قارئین 24 جنوری 2010ءکو ارشاد احمد حقانی راہی ملک عدم ہوئے تو اس کے فوری بعد میں نے اپنے چینل پر ایک تعزیتی ریفرنس رکھا جس میں میرے علاوہ برادرم اطہر مسعوداور اسد اللہ غالب شریک تھے۔ چینل ۵ پر نشر ہونے والے اس پروگرام کی رپورٹ بھی 27 جنوری کے روز ”خبریں“ کے شمارے میں شائع ہوئی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔
اطہرمسعود نے کہا کہ انسان کو مرنے والے کی ہمیشہ خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔ میزبان ضیاشاہد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنے قد کو بڑا کرنے کےلئے بعض لوگ اپنے خیالات کو بیان کرتے ہیں۔ ارشاداحمد حقانی کی سب لوگ بڑی عزت کرتے ہیں، اطہر مسعود نے کہا کہ ارشاد حقانی کا جنازہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ لاہور ایک کروڑ آبادی کا شہر ہے۔ ان کے چاہنے والے بھی بہت ہیں مگر ان کے جنازہ میں صرف250 آدمی تھے۔ میزبان ضیاشاہد نے کہا کہ اطہر مسعود آپ کا ایک کالم بھی ارشاد احمدحقانی صاحب کے جنازہ کے بارے میں چھپا ہے۔ بہت سے لوگوں کو جنازہ کی بروقت اطلاع بھی نہیں مل سکی۔ اطہر مسعود نے کہا کہ میری عمر 56 سال ہے۔ کل کو ہم نے بھی مرنا ہے مگر جس ادارے میں وہ کام کرتے تھے اس میں کم از کم ایک ہزار افراد کام کرتے ہیں ان کے بھی ہزاروں افراد سے تعلقات تھے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ زندہ انسان کو ہم گلدستے بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے لئے سب کچھ ہیں مگر آج کا دور بڑا خودغرض ہو گیا ہے۔ ارشاداحمد حقانی کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ مگر کسی نے ا ن کی طرف توجہ نہ دی۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون بندہ ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اسد اللہ غالب نے کہا کہ شہر میں ایسا وطیرہ معمول ہے کہ لوگ جنازہ میں شرکت کم ہی کرتے ہیں مگر قصور میں ان کے آبائی شہر میں ایسی صورتحال نہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرا جنازہ بھی میرے آبائی شہر میں ہو۔ کیونکہ دیہات میں 15 گاﺅں کے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ آپ نے مولانا مودودی کا جنازہ دیکھا، ”شورش کاشمیری کا بھی جنازہ دیکھا ہے۔ ضیاشاہد نے کہا کہ آپ کے مطابق اطہر مسعود کے ارشاد احمدحقانی صاحب کے جنازہ کے بارے میں اعدادوشمار درست نہیں۔ اطہر مسعود نے اسد اللہ غالب سے کہا کہ ارشاد احمدحقانی پیپلز پارٹی صاحب کے بہت قریب تھے۔ ایک زمانہ میں بینظیر کے بہت قریب تھے۔ بعد میں ان کے اختلافات بھی ہوئے۔ ضیاشاہد نے کہا ارشاد احمدحقانی صاحب آبجیکٹو لکھنے والے بہت بڑے اور بہترین کالم نگار تھے۔ ارشاداحمد حقانی اتنے دلائل سے لکھتے تھے کہ جس کے خلاف بھی لکھتے تھے اس میں کسی کی تذلیل کا پہلو نہیں ہوتا تھا۔ میں نے ان کو ضیاءالحق سے بھی ملاقات کرتے دیکھا اور بہت سے لوگوں نے حکومت پنجاب کو بھی اس بارے آگاہ کیا اور ان کےخلاف ایک کیس بھی چلا۔ ارشاد احمد حقانی کا کالم سب سے زیادہ پڑھا جاتا تھا۔ میں نے 5 سال تک ان کے ساتھ کام کیا۔ ہم نے تقریباً بہت سے وزراءکے انٹرویو کئے۔ آغا شاہی، خاقان عباسی کے بھی، جنرل یعقوب نے ان کی بہت عزت کی اور انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ملاقات کےلئے صرف آدھا گھنٹہ دے دیں۔ جنرل یعقوب علی خان نے کہا کہ ارشاداحمد حقانی صاحب آپ کا ادارہ بھی مجاہدین کا مذاق اڑاتا ہے اور انہوں نے کہا کہ مستقبل میں روس زوال کا شکار ہو گا۔ ہو سکتا ہے آپ یا میں اس وقت تک نہ رہیں مگر اس طرح ہو سکتا ہے۔ جنرل یعقوب علی خان کے ساتھ انہوں نے 30منٹ کے بجائے اڑھائی گھنٹے بات کی۔ جب ملاقات کے بعد ہم باہر نکلے تو میں نے ارشاد احمد حقانی صاحب سے کہا کہ میں نے اس ملاقات اور آپ کی گفتگو سے بہت کچھ سیکھا۔ میں نے ”کوہستان“ سمیت بہت سے اداروں میں کام کیا لیکن میں نے ان سے زیادہ کوئی ویل ریڈ انسان نہیں دیکھا۔ اطہر مسعود نے کہا کہ نواز شریف اور ادارہ ”جنگ“ میں کچھ تضاد ہوا تو اس وقت میں ایڈیٹر تھا۔ ضیاشاہد نے کہا کہ ہمیں کسی بھی ادارے کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ ارشاد احمدحقانی صاحب ایک نہایت کفایت شعار انسان تھے اور میں نے ان کے ساتھ بہت جگہ پر قیام کیا۔ اطہر مسعود نے کہا کہ میں انہیں کفایت شعاری کے حوالے سے ”شیخ“ کہتا ہوں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ ذاتی طور پر ارشاد احمدحقانی صاحب کفایت شعار تھے مگر وہ ایک مخیر شخص بھی تھے جو دوسرے لوگوں کا خیال کرتے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ فلاڈلفیا اور امریکہ کے مختلف شہروں کے دورے کئے۔ ان کے کسی نہ کسی شہر میں شاگرد موجود تھے جن کی وہ پذیرائی کرتے تھے۔ میں نے بھی اخبار نکالا۔ میں ان کا جونیئر تھا مگر جب بھی اخبار میں کوئی غلطی دیکھتے تھے تو بڑے آرام اور محبت سے کہتے تھے کہ ضیاشاہد یہ جو خبر چھپی ہے اس طرح کے بجائے ایسے ہوتی تو بہتر تھا۔ آج سے سات ماہ پہلے میری ان سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ضیاشاہدصاحب! میرے پاس ایک ایسا بچہ ہے (شفقت حسین) جو بڑا اچھا لکھتا ہے اس کو معقول تنخواہ پر رکھ لو۔ آگے چل کر بڑا نام پیدا کرے گا۔ اسد اللہ غالب نے کہا کہ استاد کی حیثیت سے وہ بڑے فیاض تھے۔ صحافت میں کوئی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنے شعبہ میں استاد ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ خوشنود علی خان بھی تھے۔ انہوں نے سرخیاں درست نہ نکلنے پر تنقید بھی کی۔ ارشاد احمد حقانی قصور کے بڑے صنعتکار تھے اور ان کا مشترکہ خاندانی کاروبار تھا۔ چاہتے تو بڑی گاڑیاں بھی لے سکتے تھے مگر بس میں لاہور آتے تھے۔ ایک مرتبہ حادثہ میں ان کا کندھا بھی ٹوٹ گیا۔ ضیاشاہد نے کہا کہ میں نے” تسنیم“ میں بھی کام کیا ان کا تعلق صنعتکار خاندان سے تھا۔ وہ لیکچرار بھی تھے مگر ہمیشہ ٹرین میں آتے تھے۔ انہوں نے سائیکل بھی رکھی ہوئی تھی۔ ضیاشاہد نے کہا کہ وہ اپنی پرسنل لائف میں بہت سادہ تھے۔ میں نے ان کی سیلری اور خاندانی کاروبار کے متعلق بھی دیکھا کہ وہ پیسے کا دفتر میں بھی ضیاع نہیں کرتے تھے۔ عدنان مرحوم اکثر انہیں اپنی موٹر سائیکل پر مزنگ تک لیکرجاتے تھے تاکہ وہ قصور کی گاڑی پر سوار ہو سکیں۔ وہ کبھی عدنان کےلئے شرٹ یا خوشبو بھیجا کرتے تھے۔ میں جس خوبی کی طرف اشارہ دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اب ایسی باتیں نہیں رہیں جب میری بیٹی نے ایم بی بی ایس کیا تو انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا بھی ڈاکٹر ہے اور یہ بہت اچھا ہے کہ بیٹیاں بھی ڈاکٹر بنیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ ضیاشاہد میں نے تمہارے گھر جانا ہے۔ وہ میرے گھر آئے اور بیٹی کو بلا کر پیار دیا۔ میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ کوثر نیازی نے ایک کتاب لکھی ”اور لائن کٹ گئی“ میر شکیل الرحمن بھی دفتر میں موجود تھے۔ ارشاداحمد حقانی نے بینظیر کے بارے میں ایک قصیدہ پڑھا کہ ایک لڑکی ایشیا بدل سکتی ہے۔ کوثر نیازی نے کہا کہ ارشاداحمد حقانی صاحب! آپ وہاں پہنچنا چاہ رہے ہیں جہاں میں 8سال رہ کر آیا ہوں اور ایک نہ ایک دن آپ وزیر اطلاعات بنیں گے۔ اسد اللہ غالب نے کہا کہ حقانی صاحب میرے بزرگ تھے اور ایسا لگتا ہے کہ میں آج دوبارہ یتیم ہوا ہوں۔ ضیاشاہد نے ارشاد احمد حقانی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ گو کہ ارشاد احمدحقانی صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا مقام نہایت ہی الگ ہے اور شاید ہی کوئی اس مقام تک پہنچ سکے۔
اور اب آخر میں جناب ارشاد احمد حقانی کے کالموں اور سیاسی تجزیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سینئر اور ممتاز شاعر حبیب جالب نے اپنی ایک خوبصورت نظم میں جو کچھ کہا وہ پیش خدمت ہے:
حبیب جالب لکھتے ہیں:
نہ تم ذرے کو صحرا لکھ رہے ہو
نہ تم قطرے کو دریا لکھ رہے ہو
نہ قاتل کو مسیحا لکھ رہے ہو
نہ طوفان کو کنارہ لکھ رہے ہو
نہ ظلمت کو اجالا لکھ رہے ہو
نہ جگنو کو ستارہ لکھ رہے ہو
امیروں بے ضمیروں کی نظر میں ہے
برا ہے تم جو اچھا لکھ رہے ہو
لگاﺅ ہے تمہیں دارورسن سے
کہ تم جھوٹے کو جھوٹا لکھ رہے ہو
تمہیں پڑھ پڑھ کے ہم حیرت زدہ ہیں
لکھے گا کون جیسا لکھ رہے ہو
خوشامد چارسو ہے کارفرما
کہاں ”حرف تمنا“ لکھ رہے ہو