہ ایک زبردست سکوپ ہوگا اور میں ان کی باتوں کو چھاپ کر اپنے جریدے کو شہرت سے ہمکنار کرسکوں گا۔ میں فوراً مان گیا۔ البتہ احتیاطاً اور انتظاماً یہ کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں گے کیونکہ چند تقاریب میں دور سے دیکھنے یا ایک آدھ بار ہاتھ ملانے سے زیادہ میری ایوب خان سے کبھی ون ٹو ون ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ لاہور سے ہم بذریعہ فوکر طیارہ اسلام آباد روانہ ہوئے جس کی سیٹیں بڑی تنگ ہوتی تھیں اور چھت بھی کافی نیچی تھی۔ اسلام آباد ایئر پورٹ سے اتر کر ہم سیدھے ایوب خان کے گھر پہنچے۔ یہ مکان آج بھی موجود ہے اور پرل کانٹی نینٹل کے مالک ہاشوانی صاحب اس میں مقیم ہیں کیونکہ انہوں نے بعد ازاں یہ مکان خرید لیا تھا۔ چھوٹی سی پہاڑی نما بلندی پر واقع ہم مکان میں داخل ہوئے اور اپنی آمد کی اطلاع دی۔ کنور دلشاد یہاں بیسیوں مرتبہ آچکے تھے اور ملازمین تک ان سے بخوبی واقف تھے، ہمیں اندر لے جایا گیا تو اندرونی دروازے پر ایوب خان نے خود ہمارا استقبال کیا۔ میں دبلا پتلا اور زیادہ صحت مند نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے میری طرف ہاتھ بڑھایا۔ سفید شارٹ سکن کی پورے بازوؤں والی بشرٹ اور اسی کپڑے کی پتلون میں سر پر ٹوپی لئے وہ بہت بارعب نظر آرہے تھے۔ میں نے ہاتھ ملایا تو سب سے پہلا تاثر مجھے یہ ملا جس کا اظہار کرتے ہوئے میں نے فوراً ہی کہا جناب ماشاء اللہ آپ تو بالکل بیمار نہیں لگتے۔ واضح رہے کہ انہوں نے بیماری کے عذر پر حکومت سے استعفیٰ دیا تھا لیکن ان کے ہاتھ کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ مجھے بے ساختہ اظہار کرنا پڑا۔ ایوب خان ہنسے پھر کنور دلشاد سے ہاتھ ملایا اور ہمیں اپنے ساتھ ڈرائنگ روم میں ساتھ لے گئے۔ چند ہی منٹ بعد ان کی شفقت اور وضعداری اور شرافت کی وجہ سے میری اجنبیت دور ہونے لگی۔ میں ایسے شخص کے سامنے بیٹھا تھا جن کے خلاف میں نے پوسٹر لگوائے تھے کہ انہیں سزائے موت دی جائے۔ انہوں نے جلد ہی میری حیرت دور کردی اور کہا کہ میں کسی اخبار نویس سے نہیں ملتا آپ سے گفتگو بھی آف دی ریکارڈ ہوگی اور آپ اپنے اخبار میں ایک لفظ بھی شائع نہیں کریں گے۔ ایوب خان کہنے لگے میں نے لاہور میں اپنے دوستوں سے پوچھا تھا کہ یہ کون شخص ہے جو مجھے موت کی سزا دلوانا چاہتا ہے۔ معلوم ہوا ایک نوجوان ہے جو کچھ دیر مختلف اخباروں اور جریدوں میں کام کرنے کے بعد خود اپنے پرچے کا ایڈیٹر اور مالک بنا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اسے ملوں۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے اپنی صدارت اور اس سے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا دور نیک نیتی سے پاکستان کی خدمت میں گزارا ہے لیکن اب جبکہ سارے اپوزیشن سیاستدان جیل میں قید شیخ مجیب الرحمن کو زبردستی اور اصرار کرکے مذاکرات میں شمولیت کیلئے پیرول پر رہا کروا کے اسلام آباد لے آئے ہیں جس نے یہاں پہنچ کر چھ نکات کا اعلان کردیا ہے میں اپوزیشن کے سیاستدانوں کے سامنے سرنڈر نہیں کرسکتا اور چھ نکات کو تسلیم کرکے پاکستان کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا لاہور میں جسٹس ایس اے رحمان سے پوچھنا کہ ان کی معلومات کے مطابق اگرتلہ سازش کیس صحیح تھا یا غلط۔ جس میں ملوث ہونے کے باعث مجیب کو گرفتار کیا گیا اور ساری اپوزیشن اسے رہا کروانے پر تل گئی۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ مجیب انڈین ایجنٹ ہے اور پاکستان توڑنا چاہتا ہے کچھ دیر ایوب خان اپوزیشن پر برستے رہے پھر اچانک مجھ سے پوچھا یہ آپ کے دل میں مجھے سزا دلوانے کا خیال کیسے آیا۔ میں نے جواب دیا جناب! یہ ایم انور بار ایٹ لا کا انٹرویو تھا۔ یہ بات انہوں نے دلائل سے ثابت کی تھی۔ میں نے انٹرویو کی سرخی سے پوسٹر بنوایا تھا۔ ایوب خان نے کہا میں ایک منٹ میں آتا ہوں آپ لوگ انتظار کریں۔ چار پانچ منٹ بعد وہ اوپر جانے والی سیڑھیوں پر واقع اپنی لائبریری سے اترے تو ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔ انہوں نے اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا ایم انور کی تحریری سفارش آئی تھی کہ انہیں ہائی کورٹ کا جج بنا دیا جائے۔ ابھی مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ ایک خوفناک خبر مجھے ملی۔ ملٹری انٹیلی جنس نے یہ اطلاع دی کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ ریس کورس لاہور کی ذیلی سڑک پر واقع ایم انور کی کوٹھی کے نیچے ایک تہہ خانے میں ایک عورت بند ہے جسے عملاً قید کیا ہوا ہے۔ اس نے کسی ملازم کے ذریعے آپ کو ایک خط لکھا ہے اور درخواست کی ہے کہ صدر ایوب خان اسے پڑھ لیں کہ جس شخص نے اپنی سگی ماں کو گھر کے تہہ خانے میں قید کر رکھا ہے کہ وہ اصرارکرتی ہے کہ انور اپنے چھوٹے بھائی کیپٹن سرور شہید کی پراپرٹی پر قبضہ نہ کرے جس کی بیوی ریحانہ سرور ہے اور جسے خاندانی جائیداد سے محروم رکھا جارہا ہے۔ خاتون نے خط میں لکھا تھا کہ میں نے سنا ہے آپ اسے ہائیکورٹ کا جج بنا رہے ہیں جو شخص اپنی ماں اور سگے بھائی سے انصاف نہیں کرسکتا وہ لوگوں سے کیا انصاف کرے گا۔ میں نے انور کی فائل پر یہی ریمارکس لکھ کر اس کی بطور ہائی کورٹ جج سفارش کو نامنظور کردیا۔ پھر مجھ سے ایوب خان نے کہا کہ آپ ابھی نوجوان ہو کسی پر اتنا بڑا الزام چھاپنے سے پہلے خود تحقیق کرلیا کرو کہ الزام میں کتنی صداقت ہے۔ انہوں نے بعد ازاں یہ تفصیل بھی بیان کی کہ ایم آئی کے مقامی سپاہیوں اور ان کے انچارج آفیسر نے اس طرح انور صاحب کی ماں کو باقاعدہ کمانڈو ایکشن کرکے ان کے گھر سے آزاد کروایا تھا۔
قدرتی طور پر بات چیت سیاست کی طرف مڑ گئی۔ میں نے کہا کہ جناب مشرقی پاکستان میں محرومی کا احساس آپ کے دس سالہ دو رکی وجہ سے شروع ہوا۔ ایوب خان نے اپنے دفاع میں بڑے دلائل دیئے۔ انہوں نے جنرل اعظم خان کے دور اقتدار میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے حکومتی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ میں بہت کچھ کرنے والا تھا اور کر رہا تھا لیکن انڈیا نام نہاد محرومی سے فائدہ اٹھا کر عوامی لیگ کو اکسانے میں مصروف تھا اور اگر تلہ سازش انڈیا کی پاکستان کے خلاف مہم جوئی کا ایک حصہ تھی۔
بھٹو صاحب کا ذکر چلا جو ان کے دور اقتدار ہی میں الگ ہوکر خود کو حقیقی اپوزیشن کے طور پر منوانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ ایوب خان نے کہا کہ بھٹو سے آپ ملے ہیں۔ میں نے کہا کئی بار۔ ہمارے زیادہ تر نوجوان ان کو ہیرو سمجھتے ہیں اور فلیٹیز ہوٹل لاہور میں جب وہ آکر ٹھہرتے ہیں تو بے شمار لوگ ان سے ملنے جاتے ہیں۔ بڑی تعداد نوجوانوں اور طالب علموں کی ہوتی ہے۔ انہوں نے پوچھا آپ نے کیا تعلیم حاصل کی ہے۔ میں نے کہا جی عربی زبان میں بی اے آنرز کیا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں اول آنے پر مجھے گولڈ میڈل ملا ہے۔ ایم اے عربی میں بھی فرسٹ آیا تھا اور اس میں بھی مجھے گولڈ میڈل ملا۔ ایوب خان نے مجھے مبارکباد دی اور خوش ہوئے۔
(جاری ہے)