جن نامور صحافیوں اور قلمکاروں نے ان کی وفات پر تاثراتی کالم لکھے ان میں اطہرمسعود، نذیر ناجی، عرفان صدیقی، مجیب الرحمن شامی، حامد میر، خوشنود علی خان، عبدالقادر حسن، نذیر لغاری، عطاءالحق قاسمی، واصف ناگی، خورشید احمد ندیم اور جاوید چودھری شامل ہیں۔ ارشاد احمد حقانی صاحب کے بارے میں لکھتے وقت ان کی وفات کے بعد متذکرہ بالا کالم نگاروں کے تاثراتی کالم میں نے ایک مرتبہ پھر پڑھے اور سب سے اہم بات جو مجھے محسوس ہوئی وہ ان کی نماز جنازہ میں اڑھائی سو سے بھی کم افراد کی شرکت تھی۔ اطہر مسعود نے اس موضوع پر بہت جذباتی انداز میں قلم اٹھایا۔ انہوں نے لکھا کہ حقانی صاحب کا جنازہ دیکھ کر دل دکھی ہوا کیونکہ لگ بھگ ایک کروڑ کی آبادی کے شہر لاہور سے اتنے بڑے صحافی کے نماز جنازہ میں اتنے کم لوگ۔
ان کے کالم کا عنوان ہے ”کاش حقانی صاحب اپنے جنازے کے لوگ دیکھ سکتے“ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس ادارے سے ان کا تعلق تھا اس کے کارکنوں کی تعداد بھی کم و بیش ایک ہزار ہے لیکن وہ سارے بھی جنازے میں شامل نہ تھے۔
میرے دوست نذیر ناجی ‘حقانی صاحب کے جنازے اور ٹیپو ٹرکاں والے کے جنازے کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”اتنے بڑے اہل قلم کے مقابلے میں ٹیپو ٹرکاں والے کے جنازے میں اس قدر مجمع حیرت انگیز تھا۔“ نذیر ناجی یہ بھی لکھتے ہیں” ٹیپو ٹرکاں والا کن اقدار کا نمائندہ تھا یہ پورا شہر جانتا ہے۔ وہ کون سی طاقتوں کا دست و بازو تھا یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لاہور شہر ایسا تو نہیں تھا یہاں اہل علم کے جنازے کافی بڑے ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں جنازوںکے شرکاءسے معاشرے کا اصل چہرہ دکھائی دیتا ہے۔“عرفان صدیقی نے ارشاد احمد حقانی کی نماز جنازہ کے حوالے سے دو اڑھائی سو کی شمولیت پر دکھ کا اظہار کیا اور مرحوم کو کالم نگاروں کا سرخیل قرار دیا۔ میرے بھائی مجیب الرحمن شامی نے پڑھنے والوں کی توجہ اس طرف دلائی کہ دنیا میں 81 سال گزارنے اور اسلامی فلاحی مملکت کے لئے مسلسل قلم اٹھانے والے حقانی صاحب معاملات کی تہہ تک پہنچتے تھے۔ عام لوگ لکھ کر سوچتے ہیں جبکہ حقانی صاحب سوچ کر لکھتے تھے۔ میرے ایک اور دوست خوشنود علی خان نے بھی مرحوم حقانی صاحب کے حوالے سے اپنی یادوں کا تذکرہ کیا اور میرے عزیز حامد میر نے ایک دور میں بینظیر بھٹو صاحبہ کے لئے جذباتی حد تک حمائت کرنے والے حقانی صاحب کو ان کی حکومت برطرف کرنے کے حوالے سے فاروق لغاری صاحب کی نگران حکومت میں وزیراطلاعات بننے تک مرحوم کی سوچ میں تبدیلی کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ میرے محترم عبدالقادر حسن نے بھی جنازے میں بہت کم لوگوں کی شمولیت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ عزیزم جاوید چودھری اور برادرم خورشید احمد ندیم کے کالم بھی بہت خوب ہیں۔ یہ امر حیرت کا باعث ہے کہ ان کی تحریروں پر سر دھننے والے سیاستدانوں، حکمرانوں، اپوزیشن رہنماﺅں، ارکان سینٹ و قومی و صوبائی اسمبلی، بیورو کریٹس میں سے کوئی قابل ذکر شخصیت لاہور کے جنازے میں نظر نہ آئی صرف خورشید محمود قصوری اور سرتاج عزیز دکھائی دیئے۔ جب میت کو قصور لے جایا گیا تو وہاں دوسری بار جنازہ پڑھا گیا تو مقامی ڈی سی او کے علاوہ علاقے کی معروف شخصیات بھی کم ہی دکھائی دیں۔ برادرم اطہر مسعود نے ٹھیک لکھا ہے کہ پٹواری کی بیوی کے جنازے پر ایک خلقت امڈ آئی کہ لوگوں کو پٹواری سے کام پڑتا تھا جبکہ خود اس پٹواری کے جنازے پر گنتی کے چند لوگ تھے کیونکہ اس روز تحصیلدار کا گھوڑا مر گیا تھا اور لوگ افسوس کے لئے تحصیلدار کے ہاں پہنچے ہوئے تھے۔ ذاتی طور پر میں اگرچہ اس بے قدری پر دکھ محسوس کرتا ہوں لیکن میرے خیال میں پاکستان کی صحافتی تاریخ میں حقانی صاحب کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آ سکا۔ انہوں نے زندگی میں جو صحیح اور درست محسوس کیا وہی لکھا اور ایک دور میں اپنی ممدوح بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ میں کرپشن کے قصے زبان زد عام ہونے لگے تو حقانی صاحب بھی ان کے سخت مخالف ہو گئے اور سچائی کا ساتھ دیا حتیٰ کہ ان کی حکومت برطرف کرنے والے فاروق لغاری کی کھل کر حمائت کی بلکہ یہاں تک کہ ان کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ سیاستدانوں میں سے اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف تیسرے چوتھے روز گئے بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نوازشریف بھی تعزیت کے لئے گلبرگ ایم بلاک میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ جس جماعت کے لئے حقانی صاحب برسوں لکھتے رہے پاکستان پیپلزپارٹی کے انتہائی پچھلی صفوں کے سمجھے جانے والے رہنما منیر احمد خان اور منور انجم قصور ان کے جنازے میں شرکت کر سکے جبکہ پارٹی کا کوئی دوسرا مرکزی اور اعلیٰ عہدیدار ان کے نماز جنازہ لاہور یا قصور میں شامل نہ ہو سکا۔ جماعت اسلامی کی جسے حقانی صاحب نے اپنی جوانی دی ان کے لاہور یا قصور میں پڑھے جانے والے جنازوں میں شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی البتہ وفات کے بعد کچھ لوگوں نے ضرور تعزیت کی۔
قارئین ارشاد احمد حقانی صاحب عمر بھر محنت سے کالم اور اداریہ لکھتے رہے اور ان کی زندگی میں دوستی یاری دھڑے بندی کو دور دور تک دخل نہ تھا۔ لاکھوں لوگ ان کے نام سے اور ان کے کام سے واقف تھے لیکن لاہور اور اسلام آباد سے باہر شاید ہی کسی کو ان کی ذاتی زندگی میں کسی محفل یا مجلس کا علم ہو جس میں حقانی صاحب شام کو بیٹھتے ہوں۔ وہ زیادہ وقت پڑھنے اور سننے میں گزارتے اور مختلف صحافتی یا ادبی یا سیاسی مجالس میں شریک نہیں ہوتے تھے لیکن اپنی تحریروں، تجزیوں، اداریوں اور کتابوں کے سبب وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اصغر گونڈوی کے بقول
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی
نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں
یہ آ رہے ہیں یہ جا رہے ہیں
تجزیاتی تحریروں اور اداریوں کی دنیا میں ہمیشہ ارشاد احمد حقانی صاحب کی یادیں تازہ رہیں گی۔ کبھی کبھار میں اپنے قلم سے کچھ لکھتا ہوں تو بہت سے دوستوں کے فون آتے ہیں۔ بائیں جانب سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے ٹیلی فون سیٹ پر البتہ صبح سے شام تک حقانی صاحب کا فون نہیں آتا کیونکہ اخبار میں کوئی بھی چیز اچھی یا دلچسپ چھپتی تو برسوں کی طرح وہ ہمیشہ فون پر تعریف کرتے اور اگر کوئی غلطی ہو جاتی تو بھی بڑے مشفقانہ انداز میں توجہ دلاتے۔ بیکار کی بحثیں یا کسی دوسرے کی چغلی یا کسی کی شکائت ہو کسی سے گلہ ان کے مزاج میں نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ مختصر اور ٹو دی پوائنٹ گفتگو کرتے البتہ آپ ان کے کولیگ ہوں یا نہ ہوں ان کے ساتھ کام کر رہے ہوں یا ان کے ادارے سے الگ ہو چکے ہوں ان کا طرز عمل کبھی نہیں بدلتا تھا اور وہ ہمیشہ ایک بڑے، سینئر اور استاد کی حیثیت سے دوسروں کی راہنمائی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ وہ ذاتی طور پر انتہائی نیک اور بھلے انسان تھے۔
(جاری ہے)
قارئین 24 جنوری 2010ءکو ارشاد احمد حقانی راہی ملک عدم ہوئے تو اس کے فوری بعد میں نے اپنے چینل پر ایک تعزیتی ریفرنس رکھا جس میں میرے علاوہ برادرم اطہر مسعوداور اسد اللہ غالب شریک تھے۔ چینل ۵ پر نشر ہونے والے اس پروگرام کی رپورٹ بھی 27 جنوری کے روز ”خبریں“ کے شمارے میں شائع ہوئی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔
اطہرمسعود نے کہا کہ انسان کو مرنے والے کی ہمیشہ خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔ میزبان ضیاشاہد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنے قد کو بڑا کرنے کےلئے بعض لوگ اپنے خیالات کو بیان کرتے ہیں۔ ارشاداحمد حقانی کی سب لوگ بڑی عزت کرتے ہیں، اطہر مسعود نے کہا کہ ارشاد حقانی کا جنازہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ لاہور ایک کروڑ آبادی کا شہر ہے۔ ان کے چاہنے والے بھی بہت ہیں مگر ان کے جنازہ میں صرف250 آدمی تھے۔ میزبان ضیاشاہد نے کہا کہ اطہر مسعود آپ کا ایک کالم بھی ارشاد احمدحقانی صاحب کے جنازہ کے بارے میں چھپا ہے۔ بہت سے لوگوں کو جنازہ کی بروقت اطلاع بھی نہیں مل سکی۔ اطہر مسعود نے کہا کہ میری عمر 56 سال ہے۔ کل کو ہم نے بھی مرنا ہے مگر جس ادارے میں وہ کام کرتے تھے اس میں کم از کم ایک ہزار افراد کام کرتے ہیں ان کے بھی ہزاروں افراد سے تعلقات تھے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ زندہ انسان کو ہم گلدستے بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے سب کچھ ہیں مگر آج کا دور بڑا خودغرض ہو گیا ہے۔ ارشاداحمد حقانی کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ مگر کسی نے ا ن کی طرف توجہ نہ دی۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون بندہ ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اسد اللہ غالب نے کہا کہ شہر میں ایسا وطیرہ معمول ہے کہ لوگ جنازہ میں شرکت کم ہی کرتے ہیں مگر قصور میں ان کے آبائی شہر میں ایسی صورتحال نہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرا جنازہ بھی میرے آبائی شہر میں ہو۔ کیونکہ دیہات میں 15 گاﺅں کے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ آپ نے مولانا مودودی کا جنازہ دیکھا، ”شورش کاشمیری کا بھی جنازہ دیکھا ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ آپ کے مطابق اطہر مسعود کے ارشاد احمدحقانی صاحب کے جنازہ کے بارے میں اعدادوشمار درست نہیں۔ اطہر مسعود نے اسد اللہ غالب سے کہا کہ ارشاد احمدحقانی پیپلز پارٹی صاحب کے بہت قریب تھے۔ ایک زمانہ میں بینظیر کے بہت قریب تھے۔ بعد میں ان کے اختلافات بھی ہوئے۔ ضیاشاہد نے کہا ارشاد احمدحقانی صاحب آبجیکٹو لکھنے والے بہت بڑے اور بہترین کالم نگار تھے۔ ارشاداحمد حقانی اتنے دلائل سے لکھتے تھے کہ جس کے خلاف بھی لکھتے تھے اس میں کسی کی تذلیل کا پہلو نہیں ہوتا تھا۔ میں نے ان کو ضیاءالحق سے بھی ملاقات کرتے دیکھا اور بہت سے لوگوں نے حکومت پنجاب کو بھی اس بارے آگاہ کیا اور ان کےخلاف ایک کیس بھی چلا۔ ارشاد احمد حقانی کا کالم سب سے زیادہ پڑھا جاتا تھا۔ میں نے 5 سال تک ان کے ساتھ کام کیا۔ ہم نے تقریباً بہت سے وزراءکے انٹرویو کئے۔ آغا شاہی، خاقان عباسی کے بھی، جنرل یعقوب نے ان کی بہت عزت کی اور انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ملاقات کےلئے صرف آدھا گھنٹہ دے دیں۔ جنرل یعقوب علی خان نے کہا کہ ارشاداحمد حقانی صاحب آپ کا ادارہ بھی مجاہدین کا مذاق اڑاتا ہے اور انہوں نے کہا کہ مستقبل میں روس زوال کا شکار ہو گا۔ ہو سکتا ہے آپ یا میں اس وقت تک نہ رہیں مگر اس طرح ہو سکتا ہے۔ جنرل یعقوب علی خان کے ساتھ انہوں نے 30منٹ کے بجائے اڑھائی گھنٹے بات کی۔ جب ملاقات کے بعد ہم باہر نکلے تو میں نے ارشاد احمد حقانی صاحب سے کہا کہ میں نے اس ملاقات اور آپ کی گفتگو سے بہت کچھ سیکھا۔ میں نے ”کوہستان“ سمیت بہت سے اداروں میں کام کیا لیکن میں نے ان سے زیادہ کوئی ویل ریڈ انسان نہیں دیکھا۔ اطہر مسعود نے کہا کہ نواز شریف اور ادارہ ”جنگ“ میں کچھ تضاد ہوا تو اس وقت میں ایڈیٹر تھا۔ ضیاشاہد نے کہا کہ ہمیں کسی بھی ادارے کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ ارشاد احمدحقانی صاحب ایک نہایت کفایت شعار انسان تھے اور میں نے ان کے ساتھ بہت جگہ پر قیام کیا۔ اطہر مسعود نے کہا کہ میں انہیں کفایت شعاری کے حوالے سے ”شیخ“ کہتا ہوں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ذاتی طور پر ارشاد احمدحقانی صاحب کفایت شعار تھے مگر وہ ایک مخیر شخص بھی تھے جو دوسرے لوگوں کا خیال کرتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ فلاڈلفیا اور امریکہ کے مختلف شہروں کے دورے کئے۔ ان کے کسی نہ کسی شہر میں شاگرد موجود تھے جن کی وہ پذیرائی کرتے تھے۔ میں نے بھی اخبار نکالا۔ میں ان کا جونیئر تھا مگر جب بھی اخبار میں کوئی غلطی دیکھتے تھے تو بڑے آرام اور محبت سے کہتے تھے کہ ضیاشاہد یہ جو خبر چھپی ہے اس طرح کے بجائے ایسے ہوتی تو بہتر تھا۔ آج سے سات ماہ پہلے میری ان سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ضیاشاہدصاحب! میرے پاس ایک ایسا بچہ ہے (شفقت حسین) جو بڑا اچھا لکھتا ہے اس کو معقول تنخواہ پر رکھ لو۔ آگے چل کر بڑا نام پیدا کرے گا۔ اسد اللہ غالب نے کہا کہ استاد کی حیثیت سے وہ بڑے فیاض تھے۔ صحافت میں کوئی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنے شعبہ میں استاد ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ خوشنود علی خان بھی تھے۔ انہوں نے سرخیاں درست نہ نکلنے پر تنقید بھی کی۔ ارشاد احمد حقانی قصور کے بڑے صنعتکار تھے اور ان کا مشترکہ خاندانی کاروبار تھا۔ چاہتے تو بڑی گاڑیاں بھی لے سکتے تھے مگر بس میں لاہور آتے تھے۔ ایک مرتبہ حادثہ میں ان کا کندھا بھی ٹوٹ گیا۔ ضیاشاہد نے کہا کہ میں نے” تسنیم“ میں بھی کام کیا ان کا تعلق صنعتکار خاندان سے تھا۔ وہ لیکچرار بھی تھے مگر ہمیشہ ٹرین میں آتے تھے۔ انہوں نے سائیکل بھی رکھی ہوئی تھی۔ ضیاشاہد نے کہا کہ وہ اپنی پرسنل لائف میں بہت سادہ تھے۔ میں نے ان کی سیلری اور خاندانی کاروبار کے متعلق بھی دیکھا کہ وہ پیسے کا دفتر میں بھی ضیاع نہیں کرتے تھے۔ عدنان مرحوم اکثر انہیں اپنی موٹر سائیکل پر مزنگ تک لیکرجاتے تھے تاکہ وہ قصور کی گاڑی پر سوار ہو سکیں۔ وہ کبھی عدنان کےلئے شرٹ یا خوشبو بھیجا کرتے تھے۔ میں جس خوبی کی طرف اشارہ دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اب ایسی باتیں نہیں رہیں جب میری بیٹی نے ایم بی بی ایس کیا تو انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا بھی ڈاکٹر ہے اور یہ بہت اچھا ہے کہ بیٹیاں بھی ڈاکٹر بنیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ ضیاشاہد میں نے تمہارے گھر جانا ہے۔ وہ میرے گھر آئے اور بیٹی کو بلا کر پیار دیا۔ میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ کوثر نیازی نے ایک کتاب لکھی ”اور لائن کٹ گئی“ میر شکیل الرحمن بھی دفتر میں موجود تھے۔ ارشاداحمد حقانی نے بینظیر کے بارے میں ایک قصیدہ پڑھا کہ ایک لڑکی ایشیا بدل سکتی ہے۔ کوثر نیازی نے کہا کہ ارشاداحمد حقانی صاحب! آپ وہاں پہنچنا چاہ رہے ہیں جہاں میں 8سال رہ کر آیا ہوں اور ایک نہ ایک دن آپ وزیر اطلاعات بنیں گے۔ اسد اللہ غالب نے کہا کہ حقانی صاحب میرے بزرگ تھے اور ایسا لگتا ہے کہ میں آج دوبارہ یتیم ہوا ہوں۔ ضیاشاہد نے ارشاد احمد حقانی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ گو کہ ارشاد احمدحقانی صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا مقام نہایت ہی الگ ہے اور شاید ہی کوئی اس مقام تک پہنچ سکے