ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی زندگی میں کم ہی لوگوں نے حُسنہ شیخ کا نام سنا ہوگا لیکن اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ قصہ سامنے آیا اور پھانسی کی سزا کے بعد اس کی مختصر خبر بعض اخبارات میں چھپی۔ میں ہفت روزہ ’’صحافت‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ میرے جی میں آیا کہ حُسنہ شیخ کی تصویر تلاش کی جائے اور معلومات جمع کی جائیں کہ یہ خاتون کون ہے اور بھٹو صاحب سے اس کی شادی کی خبر درست ہے یا محض اخباری خبریں ہیں۔ کئی روز تک میں اس کی کھوج لگاتا رہا اور بالآخر ایک ایسی خاتون اور ایسے گھر تک پہنچ گیا جن سے میری بہت اچھی جان پہچان تھی۔ حنیف رامے کی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں راجہ منور احمد جو لاہور میں مال روڈ پر واقع شیزان ریسٹورنٹ میں بیٹھنے والے گپ باز گروہ کے رکن تھے۔ پنجاب اسمبلی کے ممبر ہونے کے علاوہ رامے صاحب کے چیف ایڈوائزر بھی رہے تھے سے میری بہت دوستی تھی اور رامے صاحب وزارت اعلیٰ سے ہٹائے گئے تو ان کی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی۔ اس کابینہ کے ایک رکن ملتان کے نواب محمد خان خاکوانی بھی تھے جنہیں دوستوں میں ایم کے خاکوانی کہا جاتا تھا اور گھریلو نک نیم ’’مو‘‘ تھا۔ ان کی بیگم شاہین خاکوانی آگے چل کر خود بھی پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں ۔ وہ پنجاب کے سابق چیف سیکرٹری شہزادہ عالمگیر کی صاحبزادی تھیں اور بہت خوبصورت اور حاضر جواب سمجھی جاتی تھیں۔ راجہ منور ماشاء اللہ آج بھی حیات ہیں البتہ ایم کے خاکوانی اور شاہین خاکوانی جو شوہر کی زندگی ہی میں شاہین منور بن گئیں مگر یہ کہانی پھر سہی۔
ایم کے خاکوانی نے حنیف رامے کا ساتھ دیا اور رامے صاحب راجہ منور کے ساتھ جیل گئے جہاں شراب بھی ان کے ساتھ گئی کیونکہ وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ یہ تینوں حضرات قانونی طور پر ’’بھٹو پھٹو‘‘ پمفلٹ کی تیاری‘ اشاعت اور تقسیم کے جرم میں پکڑے گئے تھے۔ میں بھی انہی دنوں سپریم کورٹ میں رامے صاحب کے بیان حلفی جو بھٹو صاحب کیخلاف الزامات سے پُر تھا کی اشاعت اور اردو ڈائجسٹ میں ترجمہ شائع کرنے پر گرفتار ہوا اور اسی ٹولی کے ہمراہ مقدمہ بھگت رہا تھا۔
بہرحال کسی نے مجھے بتایا کہ ’’لڑکا بغل میں ڈھنڈورا شہر میں‘‘ کے مصداق تم خود سینکڑوں مرتبہ اس گھر میں جاچکے ہو جہاں کئی مرتبہ حُسنہ شیخ بطور خاص بھٹو صاحب سے ملنے آئیں اور میزبان خاتون بیگم شاہین تھیں۔ میں فوراً گلبرگ مین مارکیٹ میں بک وے سے تھوڑا آگے بائیں ہاتھ مڑنے والی سڑک پر واقع ایم کے خاکوانی کے گھر پہنچا۔ میری میاں بیوی سے بہت بے تکلفی تھی محمد خان خاکوانی گھر پر نہیں تھے البتہ شاہین مجھے مل گئیں۔ دنیا کے ہر موضوع پر بلاتکلف گفتگو میں ماہر تھے میں نے فوراً ہی مدعا بیان کیا تو وہ ہنسنے لگیں اور بولیں ’’یوراسکل‘‘ تم جاسوسی کرتے ہوئے آخر یہاں تک آن پہنچے پھر میرے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ یہ ٹھیک ہے بھٹو صاحب نے اس گھر میں پہلی بار اس وقت آنے کا پروگرام بنایا تھا جب ’’مو‘‘ کو انہوں نے اقوام متحدہ جانے والے وفد میں شامل کروادیا تھا۔ شاید میرے شوہر کی موجودگی میں وہ تکلف محسوس کرتے۔ پنجاب گورنمنٹ کے ایک سیکرٹری پہلی بار حُسنہ شیخ کو لاہور ایئرپورٹ سے لے کر میرے ہاں پہنچے تھے وہ کراچی سے آرہی تھی اور بھٹو صاحب بعدازاں اسلام آباد سے لاہور آئے۔ حُسنہ شیخ سے میری پہلے سے گپ شپ تھی لہٰذا انہوں نے مجلس کو گرما دیا۔ ہم دونوں بھٹو صاحب کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ حُسنہ شیخ کی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی تھی میں نے بہت کہا کہ کافی کے علاوہ بھی کچھ کھا لیں مگر حُسنہ کہنے لگیں میرا صاحب تو آجائے۔ رات کے 11 بج گئے پھر میرے فون پر اطلاع آئی کہ مہمان آرہے ہیں۔ پھر کوئی آدھ گھنٹہ بعد بھٹو صاحب دو گاڑیوں کے چھوٹے سے قافلے میں آن پہنچے۔ ایک گاڑی تو گھر کے باہر ہی کھڑی رہی دوسری اندر آئی۔ بھٹو صاحب نے بڑے خلوص سے میرا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگے شاہین! آج سے تم بھی ہمارے دوستوں میں شامل ہوگئی ہو۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ میرے لئے فخر کا مقام ہے پھر وہ حُسنہ کی طرف مڑے اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ دونوں بہت خوش تھے۔ میں انہیں اپنے بیڈروم میں لے گئی اور کہا جناب! یہاں ریلیکس کریں پھر میں باہر آگئی اور ان کے کھانے پینے کا سامان ٹرالی پر بھجوایا۔ بعدازاں اس خیال سے کہ کوئی ملازم وغیرہ مجھ سے کچھ پوچھنے اندر نہ آجائے میں دروازے کے باہر بڑی مستعدی سے کرسی پر بیٹھ گئی جہاں مجھے کئی گھنٹے ’’چوکیداری‘‘ کرنا پڑی۔
میں نے پوچھا کہ مجھے اتفاق سے حُسنہ شیخ اور بھٹو صاحب کے تعلق کے بارے میں کچھ پڑھنے کا موقع ملا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حُسنہ شیخ اور بھٹو کی ملاقات حُسنہ شیخ کی بیٹی ’’چنن‘‘ کی شادی کے موقع پر ہوئی تھی۔ میں حیران ہوں کہ بھٹو صاحب خود اتنے خوبرو تھے ملک میں ان کی اتنی شہرت تھی۔ ان کی اپنی پارٹی میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور جوان لڑکیاں موجود تھیں پھر انہوں نے بنگال کی اس پہلے سے شادی شدہ خاتون سے دوستی کیوں کی جو عمر میں بھی کچھ کم نہ تھی۔
میرے سوال پر شاہین ناراض ہوگئیں اور کہنے لگیں تمہارا یہی مسئلہ ہے۔ ظاہر میں پڑھے لکھے ہونے کے باوجود میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ تم اندر سے پینڈو ہو اور بڑے گھرانوں کے آداب سے یکسر ناواقف ہو جب میں نے ان کے اٹیک کا صبر سے مقابلہ کیا اور کہا میں نے کب کہا کہ میں پینڈو نہیں ہوں مجھے میرے حال پر چھوڑو میں نے ہنستے ہوئے کہا اب میری کافی عمر بیت چکی ہے باقی بھی گزر ہی جائے گی۔ آپ یہ بتاؤ کہ آخر بھٹو صاحب نے حُسنہ میں کیا خوبی دیکھی۔ شاہین بولی تم ایک بار بھی حُسنہ سے نہیں ملے اس لئے اندازہ نہیں کرسکتے کہ وہ کس قدر جاذب نظر اور شیریں کلام تھیں۔ بھٹو صاحب سیاست کی دنیا سے تنگ آجاتے تھے یا جب انہیں کوئی پریشانی لاحق ہوتی تھی تو وہ اس طرح حُسنہ سے ملاقات کے لئے بے چین ہوجاتے اور حُسنہ سیاسی گتھیاں یوں سلجھاتی تھیں کہ بھٹو صاحب کے اعصاب پرسکون ہوجاتے۔ حُسنہ کی معلومات غضب کی تھی اور وہ پارٹی پالٹیکس سے لے کر پاکستان کے بیرونی دنیا سے تعلقات تک انتہائی باخبر خاتون تھی۔
’’میں نے پوچھا کیا بھٹو صاحب صرف ایک بار آپ کے ہاں آئے تھے؟ شاہین نے جواب دیا چار یا پانچ مرتبہ آئے تھے۔ صرف پہلی ملاقات کے علاوہ باقی ساری ملاقاتیں ’’مو‘‘ کی موجودگی میں ہوئی تھیں۔ مو بہت مینرز والا آدمی ہے وہ کبھی بھٹو صاحب کی موجودگی میں پاس نہیں آیا۔ بھٹو صاحب دروازے پر ہلکے سے دستک دیتے تو میں سمجھ جاتی کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت ہے۔ میں نے کچھ اور سوالات پوچھے تو شاہین بھڑک اٹھی اس نے کہا بس اپنی حد میں رہو میں نے جتنا بتانا تھا بتا دیا میں نے کہا تصویر دو جس کے لئے میں آیا ہوں۔ شاہین ایک البم اٹھا لائی اور بڑی مشکل سے ایک گروپ فوٹو ملا جس میں حُسنہ شیخ شاہین اور اس کی کچھ دوستوں کے ساتھ کھڑی تھی اور عقب میں روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ میرے اصرار کے باوجود شاہین نے مجھے بڑی احتیاط سے قینچی سے کاٹ کر صرف حُسنہ کا چہرہ دیا اور کہا YOU YELLOW JOURNALIST ۔ شاہین نے مزید کہا کہ کوئی گندی بات نہ لکھنا۔ تم مڈل کلاسیئے اس تعلق کو نہیں سمجھ سکتے جو بھٹو صاحب اور حُسنہ کے درمیان تھا۔ گہری دوستی‘ سچی رفاقت‘ ایک دوسرے کے دکھ میں شریک وہ دونوں ننھے معصوم فرشتے تھے جنہیں DEEP UNDER STANDING نے باندھ رکھا تھا۔ پھر میں نے کوئی سوال کیا تو شاہین بولی اگر تم یہ گفتگو بند کرکے کچھ اور سوال پوچھو گے تو میں یہ تصویر بھی واپس لے لوں گی میں نے کہا آخری سوال۔ کیا بھٹو صاحب کی حُسنہ سے شادی ہوئی تھی یا نہیں شاہین ہنسی اور اس نے کہا ‘ کیا بیوقوفی کی باتیں کرتے ہو۔ شادی سے بہت بڑھ کے‘ مگر تم اندر سے مولوی ہو اس لئے تم اس تعلق کو نہیں پہچان سکتے۔
میں واپس آگیا۔ خاکوانی ڈرائنگ روم کے دوسرے کونے میں صوفے پر بند آنکھوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہماری گفتگو میں کوئی حصہ نہ لیا۔ ’’صحافت‘‘ کے ٹائٹل پر کسی پہلے پاکستانی اخبار یا رسالے نے حُسنہ شیخ کی تصویر چھاپی ٹائٹل پر لکھا تھا حُسنہ شیخ کون ہے؟‘‘ ایک بار پھر حُسنہ پر خبریں آنے لگیں اور مہینے ڈیڑھ مہینے تک تمام مضامین اور خبروں کے ساتھ ’’صحافت‘‘ کے ٹائٹل سے اٹھائی ہوئی وہی تصویر چھپتی رہی حتیٰ کہ کراچی کے ایک ’’ایوننگر‘‘ نے نئی تصویر کہیں سے ڈھونڈ نکالی۔
بھٹو صاحب کی پہلی ملاقات حُسنہ سے ڈھاکہ میں ہوئی تھی جب وہ وزیر تھے اور حُسنہ عبدالاحد نامی بزنس مین کی بیوی تھی۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں اورکچھ برس بعد کراچی میں ان کی ایک بیٹی چنن کی شادی ہوئی جس میں بھٹو صاحب بھی شامل تھے۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد حُسنہ نے شیخ عبدالاحد سے طلاق لے لی اور کراچی چلی آئیں۔
(جاری ہے)
نوٹ :نواب زادہ نصراللہ خان نے اپوزیشن چھوڑ کر حکومت کا ساتھ کیوں دیا۔ قارئین! نواب زادہ نصراللہ پر میں نے جو یادداشتیں لکھیں ان کے آخر میں برس ہا برس کی اپوزیشن کی سیاست چھوڑ کر حکومت میں جانے کا تذکرہ بھی تھا جس سے پاکستان میں مسلمہ جمہوریت کی یونیورسٹی کا انجام حکومت وقت کی خوشنودی کے نتیجے میں کشمیر کمیٹی کی ڈمی پوسٹ اور بیٹے کی صوبائی کابینہ میں شمولیت سامنے آئی۔ آج صبح مجھے نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم کے بھانجے سردار منیر احمد خان کا ٹیلی فون آیا۔ ’’خبریں‘‘ ملتان کے اسلم اکرام نے یہ گفتگو کروانے کا اہتمام کیا تھا۔ سردار منیر احمد خان ‘ نواب زادہ صاحب کے بھانجے بھی ہیں اور اپنی بیگم کے حوالے سے ان کے داماد بھی تھے وہ بڑے جذبات میں تھے اور بار بار افسوس کا اظہار کررہے تھے کہ بچوں نے ان کی عمر بھر کی سیاست کو برباد کردیا کیونکہ انہی کے شدید دباؤ اور اصرار پر نواب زادہ صاحب نے حکومت کے ساتھ چلنے پر آمادگی کا اظہار کیا یقین جانیں کہ وہ بہت افسردہ تھے۔ بچوں کا اصرار تھا کہ ہمیں اپوزیشن سے کیا ملا۔ آپ کی وجہ سے ہمارا مستقبل بھی خطرے میں ہے اور آپ کی سیاست کی نذر ہماری بیشتر زمینیں ہوچکی ہیں اس پر جس دن انہوں نے سیاسی خودکشی کا یہ فیصلہ کیا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان کے گرد کھڑے ہوئے بچوں کی مسکراہٹیں دیکھنے والی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سردار منیر احمد خان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ اپوزیشن میں رہے اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس وقت تک وہ دل و جان سے پسند کئے جاتے تھے اور ان کی عزت بہت زیادہ تھی۔ سردار منیر احمد خان نے وعدہ کیا کہ وہ لاہور آکر مجھے ملیں گے اور تفصیل کے ساتھ یہ دلخراش داستان سنائیں گے۔