تین اپریل کو بھاری نفری کے ساتھ سہالہ کیمپ سے بیگم نصرت بھٹو اور بی بی بینظیر بھٹو کو راولپنڈی جیل لایا گیا۔ اس وقت بھٹو صاحب کو بتایا جا چکا تھا کہ چاہیں تو وصیت لکھوا سکتے ہیں۔ انہیں اس امر سے بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ آپ کی سزا یعنی پھانسی پر عملدرآمد چار اپریل کی صبح چار بجے ہو گا۔ آخری ملاقات کے لئے ان کی اہلیہ اور بیٹی کو سہالہ کیمپ سے جہاں وہ نظر بند ہیں جیل لایا جا رہا ہے۔ بھٹو صاحب کی شیو بڑھی ہوئی تھی، انہوں نے شیو کا سامان مانگا اور شیو بنائی۔ انہیں شیو کا سامان دینے میں کچھ تامل کیا گیا تو بھٹو صاحب کہنے لگے۔ I do not want to die a Molvies death. بظاہر وہ پُرسکون تھے لیکن ظاہر ہے کہ بڑے سے بڑے بہادر انسان کو بھی بہرحال تشویش یقینی ہے۔ انہوں نے وصیت لکھنے کے لئے کاغذ قلم مانگا یہ چیزیں لا دی گئیں تو بھٹو صاحب نے چند الفاظ لکھے لیکن پھر کچھ سوچ کر ان پر لکیر پھیر دی اور انہیں واپس کر دیا۔ اسی اثنا میں بیگم نصرت بھٹو اور بی بی بینظیر پہنچ گئیں، بھٹو صاحب نے انہیں حوصلہ رکھنے کے لئے کہا اور نصرت بھٹو صاحبہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے کہ بہت اچھا کیا تم نے اس فوجی ڈکٹیٹر سے میرے لئے رحم کی اپیل نہیں کی۔ یاد رہے کہ ان کی پہلی بیوی امیر بیگم نے رحم کی اپیل کر دی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا، سپرنٹنڈنٹ جیل احتراماً پیچھے ہٹ گیا اس کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب کافی دیر بیوی اور اپنی بچی سے باتیں کرتے رہے پھر اس کے کہنے پر بھٹو صاحب نے الوداعی ملاقات کی اور بیٹی کو پیار کیا جو مسلسل آنسو بہا رہی تھیں۔ جب ماں بیٹی کو باہر لایا گیا تو بینظیر مسلسل ہچکیاں لے رہی تھیں۔ جیل کے دروازے پر پہنچ کر بیگم نصرت بھٹو نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے کہا میری جنرل ضیا سے بات کرواؤ لیکن موقع پر موجود فوجی افسروں نے معذرت کی اور کہا کہ ہم آپ کی خواہش پہنچا دیں گے اگر صدر صاحب نے چاہا تو وہ آپ سے سہالہ بات کر لیں گے، جب انہیں فوکسی میں بٹھایا گیا تو بیگم نصرت بھٹو نے دروازہ کھلا رکھنے کے لئے پاؤں آگے کر دیا اور ایک بار پھر کہا I want to talk to him لیکن سپرنٹنڈنٹ جیل کی درخواست پر انہوں نے پاؤں اندر کیا اور خاموشی اختیار کر لی۔
رات جتنی مرتبہ بھٹو صاحب کی کوٹھڑی کے سامنے جیل کا عملہ انہیں دیکھنے گیا وہ لیٹے ہوئے تھے لیکن مسلسل جاگ رہے تھے، رات بارش ہوئی اور جیل کی کچی زمین میں ہر طرف کیچڑ پھیل گیا۔ یہ کہانیاں کہ بھٹو صاحب پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا اور وہ پھانسی کی سزا پانے سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے انتہائی غلط ہیں۔ جب انہیں صبح سویرے چار بجے سے کچھ پہلے پھانسی گھاٹ لے جانے کے لئے عملہ آیا تو وہ خود بستر سے اٹھے اور بڑے باوقار انداز میں کوٹھڑی کے دروازے تک آئے۔ انہوں نے عملے سے کوئی بات نہیں کی لیکن باہر پھیلے ہوئے کیچڑ کو دیکھ کر وہ ایک لمحے کے لئے رُکے جیل کے عملے نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں انتظار کرنے کو کہا اور پھر کچھ لوگ دوڑتے ہوئے گئے اور ایک کرسی اٹھا لائے۔ بھٹو صاحب کو کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا گیا تو وہ خاموشی سے اس پر بیٹھ گئے۔ کچھ اہلکاروں نے کرسی اٹھائی اور انہیں پھانسی گھاٹ کی طرف لے گئے جہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔ یہ کہانیاں بھی غلط ہیں کہ انہوں نے وہاں کوئی تقریر کی یا پیغام دیا۔ میں نے تارا مسیح سے جو انٹرویو کیا اور اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں اس نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ صاحب بڑے رُعب سے چلتے ہوئے پھانسی گھاٹ پر آئے اپنے آپ پر قابو رکھنے کے لئے انہوں نے ہونٹ سختی سے ایک دوسرے کے ساتھ دبا رکھے تھے۔ جب ان کے سر پر سیاہ ٹوپی نما کپڑا چڑھایا گیا اور پھانسی کا پھندا ان کے گلے میں ڈالنے کے بعد کچھ دیر ہو گئی تو انہوں نے صرف دو الفاظ کہے ’’فنش اٹ، فنش اٹ‘‘ اور اگلے ہی لمحے پھانسی کا عمل مکمل ہو گیا۔
دوسری طرف کی کہانی کے راوی بریگیڈیئر (ر) صدیق سالک مرحوم ہیں جنہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا تھا کہ رات بھر ہم آرمی ہاؤس میں رہے اور سب کاموں سے فارغ ہو کر جنرل ضیاء الحق نے ہمیں آرام کرنے کو کہا اور خود نفل پڑھنے لگے، اس سے پہلے وہ ہدایت کر چکے تھے کہ آج رات کوئی شخص چھٹی کر کے گھر نہ جائے۔ وقت گزرتا گیا۔ ہم اس فون کال کے انتظار میں بیٹھے تھے جس میں ہمیں پھانسی کے عمل کے بارے میں اطلاع ملنی تھی۔ میرے متعدد سوالوں کے جواب میں بریگیڈیئر سالک نے کہا شاید فیصلہ بہت بڑا تھا انسان تو اندر سے بہت کمزور ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق اپنے اعصاب پر قابو پانے کے لئے نفل پر نفل پڑھتے چلے جا رہے تھے حتیٰ کہ چار بج گئے۔ پھر کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی بجی، پرندہ اڑ گیا جناب! ہمیں اطلاع مل گئی ہم نے جنرل ضیا کو مطلع کیا کہ یہ پیغام آیا ہے۔ اس کے لئے ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیرا اور ہمارا پیغام سنا، جنرل ضیاء الحق نے زیر لب کوئی دُعا پڑھی۔ پھر اٹھے اور جائے نماز تہہ کیا اور ہم سے بولے اب آپ گھروں کو جا سکتے ہیں۔ بعد میں ہمیں اطلاع دینے والوں نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ جہاز بھٹو صاحب کی میت لے کر لاڑکانہ کی طرف پرواز کر چکا ہے۔
بھٹوصاحب کے بارے میں آپ کوئی مثبت بات کہیں یا منفی برسوں بعد میں ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں میگزین ایڈیٹر تھا اور کسی کام سے مجید نظامی صاحب کے کمرے میں گیا جو میرے چیف ایڈیٹر تھے وہاں چوہدری ظہورالٰہی مرحوم بیٹھے تھے اور قصہ سنا رہے تھے کہ کس طرح سعودی حکومت نے جنرل ضیاء الحق کو پیشکش کی تھی کہ وہ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا نہ دیں۔ سعودی حکومت اس بات کی گارنٹی دے گی کہ اگر انہیں چھوڑ دیا جائے تو سعودی عرب کا ایک طیارہ انہیں اپنے ملک لے جائے گا اور دس برس تک ان کی مہمان نوازی کرے گا اس سے پہلے وہ کسی قسم کا سیاسی بیان نہیں دیں گے اور نہ پاکستانی حکمرانوں کے لئے ان کی جماعت کوئی مسئلہ بنے گی۔ چودھری ظہورالٰہی نے بتایا کہ اس سے پہلے بھٹو صاحب پر الیکشن میں دھاندلی کے الزام کے بعد سعودی سفیر ریاض الخطیب نے پی این اے سے ان کے مذاکرات کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ بھٹو صاحب سے بات کرتے پھر سہالہ کے کیمپ میں جاتے جہاں نواب زادہ نصراللہ خان، مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غفور احمد نظربند تھے اور ان سے بات چیت کرتے۔ پھر لوٹ کر بھٹو صاحب سے ملتے۔ ان لیڈروں کی رہائی اور بھٹو صاحب سے مذاکرات میں ریاض الخطیب کا بڑا رول تھا۔ بعد ازاں جب ضیاء الحق نے جن کے بارے میں کمانڈر انچیف مقرر کرتے وقت کسی نے بھٹو صاحب سے کہا جناب آپ مولوی کے اس بیٹے پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کر رہے؟ اور کیا وہ بدل نہیں جائے گا اور شرارت تو نہیں کرے گا کیونکہ یہ مودودی صاحب کی کتابیں بہت پڑھتا ہے تو بھٹو صاحب ہنسے اور انہوں نے وہ جملہ کہا جو اس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا۔ وہ بولےyou are talking about that monkey. مجید نظامی صاحب کے کمرے ہی میں چودھری ظہورالٰہی نے تفصیل بیان کی تھی کہ جب سپرنٹنڈنٹ جیل سے کہا گیا جس کی قدرتی طور پر بھٹو صاحب کے ساتھ اچھی سلام دعا تھی انہوں جیل میں بند بھٹو صاحب کی کوٹھڑی کے پاس جا کر اشارتاً سعودی عرب کی اس پیشکش کے بارے میں کہا تو بھٹو صاحب انتہائی ناراض ہو گئے اور انہوں نے بہت سخت الفاظ استعمال کئے جنہیں دہرایا نہیں جا سکتا۔ وہ چاہتے تو حامی بھر کے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے تھے۔ بقول چوہدری ظہورالٰہی مرحوم یہ طے پایا تھا کہ بھٹو صاحب کی بیماری کی خبر نکالی جائے گی پھر بعض دوست ممالک ان کی پھانسی کی سزا ملتوی کرنے اور انہیں علاج کے لئے باہر لے جانے کی درخواست کریں گے اور پاکستانی حکومت اس درخواست کو قبول کر کے خفیہ معاہدہ کے تحت انہیں سعودی عرب بھیج دے گی۔ بعینہٖ میاں نوازشریف اور شہباز شریف اور ان کے اہل خاندان کو بھی اٹک جیل سے چھڑا کر اس یقین دہانی پر سعودی عرب بھیجا گیا تھا کہ وہ دس سال تک پاکستانی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے لیکن بھٹو صاحب نے یکسر انکار کر دیا۔ وہ جب تک جیل میں رہے انتہائی وقار اور عزت سے رہے۔ انہیں کبھی شکایت کرتے نہیں دیکھا گیا ہاں وہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے اور یہ کاغذ جیل سے سمگل ہو کر بی بی بینظیر کے پاس پہنچتے رہے اور انڈیا میں ان پر مشتمل انگریزی کتاب If I am assesinated اور جس کا اُردو ترجمہ ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ شائع ہوئی۔
بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ اور پھانسی کی سزا ایک سُپرپاور نے دلوائی ہے اور جنرل ضیاء ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ سپر پاور ان سے ناراض ہے کیونکہ انہوں نے عالم اسلام کو متحد کرنے کے علاوہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور دباؤ کے باوجود ایٹم بم بنانے کے ارادے سے باز نہیں آئے تھے تاہم مخالفین کا یہ دعویٰ تھا کہ بھٹو صاحب خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور انہیں خوش فہمی ہے کہ امریکہ اور دوسری سپر طاقتیں ان کے خلاف کام کرنے پر تلی ہوئی ہیں وگرنہ الیکشن میں دھاندلی کرنے خود کو اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بلا مقابلہ کامیاب کروانے کا مشورہ کیا امریکہ نے دیا تھا۔ چودھری ظہور الٰہی سیاستدانوں میں بھٹو صاحب کے سب سے بڑے مخالف سمجھے جاتے تھے جس قلم سے جنرل ضیا ء الحق نے بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط کئے تھے۔ ضیاء الحق کا وہ قلم چوہدری ظہور الٰہی نے مانگ لیا تھا اور یوں انہیں پھانسی کی سزا دلوانے میں بالواسطہ ان کا بڑا رول تھا سیاست بھی عجیب دنیا ہے۔ چوہدری ظہورالٰہی کے داماد چوہدری پرویز الٰہی کو آصف علی زرداری کے دور صدارت میں نائب وزیراعظم کا نیا عہدہ تراش کر اقتدار میں شامل کیا گیا تو مجھے انتہائی حیرت ہوئی۔ چوہدری ظہورالٰہی پر حملہ کرنے اور انہیں جان سے مارنے والوں کا تعلق بھٹو صاحب کے جیالوں سے بتایا جاتا تھا اور محترمہ بے نظیر نے پاکستان واپسی سے پہلے نہ جانے کیوں چوہدری پرویز الٰہی کے علاوہ جو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے جنرل حمید گل (مرحوم) اور بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا نام لے کر یہ کہا تھا کہ مجھ پر پاکستان میں کوئی حملہ ہوا تو اس کے پیچھے ان تین لوگوں کا ہاتھ ہو گا لیکن چوہدری پرویزالٰہی کو اس کے باوجود آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں نائب وزیراعظم بنا دیا، اس کا جواب تاریخ بہر حال ان سے ضرور مانگے گی۔