مولانا کا ہاتھ مٹھائی سمیت نیچے آیا اچانک ہمیں دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور مٹھائی دوبارہ ڈبے میں رکھ دی پھر انہوں نے ہم سے ہاتھ ملانے کے لئے اٹھنا چاہا مگر اس دوران میں نے جو کچھ انہیں سنایا میں اتنے برس گزرنے کے بعد بھی صرف اس دن کی یادوں کے ساتھ اسے دہرانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ میرے منہ میں جوکچھ آیا میں کہتا چلا گیا۔ میرا جی چاہتا تھا میں کوئی چیز اٹھا کر ان کے سر پر ماروں۔ وہ بار بار مجھے کہہ رہے تھے صبر کرو، صبر کرو۔ انسان کی زندگی میں مشکل وقت بھی آتے ہیں۔ جتنی گالیاں میں نے اس روز دیں شاید عمر بھر کے شب و شتم مل کر بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ علیم صاحب پوچھنا چاہتے تھے کہ بھٹو صاحب کہاں ہیں اور تازہ ترین خبریں کیا ہیں شاید انہوں نے پوچھا بھی تھا مجھے یاد نہیں کیونکہ میرا سر تیزی سے گھوم رہا تھا۔ شاید میں بیٹھا بھی نہ تھا۔ علیم صاحب مجھے روکتے رہ گئے لیکن میں بمشکل مڑا۔ کوثر نیازی صاحب نے بھی مجھے بہت روکا۔ وہ بہت فصیح و بلیغ گفتگو کرتے تھے لیکن مشرقی پاکستان میں فوجوں کا ہتھیار ڈالنا اور پاکستان کا ٹوٹ جانا قائداعظم کی بنائی ہوئی ریاست کا نصف رہ جانا، عالم اسلام میں اتنی بڑی شکست کا ہمارا مقدر بننا پھر کوثر نیازی کی ریڈیو ٹی وی پر تقریر اور پھر انہیں ایک حسین نوجوان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھنا یہ سب کچھ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں میں کس طرح اپنے آپ پر قابو پا کر سیڑھیاں اترا اور باہر سڑک پر آگیا۔ پھر میں نے علیم صاحب کو اپنے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھا نہ جانے کس حال میں ہم گھر تک پہنچے گھر والوں نے پوچھا کیا پتا چلا۔ میں نے کہا کس سے پوچھتا۔ حیران ہوں کہ انسان کتنی جلدی نیا روپ دھار لیتا ہے۔ جو شخص چند دن پہلے قوم کو طفل تسلیاں دے رہا تھا وہ خود کتنا خوش ہے اور پکنک منا رہا ہے لاحول و لا قوۃ۔ اس دن کے بعد میں کبھی کوثر نیازی سے نہیں ملا اور نہ وزیر بننے تک وہ مجھ سے ملا۔ سقوط ڈھاکہ سے خاصے دنوں کے بعد بھٹو صاحب پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے حالانکہ یہ واقعہ دنیا میں پہلی بار رونما ہوا ہوگا کہ ایک سویلین نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا روپ دھارا۔ پھر عبوری آئین کے تحت صدر بنے اور اپنی کابینہ بنائی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کابینہ میں کوثر نیازی کا نام تک نہیں تھا۔ افواہیں پھیلنے لگیں اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ انہوں نے چند ایم این ایز کے ساتھ مل کر شیخ مجیب الرحمن سے رابطہ کیا تھا جب وہ زندہ تھے کہ اگر وہ حکومت میں آتے ہیں تو ہم لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔ کوثر نیازی کی بار بار پارٹیاں بدلنے کی عادت تھی اس لئے ممکن ہے الزام درست ہو وہ ہمیشہ جیتنے والے گھوڑے کے ساتھ جاتے تھے بہرحال مجھے یقین سے کچھ پتا نہیں البتہ جب وزارتیں بن گئیں تو ہفتہ دس دن بعد اچانک ایک شام کوثر نیازی میرے گھر آئے حسب معمول فاروق کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ مجھے کچھ ندامت سی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ میں نے ان کے گھر پر ان کی کچھ زیادہ ہی بے عزتی کر ڈالی تھی لیکن کوثر نیازی اندر آئے تو ہمیشہ کی طرح بڑے خلوص اور تپاک سے ملے میں نے پوچھا خیریت ہے۔ وہ بولے آپ کے دوست ملک صاحب سے ملنا ہے میرے ساتھ چلیں۔
ملک سے ان کی مراد ایم اے ملک تھی جو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک کے ہیڈ تھے اور شوقیہ طور پر ہاتھ دیکھتے دیکھتے اور لکیریں پڑھتے پڑھتے پاکستان کے نامور پاسٹ بن چکے تھے۔ انہوں نے برسوں تک مجھے زبانی معلومات فراہم کیں اور میں نے ان کا کالم ’’جیتی جاگتی زندگی‘‘ کے نام سے اردو ڈائجسٹ میں شائع کیا تھا وہ عام طور پر عورتوں بچوں اور مردوں کے نفسیاتی مسائل پر لکھتے تھے۔ ان کی کتاب ’’ہاتھ کی زبان‘‘ معروف اشاعتی ادارے فیروز سنز نے چھاپی تھی۔ دوسری کتاب انگریزی میں ’’ایک سو ہاتھ‘‘ انہوں نے خود شائع کی۔ اس میں سو نامور لوگوں کے ہاتھوں کے پرنٹس بھی ہیں اور ان پر تبصرہ بھی۔ مجھ سے طویل دوستی اور کام کے بارے میں رفاقت کے پیش نظر انہوں نے مجھے بھی نامور لوگوں میں شامل کیا جو ان کی مہربانی ہے۔ کوثر نیازی انہیں اپنے طور پر بھی اور میرے حوالے سے بھی بخوبی جانتے تھے لیکن ان کے پاس ان کا فون نمبر تھا نہ وہ ایم اے ملک کے گھر سے واقف تھے۔ میں نے کوثر نیازی سے کہا کل ان سے وقت لے لوں گا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بولے ضیاصاحب پلیز۔ میں نے کہا یوں لگتا ہے کسی کا قتل کر کے آئے ہو جو آج ہی ہاتھ دکھانا ہے۔ چلیں ہم گاڑی میں بیٹھے تو مولانا نے خلاصہ بتایا کہ بھٹو صاحب نے کابینہ بنانے سے پہلے، بناتے وقت اور اب ہفتہ دس دن گزرنے کے بعد بھی مجھے یاد نہیں کیا اور میرے بار بار رابطہ کرنے پر فون پر نہیں آتے۔ ضیاصاحب! میں نے پیپلز پارٹی کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ میں پچھلی باتیں بھول گیا اور انہیں طنزاً کہا اگر مجیب حکومت بن جاتی تو ضرور آپ کابینہ کی پہلی صف میں شامل ہوتے۔ انہوں نے کہا یہ سب افواہیں ہیں بہرحال بھٹو صاحب کسی وجہ سے ناراض ضرور ہیں۔ میں نے کہا نیازی صاحب میں سیدھا آدمی ہوں ہاتھ دکھانے سے کچھ نہ ملے گا ان کی طرف سے دعوت نامے کا انتظار نہ کرو۔ اسلام آباد جاؤ اور ان کے دروازے پر بیٹھ جاؤ تنگ آ کر بلائیں گے ضرور۔ تب ان کے گھٹنے پکڑ لینا اور آنکھوں میں آنسو لا کر معافی مانگنا۔ دیکھو بھائی کمرے میں زیادہ سے زیادہ دو چار لوگ اور ہوں گے۔ تھوڑی بے عزتی ہو جائے تو بھی ہاتھ جوڑو گے تو بھٹو صاحب یقیناً مان جائیں گے۔ جاؤ یار یہاں وقت کیوں ضائع کر رہے ہو۔ کہنے لگے ایک بار جانے سے پہلے ملک صاحب سے ضرور ملوا دو۔
پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ سے جو شیخ زید ہسپتال سے ذرا آگے کالونی کی طرف جاتا ہے بائیں ہاتھ وائس چانسلر آفس کو مڑتے ہیں اور دائیں ہاتھ وہ سڑک ہے جہاں آگے جا کر ایم اے ملک صاحب کا گھر تھا۔ شاید ای بلاک میں تھا۔ بہت برس گزر چکے ہیں اور بعد ازاں ملک صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا گھر تعمیر کر لیا تھا۔ بہرحال ہم ملک صاحب کے گھر پہنچے اور میرے برسوں سے ان سے جو دوستانہ مراسم تھے ان کے سبب انہوں نے رات کے ساڑھے دس بجنے کے باوجود ہمارا استقبال کیا۔ میں نے فوراً ہی آنے کی وجہ بیان کی۔ انہوں نے کہا آپ مولانا صاحب سے کہیں کہ واش روم میں جا کر ہاتھ اچھی طرح دھو آئیں۔ پھر انہوں نے بلیک سٹیمپ پیڈ نکالا اور رولر کو اچھی طرح سیاہ کیا۔ بعد ازاں دونوں ہاتھوں کے کئی کئی پرنٹ لئے۔ دونوں انگوٹھوں اور انگلیوں کے الگ الگ پرنٹ اتارے اور کہنے لگے میں کچھ سٹڈی کر لوں اور اپنی لائبریری میں جہاں بڑا ٹیبل لیمپ تھا وہاں لے گئے۔ ہم لوگ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ تب مجھے شرارت سوجھی۔ میں ان کے گھر میں آتا جاتا تھا اور دونوں بیٹے اور بھابھی صاحبہ سے بہت خوشگوار مراسم تھے۔ میں ان کی لائبریری میں گیا اور ان کے کان میں کچھ کہا۔ ملک صاحب ہنسنے لگے اور بولے ٹھیک ہے۔ واپس آ کر میں پھر فاروق سے باتیں کرنے لگا۔ وہ بہت زندہ دل اور خوش مزاج لڑکا تھا بعد ازاں جب کوثر نیازی اسلام آباد میں وزیر تھے تو ویسپا سکوٹر پر فاروق کا مین روڈ پر زیرو پوائنٹ کے قریب حادثہ ہو گیا اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ کوثر نیازی صاحب سے زیادہ فاروق میرے دفتر آتے جاتے تھے۔ بہت ہی مؤدب اور فرمانبردار بچہ تھا۔ بہرحال کچھ دیر بعد ایم اے ملک ہمارے پاس آئے اور کوثر نیازی کو ہاتھوں کے بارے میں بتانے لگے۔ کوثر نیازی ان سے بہت متاثر تھے اور اس اعتماد کی بنیاد پرکئی برس 1977 کے بعد الیکشن سے پہلے وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پاس انہیں بطور خاص اسلام آباد لے گئے میں نے بہت پوچھا کہ بھٹو صاحب کا ہاتھ کیسا ہے ان کا پرنٹ مجھے دے دو لیکن انہوں نے دکھایا ضرور دیا نہیں اور نہ کوئی آبزرویشن بتائی۔ بھٹو صاحب اقتدار سے الگ ہو گئے جیل جا پہنچے۔ مقدمہ چلنے لگا تو ایک روز ملک صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ ان کو پھانسی کی سزا ہو جائے گی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ بولے حکمرانوں کے بارے میں کوئی سخت بات انہیں بتائی نہیں جا سکتی کیونکہ وہ ناراض ہو جاتے ہیں وگرنہ میں نے کوثر نیازی صاحب کو ضرور بتا دیا تھا کہ آپکے صاحب کی موت طبعی اور قدرتی نہیں اچانک ہو گی اور موت سے پہلے جیل بھی دیکھیں گے۔
ایم اے ملک کے گھر ملاقات ختم ہونے پر انہوں نے کہا مائنڈ نہ کریں تو آپ دونوں جا کر گاڑی میں بیٹھیں میں الگ سے نیازی صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں اور فاروق باہر آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ کوئی پندرہ بیس منٹ بعد کوثر نیازی صاحب آگئے اور صرف اتنا بتایا کہ انہوں نے کہا ہے کہ بھٹو صاحب سے جا کر ملیں۔ آپ کو کامیابی ہوگی اور آپ وزیر بن جائیں گے۔ وہی ہوا رات کو وہ لاہور میں سوئے صبح سویرے راولپنڈی کی طرف روانہ ہوئے اگلی شام وہاں پہنچ کر بھٹو صاحب سے ملے اور ایک ہی ملاقات میں جو بھی صفائی دینی تھی دی اور رات آنے سے پہلے انہیں مشیر حج اور اوقاف بنا دیا گیا اس وقت تک اطلاعات کی وزارت حفیظ پیرزادہ کو دی جا چکی تھی تاہم پہلے مرحلے پر وہ وفاقی مشیر تو بنے مجھے یقین تھا کہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو گئے ہیں۔ اب اپنے لئے کوئی موزوں مقام جلد ہی تلاش کر لیں گے۔ مجھے یاد ہے کوثر نیازی صاحب کی ایم اے ملک سے ملاقات کے ہفتہ دس دن بعد ایم اے ملک مجھے ملنے آئے۔ قدرتی طور پر میں نے پہلا سوال ہی یہی کیا کہ کوثر نیازی سے علیحدگی میں آپ نے کیا کہا تھا وہ ہنسے اور کہنے لگے کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا کرتے۔ میرے اصرار پر انہوں نے کہا بس یہ کہا تھا کہ آپ بہت حسن پرست ہیں خود بھی خوبصورت ہیں اور خوبصورت لوگوں سے پیار کرتے ہیں آپ میں پیار کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ کیا مرد کیا عورت کوئی بھی آپ کی پیار کرنے کی حدت سے پگھل سکتا ہے۔ کہنے لگے کوثر نیازی صاحب نے میری بات سن کر اثبات میں سرہلایا تھا۔
(جاری ہے)