انسان ایک ایسا جاندار ہے ،جسمانی اور حیاتیاتی طور پر جو دیگر جانوروں سے مختلف نہیں ۔ اس میں ، دل، جگر ، گردہ ،، جلد اور دیگر اعضا اسی طرح کام کرتے ہیں ، جیسے دوسرے جانوروں میں ۔ دماغ سے پیغامات اسی طرح ریڑھ کی ہڈی سے پورے جسم میں جاتے ہیں ۔جلد، آنکھوں ، کان اور دوسرے اعضا سے جوابی پیغامات واپس دماغ میں جاتے ہیں ۔پھر بھی دوسرے جانوروں سے انسان مختلف ہے ۔ انسان کے علاوہ کوئی بھی جانور زمین کھود کر لوہا نکال سکا اور نہ ہی اس سے انجن بنا سکا۔ کوئی زمین کے نیچے سے ایندھن نہیں نکال سکا اور نہ راکٹ اڑا کر چاند پر اتر سکا ۔جلد کے علاوہ ،کسی نے کوئی لباس نہیں پہنا۔ کوئی اینٹوں کے گھر نہ بنا سکا ۔ کسی نے پتھر پیس کر سیمنٹ نہیں بنایا۔ کوئی اتنے بڑے عدسے نہ بنا سکا کہ پوری کائنات پہ ایک نگاہ ڈال سکے ۔ کسی جانور نے زمین کے نیچے سے ایک بھی مفید عنصر نکال کر استعمال نہیں کیا ۔آج غربت کا مارا ہوا انسان بھی پنکھے سے ہوا لیتا ہے ، بس میں سفر کرتا ہے اور ٹھنڈا پانی پی سکتا ہے۔
انسان کی منفرد خصوصیات اور اس کی غیر معمولی عقل جہاں اس کے لیے بے انتہا آرام کا سبب ہے ، وہیں اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں ۔ اس عقل کے بدلے انسان کو تمام عمر ایک آزمائش سے گزارا جاتا ہے۔ یہ آزمائش ہمہ جہت ہے ۔یہ آزمائش بچّے کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے ۔اگر میاں بیوی خوش شکل اور اچھی آمدن سمیت ہر نعمت سے لطف اندوز ہو رہے ہوں تو بھی آزمائش ان کی منتظر ہوتی ہے ۔ بچّے کی پیدائش میں تاخیر ہو تو محلے کی اکثر عورتیں دائی کی خصوصیات اختیار کر لیتی ہیں ۔دو تین سال کا عرصہ گزر جائے تو اکثر صورتوں میں عورت کو طعنے سننا پڑتے ہیں ۔
اگر خدا انہیں اولاد کی نعمت دے دیتا ہے اور اگر یہ بچہ ہمسایوں کے بچّوں کی نسبت کمزوراور کم صورت ہو تو بھی ماں باپ کا دل تکلیف میں رہتا ہے ۔جب جب ان کا لختِ جگر چلتے ہوئے گر جاتا ہے ، روتا اور بلکتا ہے ، ساتھ ہی ماں باپ کے دل بھی بلکتے رہتے ہیں ۔ خدا نخواستہ اگر اس پہ کوئی بڑی بیماری آتی ہے توبچّے کے ساتھ ہی ساتھ ماں باپ بھی گھل کے رہ جاتے ہیں ۔اگر وہ سکول میں ہمسایوں کے بچّے کی نسبت کم کارکردگی دکھاتا ہے ، فیل ہوتا رہتا ہے ، جب کہ ہمسایوں کا بچہ ہمیشہ ٹرافی لے کر آتا ہے تو بھی تکلیف اور آزمائش ۔ انسان یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اس کی زندگی ایک ایسا امتحان ہے ، جس میں اسے دیا جانے والا سوالیہ پرچہ دوسرے امیدواروں کے پرچوں سے بالکل مختلف ہے ۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا تھا:Life is the most difficult exam. Many people fail because they try to copy others, dont realizing , everyone is given a different question paper۔
اس زمین پر سب سے پہلی آزمائش جذبات و احساسات کی ہے ۔ٹرک میں لدی ہوئی بھینسوں کو دیکھیے تو ایک لمحے کے لیے ان پر تر س آتا ہے۔ گہرائی میں اگر سوچیے تو اس ترس کی انہیں چنداں ضرورت نہیں ۔ وہ جنگل میں ہوتیں تو ان کاسب سے بڑا مسئلہ خود کو اور اپنے بچوں کو شیر اور دوسرے درندوں سے محفوظ رکھنا ہوتا۔ ان کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ خوراک کا حصول ہوتا۔ جب یہ دونوں چیزیں انسان کے پاس انہیں مل جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بیماری کی صورت میں علاج بھی میسر آتا ہے تو اس کے بعد انہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس کے علاوہ انہیں اور کسی چیز کا شعور ہی نہیں ۔ وہ کبھی یہ نہیں سوچ سکتیں کہ انسان خود ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھا ہے اوران کا کمرہ گرم ہے ۔ وہ کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کھانا انہیں کھرلی کی بجائے پلیٹ میں دیا جاتا ۔ انہیں ان چیزوں کا شعور ہی نہیں ، وہ توخود ہی پیشاب کر کے اس کے اوپر بیٹھ جاتی ہیں ۔بدبو کا انہیں چنداں احساس نہیں ہوتا ۔ پیچیدہ جذبات و احساسات سے انہیں واسطہ ہی نہیں ۔انہیں شدید ترین تکلیف سے گزاریے ، بعد میں جب انہیں پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے تو انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ اسی انسان نے ان کو تکلیف دی تھی اور اس کے ہاتھ سے کھانا قبول نہ کرنا چاہیے ۔ وہ کبھی اپنی تکلیفوں کا تجزیہ نہیں کر سکتیں ۔ جب تکلیف کا احساس ہی نہ ہو تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک لحاظ سے تکلیف ہے ہی نہیں ۔ اس کے برعکس انسانوں میں دیکھیے تو شاعروں نے اپنے آشیانے کے اجڑنے پر دیوانوں کے دیوان لکھ ڈالے ہیں ۔ سینکڑوں صفحات وہ اپنی تکلیف کی وضاحت میں لکھ ڈالتے ہیں ۔
جانوروں کے برعکس انسان میں یہ پیچیدہ جذبات و احساسات انتہائی حد تک تکلیف دہ ہو سکتے ہیں ۔ انسان میں نفس کی تشکیل اس طرح سے ہے کہ اسے انتہائی تکلیف دہ حالات سے نکال کر انتہائی راحت میں لے جایا جائے اوراس کے بعد اسے ایک چھوٹی سی تکلیف پہنچے توبھی وہ خودترحمی میں مبتلا ہو سکتاہے ۔ جو آسائش اسے میسر آجاتی ہے ، اس کا لطف چند روز ہی میں ختم ہوجاتاہے ۔ انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے ۔ پھر وہ مزید کی آرزو کرتاہے ۔ انسان میں نا شکر گزاری کا جذبہ انتہائی عجیب حدود کو چھوتا دکھائی دیتاہے ۔ اگر ایک شخص ہمیں شدید غربت میں زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کرتاہے اور جب ہمارا پیٹ بھر چکتاہے تو اس کے بعد ہم اپنے اندر اپنے محسن سے ایک نظریاتی اختلاف پیدا کرتے ہیں ۔ ہم اس کی سوچ کو اپنی سوچ سے بدلنا چاہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس سیاسی لیڈر کو میں پسند کرتا ہوں ، میرا محسن بھی اسی کو پسند کرے اور جب ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اندر ہی اندر اس کے خلاف سازشوں کے جال بننے لگتے ہیں ۔
یہاں اس نیلی زمین پر جس آزمائش کا انسانوں کو واسطہ ہے ، وہ ہمہ گیر ہے ۔ انتہائی امیر ، انتہائی کامیاب لوگ، لاکھوں ، کروڑوں لوگ جن کی پیروی کرتے ہوں ، وہ بھی اس آزمائش سے مبرا نہیں ۔ چوہدری پرویز الٰہی ، پرویز رشید، عمران خان اور میاں محمد نواز شریف میں سے اکثر ایک دوسرے کے خلاف جذبہ ء انتقام کے تحت زندگی گزارتے ہیں ۔ یہ جذبہ ء انتقام ان کی رگ رگ میں سرایت کر جاتاہے اور ان کی پوری زندگی اسی کی تسکین میں گزرتی ہے ۔ ایک دوسرے کو وہ تباہ وبرباد دیکھنا چاہتے ہیں اور جب ایسا نہیں ہو پاتا تو انہیں تکلیف پہنچتی ہے ۔
غور سے دیکھنے والی آنکھ ہو تو وہ جان جاتی ہے کہ نفس ایک جیسی صورتِ حال میں ہمیشہ ایک ہی طرح یہ روّیے کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ آپ سکول کے ایک لڑکے کا مذاق اڑائیے یا پھر ایک نواب کا ، دونوں ایک ہی طرح سے ردّعمل دیں گے ۔ جب آپ کسی کا مذاق اڑاتے ہیں اور لوگ ہنستے ہیں تو اس صورت میں ہمیشہ سے احساسِ عد م تحفظ کا شکار نفس پوری قوت سے جوابی وار کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنا مذاق اڑانے والے کو نیست و نابود کر دیاجائے ۔ یوں اکثر مذاق کے نتیجے میں دو نفوس کی ایسی کشمکش شروع ہوتی ہے جو باہمی تعلقات کے مکمل خاتمے ، زبانی یا جسمانی لڑائی پر منتج ہو سکتی ہے ۔
کامیابی کس طرح نئی آزمائشوں کو جنم دیتی ہے ؟ یہ انشاء اللہ ایک الگ مضمون میں ۔