میں بی اے آنرز کا طالب علم تھا اور جزوقتی ملازمت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ میرے پڑوس میں ساتھ والا گھر مولانا خلیل حامدی کا تھا جو جماعت اسلامی کے صدر دفتر میں ’’دارالعروبہ‘‘ کے انچارج تھے۔ عربی زبان میں انہیں فضیلت حاصل تھی اور وہ بڑی روانی سے یہ زبان بولتے تھے۔ میرا ایک مضمون چونکہ عربی بھی تھا اس لئے میں پروفیسر محمد امین المصری کی معروف کتاب ’’طریقتہ الجدیدہ فی تعلیم العریبیہ‘‘ پڑھنے روزانہ شام کے وقت ان کے پاس جاتا تھا۔ میری خواہش پر انہوں نے ہی جماعت اسلامی کے اخبار روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں ایڈیٹر نصراللہ خان عزیز کے نام چٹ دے کر بھیجا کہ آپ ان سے جاکر ملیں۔ ’’تسنیم‘‘ کا دفتر شاہ عالم مارکیٹ میں تھا نیچے دکانیں تھیں اور حکیم محمد حسن قرشی کا کلینک تھا۔ بالائی منزل پر اخبار کے دفاتر تھے اور سب سے اوپر سیڑھیوں کے ساتھ بنے ہوئے ایک چھوٹے کمرے میں عارضی طور پر تین اطراف میں دیواریں اور ایک طرف سرکنڈوں کی بنی ہوئی صف لگی ہوئی تھی جسے اٹھا کر اندر جانا پڑتا تھا۔ چند ہی روز میں پتہ چل گیا کہ اوپر والے کمرے میں کوثر نیازی رہتے ہیں جو اخبار کے لئے کچھ کام کرتے ہیں اور جماعت اسلامی لاہور کے قیم یعنی جنرل سیکرٹری ہیں۔ ابھی صرافوں کی مشہور فیملی کھوکھر خاندان میں ان کی شادی نہیں ہوئی تھی وہ ’’تسنیم‘‘ میں ایک اشتہار بھی چھپواتے تھے جس میں درج ہوتا تھا کہ خطیب اسلام مولانا حیات محمد خان کوثرنیازی جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمائیں گے۔ کوثر نیازی میانوالی کے رہنے والے تھے اور بمشکل میٹرک کر پائے تھے کہ لاہور آگئے۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی شخص کو دولت ‘ شہرت اور نام کمانے میں اتنا ذہین اور مستعد نہیں دیکھا‘ جلد ہی ان سے صاحب سلامت ہوگئی اور ان کی باتوں کو ناپسند کرنے کے باوجود ہماری دوستی ہوگئی۔ شروع میں ہم صرف انہیں تنگ کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے بارے میں بعض بڑی بُری بُری باتیں مشہور تھیں۔ ’’تسنیم‘‘ کے دفتر میں ملک نصراللہ خان عزیز چیف ایڈیٹر جبکہ سعید ملک ایڈیٹر تھے۔ دوسرے سٹاف میں مشہور نام یہ ہیں جناب ارشاد احمد حقانی جو قصور کے ایک پرائیویٹ کالج میں استاد تھے جو بھٹو صاحب کے دور میں قومیایا گیا۔ سردیوں کا موسم تھا جب میں نے چند ماہ کیلئے ’’تسنیم ‘‘ جوائن کیا۔ دوسرے نامور لوگوں میں علی سفیان آفاقی ‘ مقبول جہانگیر مجھے اچھی طرح یاد ہیں کیونکہ نیوز ڈیسک پر میرا انہی سے واسطہ پڑا۔ علی سفیان آفاقی بعد میں فلموں میں آگئے اور رائٹر بننے کے بعد ڈائریکٹر بھی بنے اور ’’آس‘‘ اور ’’آبرو‘‘ جیسی شاندار فلمیں بنائیں۔ مقبول جہانگیر بھی ذہانت اور لیاقت کا شاندار نمونہ تھے۔ وہ بھی میٹرک پاس تھے لیکن کئی ایم اے حضرات نے ان پر مقالے لکھے۔ مقبول جہانگیر ایک کاتب کی حیثیت سے خبریں لکھنے آئے تھے لیکن انتہائی نفیس اردو اور شاندار علمی پس منظر اور طرز تحریر کی بدولت انہوں نے بڑا نام پایا۔ مطالعہ اتنا تھا کہ روزانہ کہیں نہ کہیں سے نئی کتاب تلاش کرتے اور پھر دو ایک روز میں اسے پڑھ کر نئی کتاب کی تلاش شروع کردیتے۔ دلی کے رہنے والے تھے اس لئے خالص دہلوی زبان پر انہیں بڑا عبور تھا۔ بعدازاں اردو ڈائجسٹ کے زمانے میں وہ شکار کی کہانیوں کے سلسلے میں بہت مشہور ہوئے۔ جب ’’تسنیم‘‘ میں چیف ایڈیٹر نصراللہ خان عزیز کے صاحبزادے حامد اللہ خان نے باغ و بہار کے نام سے بچوں کا جریدہ نکالا تو ان کے بڑے بھائی ظفر اللہ خان نے انہیں یہ جریدہ الطاف حسن قریشی اور اعجاز حسن قریشی کو دینے کے لئے آمادہ کیا۔ ان دنوں نیا ڈیکلریشن بہت مشکل سے ملتا تھا۔ الطاف حسن قریشی ‘ اعجاز حسن قریشی کے چھوٹے بھائی تھے اور اعجازحسن قریشی جرمنی سے پی ایچ ڈی کرکے پنجاب یونیورسٹی میں ریڈر ہوئے تھے۔
میں ذکر کررہا تھا مولانا کوثر نیازی کا ہم انہیں بہت چھیڑا کرتے تھے۔ ایک بار مقبول جہانگیر نے شرارتاً دفتر کی خاکروب خاتون سے ساز باز کی اور اسے کچھ پیسے دے کر آمادہ کیا کہ وہ کوثرنیازی کا توا لگائے۔ ہم سب نیوز روم میں بیٹھے تھے اور کوثرنیازی کہیں باہر سے آئے اور ہمارے پاس کھڑے باتیں کررہے تھے کہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق مقبول جہانگیر نے ایک ہیلپر کو اشارہ کیا وہ فوراً اوپر گیا اور خاکروب خاتون کو اطلاع دی کہ شکار موجود ہے کارروائی کرو۔ لمبا جھاڑو خاتون کے ہاتھ میں تھا اور وہ چیختی چلاتی ہوئی سیڑھیوں سے اتری اور ہمارے پاس آکر کوثر نیازی پر چڑھائی کردی۔ اب ہم سب اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر وہ کوثرنیازی کو صلواتیں سنا رہی تھی۔ بمشکل اسے خاموش کروایا گیا۔ اس کا الزام تھا کہ یہ مولوی مجھے تنگ کرتا ہے اور چھیڑتا ہے۔ کوثر نیازی بار بار کہہ رہے تھے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور آپ لوگوں نے مل کر میرے خلاف کوئی سازش کی ہے۔ شور سن کر سعید ملک صاحب آن پہنچے۔ انہوں نے سب کو ڈانٹا اور خاموش کروایا۔ سب سے پہلے انہوں نے خاکروب خاتون کو تسلی دے کر کہا کہ آپ فوراً یہاں سے جائیں بڑی دیر سے ہم نے ہنسی دبا رکھی تھی اس کے باہر جاتے ہی ہم چپ نہ رہ سکے اور قہقہوں میں سعید ملک صاحب کی ڈانٹ شامل ہوگئی۔ انہوں نے کہا بدمعاشو! یہ کوئی شرارت نہیں بدتمیزی ہے کوئی دوسرا سنے تو کیا کہے گا۔ لیکن کوثرنیازی کا یہ حوصلہ تھا کہ تھوڑی دیر بعد وہ خود بھی ہنسنے لگے اور دفتر کے کسی کولیگ سے کوئی گلہ نہ کیا۔
انہی دنوں کا ذکر ہے کہ کوثرنیازی نے مجھ سے اپنی ایک ذاتی مشکل بیان کرکے کہا کہ آپ اچھرہ میں جس گلی میں رہتے ہو اس کے پاس ہی طالب حجازی صاحب جو بے شمار کتابوں کے مصنف تھے رہتے ہیں ان کا اصل نام محمد یونس قریشی ہے وہ پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر میں ملازم ہیں ان کے پاس میری سفارش کرنی ہے۔ میرے پاس این ایس یو نامی چھوٹی سی موٹرسائیکل ہوتی تھی جو رک جاتی تو اسے ساتھ لے کر دوڑتے تھے اور یوں وہ دوبارہ سٹارٹ ہوجاتی۔ پچھلی سیٹ سائیکل کی طرح بڑی کھردری تھی میں نے جھٹ کوثرنیازی صاحب کو موٹرسائیکل پر بٹھایا اور طویل فاصلہ طے کرکے مال روڈ کے آخر میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے دفتر پہنچا۔ موٹرسائیکل سے اترے تو مختصراً مولانا کوثرنیازی نے کام بتایا۔ ان کے والد سکول ماسٹر تھے اور کسی گاؤں میں سکول واقع تھا جہاں بچوں کو پڑھانے کے علاوہ محکمہ ڈاک خانہ نے انہیں گاؤں کی چٹھیاں جو کبھی کبھار آتی تھیں بانٹنے کا فریضہ سونپ رکھا تھا۔ یہ کوئی باقاعدہ ملازمت نہ تھی انتہائی معمولی رقم جسے بیان کرنے میں بھی شرم آتی ہے ان کے والد صاحب کو ملتی تھی۔ کسی نے ان کی شکایت کردی کہ وہ خط تقسیم نہیں کرتا اور ثبوت میں ایک پھٹا ہوا خط پیش کیا یہ غالباً گاؤں میں ان کے کسی مخالف کی کارروائی تھی۔ الاؤنس بند ہوگیا اور اس طرح وہ رقم ملنا بند ہوگئی۔ کوثرنیازی نے خود اس دفتر میں آکر درخواست کی تو یونس قریشی صاحب نے انہیں ڈانٹ کر بھگا دیا۔ یہ تھا وہ کام جس کے لئے ہم وہاں پہنچے تھے۔
کوثرنیازی نے دفتر میں جاکر شکایت دہرائی۔ یونس قریشی صاحب چونکہ میرے تھوڑے بہت واقف تھے لہٰذا انہوں نے مجھے سمجھانے کے انداز میں کہا اوہ بابا ان کا باپ تو اندھا ہے۔ لفافے پر ایڈریس نہیں پڑھ سکتا ہم نے محکمہ تعلیم سے رابطہ کیا ہے کہ قریب کے کسی اور گاؤں سے کوئی پڑھا لکھا بندہ دیں ہم کچھ دیر انہیں منانے کی کوشش کرتے رہے جب دیکھا کہ وہ الٹا کوثرنیازی کے والد صاحب کی مسلسل بے عزتی کررہے ہیں تو میں خاموش نہ رہ سکا۔ نوجوانی کا دور تھا۔ چھوٹی موٹی اخبار نویسی کے علاوہ کالج میں بھی یونین میں شامل تھا۔ اس لئے میں نے اچانک یونس قریشی صاحب پر چڑھائی شروع کردی کہ میں آپ کو دوست سمجھ کر اپنے کولیگ اور دوست کے والد کی سفارش کرنے آیا ہوں اور کام کرنے کے بجائے ان کی مسلسل توہین کررہے ہیں۔ کوئی بات نہیں یہ آپ کا دفتر ہے لیکن شام کو آپ نے گھر تو جانا ہے میں اپنے کچھ دوستوں کو جمع کرتا ہوں اور محلے میں آپ کی بے عزتی کروں گا۔ یونس قریشی صاحب گھبرا گئے اور بولے اچھا بابا میں انہیں بحال کروادیتا ہوں مگر وہ لکھ کر دیں کہ آیندہ خط گم نہیں ہوں گے۔
میں نے یہ واقعہ جان بوجھ کر اس لئے بیان کیا ہے کہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کوثرنیازی نے تقریر اور تحریر کی دنیا میں ایک نام پیدا کیا۔ ملکی سیاست میں پہلے درجے کے سیاستدانوں میں شامل ہوئے۔ اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ پیپلزپارٹی کی صف اول میں رہے۔ دوسری بار پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور بینظیر بھٹو کی انتخابی مہم چلائی۔ ان کے خلاف بے شمار الزامات بھی لگے۔ پیپلزپارٹی کے مخالفوں نے انہیں مولانا ’’وہسکی‘‘ کا نام دیا۔ ان کے کردار پر ہمیشہ حملے ہوتے رہے مگر وہ ہر مشکل کا مقابلہ کرکے سیاست کی دنیا میں مضبوطی سے کھڑے رہے۔ ان کی تحریر انتہائی جاندار ہوتی تھی‘ بھٹو صاحب کے ساتھ مل کر مفتی محمود ‘ پروفیسر غفور احمد اور نواب زادہ نصراللہ خان سے انہوں نے پی این اے کی موومنٹ کے بعد مذاکرات کئے جو اچانک پراسرار طور پر ختم ہوگئے اور بھٹو صاحب سب کچھ مان کر بھی ملک سے باہر چلے گئے پھر یکدم ضیاء الحق نے جو فوج کے سربراہ تھے حکومت پر قبضہ کرلیا اور بھٹو صاحب اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔
(جاری ہے)