پھر ایوب خان نے کہا کہ الف لیلیٰ میں آپ نے سندباد جہازی کے سات سفر پڑھے ہیں میں نے کہا جی ہاں۔ وہ بولے کس نمبر کے سفر میں آیا ہے مجھے یاد نہیں تاہم ایک سفر میں سند باد جہازی جزیرے میں تنہا رہنے پر مجبور ہے اور اسے ایک منحنی قد کا شیطان صفت آدمی ملتا ہے جو کہتا ہے مجھ سے چلا نہیں جاتا۔ مجھے اپنی کمر پر سوار کرلو اور تھوڑی دور میرے گھر تک چھوڑ آؤ۔ سند باد جہازی یہ نیکی کمانا چاہتا ہے اس لئے اسے کندھے پر سوار کرلیتا ہے۔ وہ شیطان شخص اس کی گردن کو دبوچ لیتا ہے اور دونوں ٹانگوں سے اس کی کمر کو جکڑ لیتا ہے۔ پھر وہ جزیرے میں اسے بھگائے پھرتا ہے اور اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ اس بھٹو کی مثال بھی اس شیطان جیسی ہے تم اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اسے نجات دہندہ سمجھ رہے ہو اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ تمہاری گردنوں پر مسلط ہوگیا تو تم برس ہا برس روتے رہوگے کیونکہ وہ تمہاری جان نہیں چھوڑے گا۔
زلفی مجھے ڈیڈی کہتا تھا اور وہ تاشقند کے راز کیا بتائے گا۔ وہ مداری ہے جو تاشقند کی ڈگڈگی بجاتا ہے۔پہلے یہ تحقیق تو کرو کہ 1965ء کی جنگ اور بھارتی حملہ انوائٹ کرنے میں اس کا اور اس کے سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کا کتنا بڑا ہاتھ تھا جنہوں نے یہ جھوٹی یقین دہانی کروائی کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ فوج بھی داخل کردے۔ انہیں امریکہ اور دوسری طاقتوں نے یقین دلایا ہے کہ جنگ کشمیر تک محدود رہے گی اور انڈیا پاکستانی بارڈر پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہی تاشقند کا راز ہے اور اپنے مجرم ضمیر کو تسلی دینے کیلئے بھٹو نے ساری قوم کو بیوقوف بنایا ہوا ہے ۔ اس تھیلے سے کوئی بلی برآمد نہیں ہوگی۔ یہ یاد رکھنا۔
ایوب خان دیر تک بھٹو صاحب کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے سوشلزم کا مذاق اڑایا۔ ان کی جمہوریت کے دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ اگر وہ حکومت میں آگیا تو پورے ملک کو جیل بنادے گا اور کسی بڑے سے بڑے فوجی ڈکٹیٹر سے بڑا سول ڈکٹیٹر ثابت ہوگا۔ میں نے دس سال میں جو صنعتیں لگائی ہیں اور زراعت کو پروموٹ کیا ہے وہ یہ سب کچھ برباد کردے گا۔ غریب کے نام پر وہ روس کی طرح ایسی حکومت بنائے گا جس میں سیاسی مخالفوں کا جینا دوبھر ہوجائے گا میں تو سیاست چھوڑ چکا ہوں لیکن آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ جسے آپ سونا سمجھ رہے ہو وہ گٹھیا قسم کا پیتل بھی نہیں۔ آپ لوگ سر پر ہاتھ رکھ کر روؤ گے مگر سند باد پر سوار اس مکار اور شیطان سے آپ کو رہائی نہیں ملے گی۔
میں نے کہا جناب! آپ نے قرضے لے کر پاکستان میں 22 گھرانے مالدار بنا دیئے۔ صنعتکار مزدور کا خون چوس رہا ہے۔ کچھ تقریروں سے اندازہ ہوا ہے کہ بھٹو صاحب اس نظام کو تبدیل کردیں گے اور غریبوں کو صنعتکار اور سرمایہ دار کے چنگل سے بچائیں گے۔ ایوب خان پھر مسکرائے اور ہنسے لگے جتنا قرضہ باہر سے آیا تھا اگر اسے پاکستان کے عوام میں برابر برابر تقسیم کردیا جاتا تو کوئی ایک پراجیکٹ بھی نہیں بن سکتا تھا اور ملک میں صنعتیں نہیں لگ سکتیں تھیں۔ میری سوچ یہ تھی کہ دنیا میں ہر جگہ صنعتیں اس طرح بنی اور پھلی پھولی ہیں جس طرح میں نے کوشش کی۔ ہم تھوڑا بہت سرمایہ رکھنے والوں کو بلاتے تھے زمین دیتے تھے کہتے کہ کچھ پیسے تم لگاؤ اور زیادہ قرضہ ہم دیں گے یہ لاہور سے گوجرانوالہ اور لاہور سے شیخوپورہ تک فیصل آباد کے اطراف میں جتنی انڈسٹری لگی ہے وہ اس طرح سے لگوائی گئی اور آج بے شمار لوگوں کو روزگار میسر ہے اور پاکستان تیزی سے صنعتی ملک بن رہا ہے لیکن بھٹو صاحب ان صنعتوں کو تباہ کردیں گے اور صنعتی ترقی کا رکنے سے ملک میں بیروزگاری پھیل جائے گی۔
اس دور میں ایوب خان کی پالیسیوں کے خلاف جلسوں جلوسوں میں حبیب جالب کی نظمیں بڑے شوق سے پڑھی اور سنائی جاتی تھیں جن میں 22 گھر انوں کی لوٹ مار کا ذکر تھا۔ ایوب خان بولے برطانیہ میں بھی صنعتی ترقی اس طرح سے ہوئی تھی۔ پہلے مرحلے پر لوگوں کو صنعتی لگانے کی ترغیب دی جاتی تھی اور حکومت بھی مدد کرتی تھی اور قرضہ دلواتی تھی بعد ازاں مزدور یونینوں کو مضبوط کیا گیا۔ سوشل سکیورٹی کے نام پر صحت اور تعلیم کے ادارے کھلوائے گئے اور سرمایہ داروں کو مجبور کیا گیا کہ اپنے منافع میں سے اس دوسرے مرحلے پر مزدور کیلئے اور فکٹری کے گردوپیش کے رہنے والوں کیلئے رہائش صحت اور تعلیم کی ضرورتیں پوری کریں۔میں بھی اس پالیسی پر گامزن رہا ہوں۔ صنعتوں کو پھلنے پھولنے دو اور رفتہ رفتہ مزدور کیلئے انہی صنعتوں سے مراعات حاصل کرو۔ ایوب خان کو زراعت کی ترقی میں بہت دلچسپی تھی۔ انہوں نے گندم کی نئی اور زیادہ جھاڑ دینے والی اقسام کو روشناس کروایا۔ سیب کے اتنے باغات لگوائے کہ کبھی پاکستان میں سیب صرف بیمار کیلئے مجبوراً خریدا جاتا تھا لیکن اب آسانی سے دستیاب ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ رفتہ رفتہ میں صنعت اورزراعت دونوں شعبوں کی ترقی کے بعد عوام کو خوشحالی اور سہولتیں بہم پہنچانا چاہتا تھا لیکن بھٹو اپنے روس برانڈ سوشلزم کے ذریعے صنعتوں کو تباہ اور پارٹی کو ہر چیز پر قابض کروانا چاہتا ہے اور خود تمام بڑے صنعتی اداروں پر قبضہ کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس ملاقات میں میرے ساتھی کنور دلشاد جو آج بھی اس ملاقات کا ذکر کرتے ہیں۔ زیادہ تر خاموش رہے کہ وہ مسلم لیگ (سرکاری) کی طلبا تنظیم کے صدر تھے۔ ایوب خان نے میری کم و بیش ہر بات کا جواب دیا اور میری باربار کی درخواست کے باوجود یہ کہا کہ یہ سب آف دی ریکارڈ ہے۔ اسے لکھنا اور چھاپنا نہیں۔ انہوں نے کہا میں اپنی حکومت کرچکا ہوں اور کسی نئی سیاسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا۔ انہوں نے اپنی تنہا زندگی کو گوشہ نشینی قرار دیا اور کہا کہ میں نے منعم خان کو حکومت دینے کی بجائے یحییٰ خان کو حکومت اس لئے دی ہے کہ چھ نکات کے شور میں کسی بنگالی کا صدارت کے عہدے پر فائز ہونا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ شاید فوجی حکومت الیکشن کروانے کے باوجود خراب ہوتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کو بچانے کا کوئی راستہ تلاش کرسکے۔ جب میں نے کہا کہ جناب! یہ مسائل زیادہ تر آپ کی دس سالہ حکومت کا تحفہ ہیں اتنی طویل مدت تک بنگالی قوم اسلام آباد میں اختیارات کے ارتکاز کو ہضم نہیں کرسکتی تھی۔ الیکشن بنگالی قوم کی اس سوچ پر مہر لگادیں گے اور ہم پہلے سے زیادہ مشکلات میں پھنس جائیں گے۔ آخر آپ نے دس سال تک حکومت کو اسلام آباد میں کیوں قید رکھا۔ معلوم ہوتا تھا ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا یا وہ دینا نہیں چاہتے تھے لہٰذا میں جب یہ سوال کرتا وہ گھما پھرا کر موضوع تبدیل کردیتے۔ میں نے کہا کہ آپ نے اچانک اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا آپ تو ماشاء اللہ صحت مند ہیں یہ بیماری والی بات کچھ جچتی نہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی دانست میں ملک کی بڑی خدمت کی۔ میرے عہد سے پہلے کا پاکستان دیکھیں اور آج کے ملک کا جائزہ لیں لیکن جب مجھے شیخ مجیب کو جو انڈین ایجنٹ تھا کو پیرول پر رہا کرکے اسلام آباد بلانا پڑا اور ساری سیاسی جماعتوں کو اس کیلئے لڑتے ہوئے دیکھا تو مجھے سخت پریشانی ہوئی۔ انہی دنوں انٹیلی جنس ذرائع نے مجھے ایک رپورٹ بھیجی کہ لاہور میں ایک جلوس میں ایک کتے کے گلے میں ایوب خان لکھ کر اسے مال روڈ پر چلایا گیا اور جلوس میں شامل لوگوں نے مجھے انتہائی بیہودہ گالیاں دیں تو میرا دل ڈوب گیا اور میں نے اقتدار چھوڑنے کا خود فیصلہ کیا۔ اڑھائی تین گھنٹے گزر چکے تھے آخر میں ایوب خان نے کہا کہ میری باتیں یاد رکھئے گا اور اگر کبھی بھٹو برسراقتدار بھی آگیا تو وہ جس طرح معیشت کو تباہ کرے گا۔ اس ملاقات کے بارے میں آپ کو پوری اجازت ہے کہ لکھئے ایوب خان نے اس خطرے کے بارے میں آپ کو کن الفاظ میں خبردار کیا تھا۔ کتنی لوٹ مار میں نے اور میرے بیٹوں نے کی تھی اور میرے بعد یہاں کس طرح لٹیرا راج اپنی خوفناکیوں سمیت سامنے آئے گا۔ جب ہم ان سے اجازت لے کر اندرونی دروازے کی طرف آنے لگے تو میں نے دیوار پر لیات علی خان کی ایک بڑی تصویر کو آویزاں پایا۔ کنور دلشاد نے تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ ایوب خان لیاقت علی خان کو بہت پسند کرتے تھے۔ آج 45 برس گزرنے کے بعد میں ایوب خان کی باتیں لکھ رہا ہوں۔ وہ فرشتہ نہیں تھے۔ سول حکومت کو ختم کرکے مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آئے اور مستعفی ہوکر نیا مارشل لا دے کر چلے گئے لیکن پاکستان میں تعمیر و ترقی کا ذکر جب بھی چھڑے گا ایوب خان کو بھلانا ممکن نہیں ہوگا اور سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے کچھ کام اتنے اچھے کئے کہ آج بھی کتنے لوگ ہیں جن کے دلوں کے کسی نہ کسی حصے میں ایوب خان کی یاد تازہ ہوگی۔
(نوٹ:قارئین اس سلسلہ کے مضامین کی پہلی قسط گزشتہ روز خبریں کے تمام ایڈیشنوں میں چھپی تھی اورنیا اخبار نے اسے لفٹ کیا۔بہت سے ٹیلی فون آئے جس میں اسے پسند کیاگیا۔ ایک قاری نے البتہ تصیح کی اورغلطی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ایوب خان کے دور میں قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالمنعم خان نہیں تھے بلکہ عبدالجبار خان تھے۔میں اس تصیح پر ان کاشکرگزار ہوں:ض ش)
***