ضیا شاھد کے انکشافات

جنگ جو اداکار،،سدھیر 2….ضیا شاہد

فلم ایکٹریس رخسانہ جو کراچی سے آئی تھیں سدھیر صاحب سے بہت متاثر ہوئیں۔ سدھیر صاحب نے مسرور کیفی کو یہ واقعہ سنایا تھا کہ پہاڑی مقام پر ایک فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ رخسانہ کی اماں بھی وہاں موجود تھیں جو انہیں کمرے سے نکلنے نہیں دیتی تھیں۔ بالآخر نیند کی دوا کام آئی۔ بڑی بی بے ہوش ہوگئیں تو رخسانہ کمرے سے نکل سکیں۔ اچھرے والا گھر چھوڑ کر اداکار سدھیر نے بلال مسجد مسلم ٹاﺅن کے پاس دو کوٹھیاں ساتھ ساتھ بنائیں انہی دنوں کراچی سے آنے والی چھوٹے قد کی اداکارہ آرزو سے شادی کر لی جسے عرف عام میں کوتاہ قد ہونے کی وجہ سے ”گینڈی“ کہتے تھے۔ سدھیر نے دونوں میں سے ایک کوٹھی اسے دے دی بڑی مشکل سے گھر والوں نے آرزو سے علیحدگی کروائی اور اس سے پہلے وہ زیبا کو سدھیر سے الگ کروا چکے تھے۔ (جاری ہے)
میرا اداکار سدھیر سے تیسرا رابطہ ہفت روزہ صحافت کے دفتر کی وجہ سے ہوا جو لکشمی چوک میں تھا نچلی منزل میں یونائٹڈ بنک ہے، بالائی منزل باجی، پاکیزہ اور تیرے شہر میں کے فلمساز حفیظ اللہ حسن کا چار کمروں پر مشتمل دفتر تھا۔ جاوداں کے نام سے اپر مال پر ایک فلم سٹوڈیو بھی انہوں نے خریدا تھا بعد ازاں فلمیں بنانا بند کر دیں تو اپنا دفتر حفیظ صاحب نے مجھے دے دیا کیونکہ وہ راجہ منور احمد اور حنیف رامے کے حوالے سے میرے دوست بنے تھے۔ اس دفتر کی سیڑھیوں میں سگریٹ پان کا کھوکھا تھا اور آگے اوپر جاکر ایک طرف سدھیر فلمز کا دفتر تھا اور دوسری طرف جاوداں پروڈکشن کا آفس تھا جو میرے پاس تھا اور میں نے فلموں کے ڈبے اٹھا کر ایک کمرے میں رکھوا دئیے تھے اور باقی تین کمرے میں استعمال کرتا تھا۔ سدھیر فلمز میں ان کے ایک بھائی لالہ اسد بیٹھتے تھے جو سدھیر ہی کی طرح بڑے وجیہہ اور خوبصورت انسان ہیں۔ اسد خوش مزاج، مہذب اور عام فلمی لوگوں سے بہت مختلف نظر آئے۔ کبھی کبھار وہ ہمارے دفتر آ جاتے یا میں ان کے پاس چلا جاتا۔ ایک دن پتا چلا کہ لالہ سدھیر کسی کام سے دفتر آ رہے ہیں میں نے ان کے دفتر والوں سے کہا کہ ان سے کہیے گا پانچ منٹ کےلئے ہمارے آفس بھی تشریف لائیں۔ حنیف رامے کے بھانجے محمد اکرام ہمارے جنرل منیجر تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ لالہ سدھیر اوپر آ رہے ہیں شاید ان کی طبیعت کچھ اچھی نہیں اس لئے دونوں طرف سے دو لوگوں نے انہیں سہارا دیا ہوا تھا۔ ہم نے انہیں بڑے احترام سے بٹھایا۔ تھیٹر کے معروف مصنف منیر راج ان دنوں میرے پاس اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ رسمی سلام دعا کے بعد راج صاحب نے لالہ سدھیر سے پوچھا لالہ جی آپ نے کتنی فلموں میں کام کیا سدھیر ہنس پڑے اور بولے فلمی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں مجھے تو یوں لگتا ہے ساری زندگی ایک ہی فلم میں کام کرتا رہا ہوں۔ پھر انہوں نے فلموں میں آنے سے لے کر فلمی دنیا چھوڑنے تک کے اپنے واقعات سنائے۔ وہ ہمارے پاس گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے رہے اور بڑی دلچسپ باتیں بیان کرتے رہے پھر ان کے بھائی انہیں لینے کےلئے آئے۔ انہوں نے سب سے ہاتھ ملایا اور چلے گئے۔ میں نے گفتگو کے دوران مسرور کیفی صاحب کا تذکرہ کیا کہ مسرت صاحب اور ایم سلیم صاحب کے چھوٹے بھائی میرے کلاس فیلو اور دوست ہیں تو بہت خوش ہوئے اور بالخصوص سلیم صاحب کے بارے میں کہا کہ وہ ہمارے گھر کا بچہ ہے۔ بعد میں مجھے دفتر کے لوگوں نے بتایا کہ تنگ سیڑھیوں کی وجہ سے اوپر چڑھنے سے زیادہ اترنا مشکل تھا اور ایک مددگار ان کے پیچھے اور ایک آگے کھڑا ہوا تھا۔ مسرور صاحب نے اپنی یادداشتوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے دونوں بیٹے ایچی سن کالج میں پڑھتے رہے۔ سدھیر نے انہیں یہ دلچسپ واقعہ بھی سنایا تھا کہ میرا امیج ایک جنگجو انسان کی حیثیت سے فلم بینوں کے ذہن میں اس قدر پختہ ہو چکا تھا کہ فلم مرزا غالب نمائش کے لئے پیش ہوئی تو میں بھی کچھ دوستوں کے ساتھ اپنی یہ فلم دیکھنے گیا۔ لوگوں سے چھپنے کےلئے فلم شروع ہونے کے بعد ہم سینما ہاﺅس گئے اور گاڑی سے نکل کر فوراً ہی ایک باکس میں جا بیٹھے۔ جب مرزا غالب سے پوچھ گچھ کے لئے کوتوال شہر ان کے گھر آیا اور بڑی سختی سے بات کرنے لگا تو باکس کے عین سامنے گیلری میں بیٹھے ہوئے دو تین لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا اوئے کوتوال کے منہ پر چنڈ (چانٹ) مار تو اتنا ڈرتا کیوں ہے۔ تو نے تو اپنا نام خراب کر دیا۔ کچھ دیر تک وہ آپس میں بحث کرتے رہے اور جب ارد گرد کے لوگوں نے شور مچایا کہ ہمیں ڈسٹرب نہ کرو تو وہ پانچ سات لوگ احتجاجاً سینما ہال سے باہر چلے گئے کہ وہ اس بات کو ذہنی طور پر قبول کرنے کےلئے تیار نہ تھے کہ سدھیر ایک مریل سے کوتوال سے ڈانٹ کھا رہا ہے۔ جوانی میں سدھیر اتنے خوبصورت تھے کہ پی ٹی وی ڈرامہ سیریل ”ذلتوں کے مارے لوگ“ میں اداکارہ سارہ حق کی ماں جو شیرانوالہ دروازے کی رہنے والی تھی اور بعدازاں ایچی سن کالج میں بچوں کو پڑھاتی تھیں اور کیمپس ہی میں اس کا گھر تھا اکثر یہ بیان کرتی تھی کہ سدھیر گھر سے نکلتے تو نوجوان لڑکیاں تو ایک طرف شادی شدہ عورتیں بھی گلی میں ضرور جھانکتی تھیں اور کئی ایک کے منہ سے بے اختیار نکل جاتا ”ہائے وے کنا سوہنا ایں“ فلم بین اس کی جوانی کی فلم دوپٹہ خاص طور پر نہیں بھولے ہوں گے جس میں انہوں نے سائیڈ ہیرو کا کردار ادا کیا تھا اور ایک ڈاکٹر بنے ہوئے تھے جس کے پاس یاسمین اپنی روداد سنانے آتی ہے۔ جنگجو ہونے کے علاہ وہ اپنی فلمی ہیروئنوں کے ساتھ رومانوی سین بہت کھل کھلا کر فلمبند کرواتے تھے، لڑاکا اور منقسم مزاج ہونے کے علاوہ ان کے بارے میں یہ تاثر بھی عام تھا کہ وہ نہایت رومانٹک انسان ہیں۔
آئیے اب ان کی فلموں پر ایک نظر ڈالیں۔
1950 سے 1960 تک: گمنام، سسی، طوفان، دلا بھٹی، ماہی منڈا، چھوٹی بیگم، باغی، گڈی گڈا، داتا، یکے والی، نوراں، انار کلی، آنکھ کا نشہ، جٹی، کرتار سنگھ، جھومر۔
1960سے 1970 تک: اک تھی ماں، عجب خان، گل بکاﺅلی، مرزا غالب، بغاوت، کالا پانی، چاچا خوامخواہ، ڈاچی، ماما جی، غدار، فرنگی، پھنے خان، من موجی، جی دار، جوش، کوہ نور، ابا جی، جانی دشمن، میدان، مفرور، چن مکھناں، پگڑی سنبھال جٹا، ایک ہی راستہ، ہر فن مولا، میں زندہ ہوں، بہن بھرا، وریام، شیراں دے پتر شیر۔
1970 سے 1980 تک کی فلمیں: ماں پتر، بہرام، چڑھدا سورج، شیر پتر، یار بادشاہ، سجاول، غیرت میرا ناں، عشق بنا کیہ جینا، خون پسینہ، ہیرا موتی، پتر دا پیار، نظام، ٹھاہ، نشان، بہادرا، لاٹری، جادو، سر دا بدلہ، دھن جگرا ماں دا، صورت اور سیرت، سلطانہ ڈاکو، باغی تے فرنگی، ان داتا، دو چور، دشمن کی تلاش، جنرل بخت خان، خان اعظم۔
1980 میں بننے والی فلمیں: زلزلہ، سن آف ان داتا،
سدھیر نے مظہر شاہ کے ساتھ 21 علاﺅالدین کے ساتھ 21طالش کے ساتھ 17، حبیب کے ساتھ 12، اقبال حسن کے ساتھ 11 محمد علی کے ساتھ دس، سلطان راہی کے ساتھ دس، ساون کے ساتھ نو، الیاس کشمیری کے ساتھ نو، اسد بخاری کے ساتھ آٹھ، ادیب کے ساتھ پانچ، شاہد کے ساتھ پانچ، اکمل کے ساتھ چار، یوسف خان کے ساتھ چار، عنایت حسین بھٹی کے ساتھ تین، وحید مراد کے ساتھ تین، اعجاز درانی کے ساتھ تین فلموں میں کام کیا۔
سدھیر نے جن فلمی اداکاراﺅں کے ساتھ کام کیا ان میں آشا بھوسلے، ریحانہ، حسنہ، جمیلہ رزاق، بہار، دیبا، غزالہ، روحی بانو اور ناہید سرفہرست ہیں۔ سدھیر نے فردوس کے ساتھ 28، نیلو کے ساتھ 23، نغمہ کے ساتھ 22، صبیحہ کے ساتھ 14، مسرت نذیر کے ساتھ 12، سلونی کے ساتھ سات، آسیہ کے ساتھ چھ، زیبا کے ساتھ چھ، رانی کے ساتھ پانچ، نورجہاں کے ساتھ چار، رخسانہ کے ساتھ تین، روزینہ کے ساتھ تین، مسرت شاہین کے ساتھ تین، گلشن آرا کے ساتھ دو، مینا شوری کے ساتھ دو، نیر سلطانہ کے ساتھ دو، لیلیٰ کے ساتھ دو، عالیہ کے ساتھ دو، نجمہ کے ساتھ دو اور شمیم آراءکے ساتھ دو فلموں میں کام کیا۔
سدھیر نے دو فلموں کی ہدایات دیں 1960 میں ساحل اور 1963 میں بغاوت کے ڈائریکٹر بنے۔
سدھیر پر فلمائے جانے والے معروف ترین گانے یہ ہیں:
فلم طوفان 1954ءفضل حسین کی آواز گانے کے بول ہیں آج یہ کس کو نظر کے سامنے پاتا ہوں میں، ماہی منڈا 1956ءکا دو گانہ چوٹھیا جہان دیا کچی اے زبان دی اے، نوراں 1957ءمنیر حسین کی آواز پنچھی تے پردیسی پیار جدوں پاندے۔ کرتار سنگھ 1957ءعنایت حسین بھٹی کی آواز میں تینوں صدا پہلا سلام پیتے شہادت دے جام، ڈاچی 1964 مسعود رانا کی آواز میں تانگے والا خیر منگدا تانگہ لہور دا ہووے تے پانویں جھنگ دا، پنڈ دی کڑی 1968 میں مسعود رانا کی آواز اک نکی جئی گل اتوں مکھ موڑ کے دلدار چلیا، وریام 1969ءمسعود رانا کی آواز میں اے ماں اے ماں ساڈے بلھیاں چوں پھل کھڑدے نیں جدوں لینے آں تیرا نام، صورت اور سیرت 1975ءاحمد رشدی کی آواز اک پری ہری بھری۔
اداکار سدھیر نے پاکستانی فلموں میں ایک جنگجو ہیرو اور حریت پسند بہادر انسان کا امیج فلم بینوں کے ذہنوں پر چھوڑا۔ پنجابی کی رومانوی فلموں کے بعد ان کے لئے بطور خاص حریت کی داستانیں لکھی گئیں اور یوں لگتا تھا کہ وہ ان فلموں میں کام کرنے کے لئے پیدا ہوئے تھے۔ وہ فلمی زندگی کے علاوہ سماجی زندگی میں لوگوں سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ کسی اخبار یا رسالے کو انٹرویو نہیں دیتے تھے اور اپنے پروفیشن کے علاوہ انہوں نے کسی شعبے میں کوئی کام نہیں کیا۔ انہیں سیاست، سرمایہ کاری یا صنعتیں لگانے کا کوئی شوق نہیں تھا وہ اول و آخر فلمی دنیا سے متعلق رہے اور اس شعبے میں ایک بھرپور زندگی گزاری تاہم فلمی سیاست سے وہ ہمیشہ الگ تھلگ رہے۔ ان کا فلم سازی اور تقسیم کاری سے گہرا تعلق رہا مگر ان کی دلچسپیاں زیادہ تر اداکاری سے منسلک تھیں صرف دو فلموں کی ہدایتکاری خود کی۔ پاکستانی فلمی صنعت میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭