ذوالفقارعلی بھٹو کی یوم پیدائش کے حوالے سے ملک بھر میں ان کی باتیں ہورہی ہیں۔ مجھے ان کے یوم پیدائش کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں لیکن ان کے آخری دنوں کے بارے میں میں بہت تفصیل جانتا ہوں۔ بھٹو کے آخری دن کے نام سے ایک کتابچہ بھی میں نے شائع کیا۔ ہفت روزہ صحافت میں آخری رات کے مناظر کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا۔ معروف صحافی اور آج کے اینکر غلام حسین کے ساتھ مل کر تارا مسیح کو تلاش کیا اور اس کا خصوصی انٹرویو کیا‘جو چھپا تو ’’صحافت‘‘ میں لیکن ’’نوائے وقت‘‘ جیسے مؤقر اخبار نے اسے سپرلیڈ کے طور پر شائع کیا اور رات کو بی بی سی نے اپنے اردو پروگرام ’’سیربین‘‘ میں اسے نشر کیا۔ برادرم ادیب جاودانی نے اس ضمن میں بہت مواد چھاپا اور کئی برس تک ایک ایک پہلو پر جہاں جہاں سے کچھ معلومات مل سکتی تھیں ’’مون ڈائجسٹ‘‘ میں شائع کرتے رہے۔ آج کے دن یہ دیکھیں کہ بھٹو صاحب کا آخری وقت کیسے گزرا۔
3 اور 4 اپریل 1979ء کی درمیانی شب کیا ہونے والا ہے‘ اس کا اندازہ ہمیں تین تاریخ کی دوپہر پوری طرح ہوگیا تھا جب ہم عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی کے والد ملک غلام جیلانی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ لوگ آجارہے تھے اور حسب معمول ایک مجلس جمی ہوئی تھی۔ میں راجہ منور احمد کے ساتھ ان کی طرف آیا تھا۔ یہ گھر مین بلیو وارڈ گلبرگ میں واقع تھا اور ملک غلام جیلانی کی شخصیت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ وہ معروف سیاسی دانشور تھے۔ بحث جاری تھی کہ ڈیٹھ وارنٹ ایشو ہوچکے ہیں تھوڑی دیر بعد ملک صاحب کو فون پر اطلاع ملی کہ تارا مسیح کو جو لاہور کوٹ لکھپت جیل کے معروف جلاد تھے‘ راولپنڈی بھیج دیا گیا ہے۔ راجہ منور احمد دھڑا دھڑ فون ملا رہے تھے ان دنوں موبائل فون نہ ہونے کے باعث ملک صاحب کا ٹیلی فون جو لینڈ لائن پر تھا‘ مسلسل ان کے استعمال میں تھا۔ انہوں نے کہا جیل سپرنٹنڈنٹ کا فون ملاتے ہیں۔ ان کا نام یار محمد دردانہ تھا معلوم ہوا وہ صبح سے ڈیوٹی پر ہیں اور راولپنڈی کی پرانی جیل میں موجود ہیں جس کا فون نمبر کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔ پھر راجہ منور احمد نے شوکت علی شاہ کا فون نمبر ٹریس کیا جو راولپنڈی جیل کے میڈیکل افسر تھے‘ وہ نمبر بھی بند کردیا گیا تھا۔ قیاس آرائیاں جاری رہیں حتیٰ کہ مغرب کا وقت آن پہنچا‘ تب راجہ منور نے جیل سپرنٹنڈنٹ کے گھر فون کیا جہاں سے یہ پتا چلا کہ یار محمد صاحب ابھی تک گھر واپس نہیں آئے‘ شاید جیل میں کوئی کام ہے۔ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اس زمانے میں ’’مارننگ نیوز‘‘ سے وابستہ چودھری غلام حسین آن پہنچے۔ انہوں نے کہا جیل کے ٹیلی فون کاٹ دیئے گئے ہیں اور پنڈی سے پتا چلا ہے کہ جیل کے گیٹ کے باہر غیر معمولی رش ہے اور کسی کو عملہ سمیت اندر جانے دیا جارہا ہے اور نہ کسی کو باہر جانے کی اجازت ہے۔ ملک صاحب نے کہا شاید آج کی رات بھٹو صاحب کی آخری رات ہے۔ جیل قواعد کے مطابق ملزموں کو صبح چار بجے پھانسی دی جاتی ہے۔ ہم بھٹو صاحب کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ ان کی خوبیاں‘ ان کی خامیاں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم سب دلگرفتہ تھے۔ بھٹو صاحب یقیناً جینیئس تھے‘ ہاں ان کے مخالفین انہیں Evil Giniuse کہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا وہ اہم کردار تھے اور ہمیشہ یہ بحث ہوتی رہے گی کہ کیا ملک توڑنے میں ان کا بھی کوئی کردار ہے۔ ملک غلام جیلانی کے خیال میں بھٹو صاحب کو قدرت نے بڑا موقع دیا‘ وہ مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے سربراہ تھے۔ لوگ سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے انتہائی غمزدہ تھے اور سچ تو یہ ہے کہ بھٹو صاحب عوام سے یہ اپیل کرتے کہ ایک وقت کا کھانا چھوڑ دو تو کوئی انکار نہ کرتا۔ راجہ منور ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والے تاسیسی اجلاس کی باتیں سنا رہے تھے۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی میں کوئی بنگالی نہیں تھا اور میری ڈیوٹی لگی تھی کہ لاہور میں دو چار بنگالی تلاش کروں تاکہ تاسیسی اجلاس میں بٹھائے جاسکیں لیکن کوئی بندوبست نہیں ہورہا تھا۔ ایک بنگالی حنیف رامے صاحب نے ڈھونڈ نکالا اور اس کو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر جانے پر آمادہ کرلیا۔ ان دنوں مال روڈ پر ریگل چوک کے ساتھ واقع ’’شیزان‘‘ میں منڈلی لگا کرتی تھی۔ ملک معراج خالد‘ انشورنس والے جنجوعہ صاحب‘ صحافی عبدالقادر حسن، راجہ منور احمد اور کبھی کبھار میں بھی اس منڈلی میں شامل ہو جاتے۔ اچانک اس منڈلی کے شرکاء میں سے ایک نے راجہ منور احمد کی توجہ دلائی کہ لارڈز ریسٹورنٹ کے دونوں بیرے جو گیٹ پر کھڑے ہوتے ہیں اور باہر سے آنے والوں کیلئے دروازہ کھولتے ہیں‘ چھوٹے قد کے بنگالی ہیں جاؤ اور انہیں کچھ پیسے دے کر کپڑے بدلوا کر اور منیجر سے چھٹی دلوا کر ساتھ لے جاؤ۔ راجہ صاحب نے ایسا ہی کیا البتہ ایک بنگالی ملا ملک غلام جیلانی بار بار بھٹو صاحب کی طبیعت میں موجود سخت گیری کی باتیں کررہے تھے۔ خورشید حسن ، حنیف رامے، غلام مصطفے کھر، جے اے رحیم، رسول بخش تالپور، پیپلز پارٹی کے کتنے ہی سینئر لوگوں کے ساتھ بھٹو صاحب نے بہت برا سلوک کیا۔ جے اے رحیم جیسے بزرگ آدمی کو جو پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے‘ صرف اس لیے ایف ایس ایف کے جوانوں سے پٹوایا کہ انہوں نے ایک میٹنگ کیلئے بلوانے پر اور بلاوجہ انتظار کروانے پر اعتراض کیا تھا‘ جس مقدمے میں بھٹو کو سزا ہونے والی تھی وہ بھی احمد رضا قصوری کے والد کو ایف ایس ایف کے انسپکٹروں سے گولی مروانے کا مقدمہ تھا۔ ڈاکٹر غلام حسین سیکرٹری جنرل کے ساتھ کیا ہوا‘ سیالکوٹ کے ایم این اے ملک سلیمان کو کیسے دھمکیاں ملیں‘ ملک صاحب کا خیال تھا کہ اگر بھٹو صاحب اپنے اندر چھپے ہوئے آمرانہ رویوں سے خود کو بچاسکتے تو وہ بلا کے مقرر تھے‘ پورے عوام کو جس طرف چاہتے لگا سکتے تھے لیکن لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس سے بے شمار لوگوں کو اسمبلیوں کی ممبر شپ دلوانے کے بعد انہوں نے سب کو نیشنل بنک سے کلیم جاری کرکے ٹیوٹا کرولا گاڑیاں دلوائیں جن کی پہلی قسط کے بعد دوسری کسی نے نہیں دی۔ عالم اسلام کو جمع کرکے اسلامی کانفرنس منعقد کروانے والا بھٹو کمال کا وزیر خارجہ تھا لیکن حکومت ملنے کے بعد اس نے نیشنلائزیشن کی پالیسی سے ملک کی صنعتی ترقی بالکل روک دی۔
باتوں ہی باتوں میں رات ہوگئی۔ راجہ منور نے ایک بار پھر جیل سپرنٹنڈنٹ اور میڈیکل افسر کا پتا کیا۔ اب ان کے گھروں کے نمبرز بھی بند ہوگئے تھے۔ راجہ منور نے کہا کہ ہم تو بھٹو صاحب کے معتوب تھے اور جیلوں میں بند تھے لیکن سچ یہ ہے کہ پتا نہیں کون بدبخت تھا جو انہیں انتخابات میں دھاندلی کے مشورے دے رہا تھا۔ حقیقت میں ہم سب پی این اے والے ہار رہے تھے اور بھٹو صاحب کی جیت یقینی تھی لیکن بلامقابلہ جیتنے کی خواہش میں ان کے سامنے کھڑے ہونے والے جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالدکھرل اپنی جیپ میں بٹھا کر 70 میل دور چھوڑ آئے تاکہ وہ کاغذات جمع نہ کرواسکیں۔ چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے بھی بلامقابلہ الیکشن جیتنے کیلئے اپنے اپنے مخالف امیدوار کی پکڑ دھکڑ کی۔ کاش بھٹو صاحب ان غلط مشوروں پر عمل نہ کرتے تو بھی وہ آسانی سے جیت جاتے اور جہاں تک ان کی اپنی سیٹ کا تعلق تھا کوئی مائی کا لعل انہیں لاڑکانہ سے ہرا نہیں سکتا تھا۔
رات گئے بھی بھٹو صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا اعتراف کرتے تو کبھی ان کی غلط سیاسی پالیسیوں پر نکتہ چیتی کرتے ہوئے یہ مجلس ختم ہوئی اور ہم اپنے اپنے گھروں کو جانے کیلئے اٹھے تو دل ڈوب سا رہا تھا۔ بھٹو صاحب بڑے لیڈر تھے کمال کے مقرر تھے غضب کی ذہانت پائی تھی۔ عوام کے دلوں میں اتر جاتے تھے مگر وہ اپنی اندرونی خامیوں پر قابو نہ پاسکے۔ بڑے بڑے نوابوں اور سرداروں کو جھکانا‘ گورنری یا وزارتیں دے کر ذلیل کرنا ان کا شوق تھا اور ایسا کرنے میں انہیں مزا آتا تھا۔ ملک غلام جیلانی کے بقول بھٹو ٹو ان ون تھے۔ بیک وقت وہ عوام دوست اور غریب پرور بھی تھے تو دوسری طرف وہ جمہوری انداز و اطوار کی بجائے آمرانہ طرز حکومت کے اس قدر شیدائی تھے کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں وہ پہلے وزیراعظم تھے جن کے دور میں اپوزیشن لیڈروں کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے قومی اسمبلی سے اٹھا کر زبردستی باہر لایا گیا اور سڑک پر پھینک دیا گیا۔ ان میں معروف مذہبی رہنما مولانا مفتی محمود بھی شامل تھے جو مولانا فضل الرحمن کے والد تھے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے حوالے سے بہت کہانیاں سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں پھانسی دینے سے قبل زدو کوب کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی موت واقع ہوگئی اور پھر ان کی لاش کو پھانسی پر چڑھا کر ضیاء الحق نے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا۔ ان کے شیدائیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ تختہ دار تک چل کر گر گئے اور ان کا آخری خطاب خون کے آنسو رلا دینے والا تھا۔بینظیر بھٹو اپنے باپ کی محبت میں پیٹرنیس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرے والد کی شہادت کے بعد بھی مہینوں وہ مجھے چاند میں نظر آتے رہے۔ اصل واقعہ کیا تھا آئیے آپ کو جو لوگ موقع پر موجود تھے ان کی زبانی رودادوں پر مشتمل داستان سنائیں۔
(جاری ہے)