اسلام آباد سے دھرنا گزر گیا۔ جاتے جاتے اپنے دور رس اثرات چھوڑ گیا‘ جن کا ریاست کے تمام ستون اپنے جُثے کے مطابق جائزہ لے رہے ہیں ۔ پارلیمان کے معزز اراکین ہوں یا عدلیہ کے عزت مآب جج صاحبان… سب دھرنے کے اسباب جاننے اور تاثرات بیان کرنے میں مصروف ہیں۔ اسلام آباد انتظامیہ کے پبلک سرونٹس ہوشربا تجربے سے گزرنے کے باوجود چپ سادھے ہوئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت تین ہفتے تک عجیب کیفیت میں مبتلا رہا۔ میڈیا نے روزِ اول سے دھرنے کو شہ سرخیوں میں سمو لیا تھا۔ پرنٹ میڈیا صفحہ اول سے آخر تک دھرنے کی دہائی دیتا رہا۔ الیکڑانک میڈیا نے بھی زوم اور کلوز‘ دونوں انداز میں قائدینِ دھرنا کو نمایاں کئے رکھا۔ یوں دو چار ہزار افراد کا دھرنا گھر گھر پہنچ گیا۔ دھرنا ایک حساس معاملے پر نواز لیگ کی روایتی کج فہمی کی عکاسی کر رہا تھا۔ حکومت کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اسے محض غلطی کہا جا سکتا ہے۔ پارلیمان کے اراکین کی اکثریت نے غلطی کی وضاحت کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے داخلِ دفتر کر دیا تھا۔ دھرنا لاہور سے روانہ ہوا اور اسلام آباد کی اہم ترین کراسنگ فیض آباد پر خیمہ زن ہو گیا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے مابین سفر عذاب سے کم نہیں تھا۔ بوڑھے افراد، خواتین، بچوں اور علیل مسافروں پر جو گزری وہ تکلیف دہ روداد ہے؛ تاہم سب سے زیادہ لرزہ خیز کیفیت حکومتی رویے نے طاری کی ہے۔ اسلام آباد پولیس کا بہت شہرہ سنتے تھے۔ اُس کی مدد کے لیے فرنٹیر کانسٹیبلری اور پاکستان رینجرز (پنجاب) کے دستے بھی موجود تھے۔ یہ سب تعداد میں آٹھ ہزار کے لگ بھگ تھے۔ انتظار وزیر داخلہ احسن اقبال صاحب کی عالمانہ حکمتِ عملی اور احکامات کا تھا۔ موصوف نے میڈیا سے گفتگو کے دوران شہریوں کا حوصلہ بلند رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُدھر دھرنے والے مطالبات کی منظوری کے بغیر کسی سمجھوتے پر تیار نہ تھے۔ آخرکار اعلیٰ عدلیہ نے حالات کا نوٹس لیا‘ اور حکومت کی جواب طلبی کی۔ فیض آباد راستے کو عام شہریوں کے لیے کھولنے کا حکم دیا گیا۔ عام شہریوں کے ساتھ پارلیمان اور میڈیا کو بھی اُمید تھی کہ صورتحال قابو میں آجائے گی۔ دوسری جانب دھرنے والے بھی مکمل تیاری کی حالت میں تھے۔ آپریشن کا نتیجہ انتظامیہ کی پسپائی کی صورت میں برآمد ہوا۔ وزیر داخلہ نے فی الفور آپریشن سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے معاملات کو مزید الجھا دیا۔ قصہ مختصر! آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کا آغاز کیا۔ مذاکرات کے نتیجے میں حکومت اور دھرنا قیادت کے مابین سمجھوتہ پا گیا اور اسلام آباد میں صورتحال معمول پر آ گئی۔
دھرنے کے تین ہفتے بیان بازی عروج پر رہی۔ خاص طور سے سوشل میڈیا کے ذریعے ہر فریق نے دل کھول کر رائے زنی کی اور ایک دوسرے کو معطون کرنے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی گئی۔ فرقہ واریت اور فقہی اختلافات کو نمایاں کرنے کے لیے گھٹیا ترین انداز اپنایا گیا۔ یہ سلسلہ گھر گھر پھیل گیا‘ جس کے نتیجے میں بحث مباحثے معمول بن گئے۔ حکومت نے نا جانے کس کے اصرار پر سرکاری ٹی وی کو چھوڑ کر باقی تمام نیوز چینلز بند کر دئیے۔ اس اقدام سے افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ حکومت کی بے بسی میں اضافہ عام شہری کے لیے پریشان کن تھا۔ راولپنڈی کے بعض علاقوں میں بے یقینی اور لاقانونیت کے مناظر میڈیا میں بھی رپورٹ ہوئے‘ لیکن انتظامیہ کے پاس شاید صورتحال سے بھرپور اندازمیں نمٹنے کے لیے واضح ہدایات نہیں تھیں۔
23 نومبر2017ء کو سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ”ریاست ختم ہوئی تو سڑکوں پر قتل ہوں گے، میڈیا والے اشتعال پھیلانے والوں کو کیوں بلاتے ہیں‘‘۔ سپریم کورٹ کا یہ انتباہ ریاست کے تمام ستونوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ہر وقت سویلین بالادستی کا راگ الاپنے والوں میں ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت اور صلاحیت کا فقدان ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کی دھرنے کے دوران گفتگو اور احکامات سے ہی بے بسی نمایاں تھی۔ ظاہر ہے کہ جب سیاسی قائدین کے اعصاب شل ہو جائیں تو ماتحت انتظامیہ کی حیثیت پالتو جانوروں کے ریوڑ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اسلام آباد میں پولیس اور ایف سی کا مشترکہ آپریشن بدقسمتی سے ”ریوڑ ‘‘ کی بھاگ دوڑ سے زیادہ نہیں تھا۔ خاص طور سے صوبہ پختوں خوا سے تعلق رکھنے والے فرنٹیر کانسٹیبلری (ایف سی) کے جوان پتھرائو سے زیادہ زخمی ہوئے‘ کیونکہ اکثریت کے پاس ہیلمٹ نہیں تھے۔ آپریشن میں شریک پولیس افسران اور جون الگ کہانی سناتے ہیں ۔ رہی سہی کسر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پوری کر دی‘ جنہوں نے ایک میٹنگ میں موجودہ وزیر داخلہ احسن اقبال کو آپریشن کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ دونوں میں تلخ کلامی ہوئی تاہم بات واضح نہیں ہو سکی۔ شاید اس کی بنیادی وجہ نواز لیگ کے موجودہ سربراہ نواز شریف کی عدالتی نااہلی ہے۔ اس کیفیت نے برسر اقتدار جماعت کے سیاسی اعصاب شل کر دئیے ہیں ۔ درست فیصلے کی اہلیت نااہلی کے فیصلے سے پہلے بھی خال خال تھی‘ اب مہر ثبت ہو چکی ہے۔ گزرے دس برس کے دوران سیاسی کج فہمی اور خاندانی طرزِ حکومت نے وطنِ عزیز کو سماجی افراتفری اور فرقہ واریت کی جانب دھکیل دیا ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کے دھرنے کے بعد یہ پیغامات دیوارِ سیاست پر نمایاں ہیں۔
ذہن میں سپریم کورٹ کا یہ انتباہ گونج رہا ہے کہ ”ریاست ختم ہوئی تو سڑکوں پر قتل ہوں گے‘‘۔ شاید اس گونج کو ایک سبب سابق یوگوسلاویہ میں ڈیڑھ برس سے زائد قیام ہے۔ پاک فوج کا ایک دستہ مئی 1996ء میں سابق یوگو سلاویہ کے علاقے ایسٹرن سلوانیا میں اقوام متحدہ امن فوج کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ امن فوج میں دیگر اکتیس ممالک کی افواج کے چھوٹے بڑے گروپ تھے۔ پاکستان کے دستے میں بلوچ رجمنٹ کی پانڈو بٹالین، لانسر رجمنٹ کا سکاڈرن، آرٹلری رجمنٹ کی بیٹری کے علاوہ انجینئرز، سگنل اور میڈیکل کور کی پلاٹون تھیں۔ راقم الحروف آئی ایس پی آر افسر کی حیثیت سے پاک دستے کا پریس رابطہ افسر تھا۔ برگیڈیئر طارق رسول کمان کر رہے تھے۔ یوگو سلاویہ ریاست تاریخ میں دو مرتبہ شکست و ریخت کا شکار ہوئی۔ پریس رابطہ افسر کی حیثیت سے مجھے مقامی میڈیا سے دل کھول کر تبادلہ خیالات کا موقع ملا جس سے ریاست کی مرحلہ وار توڑ پھوڑ کے اسباب سے بھرپور آگاہی ہوئی۔ جنگ میں سرب، کروشین اور مسلمان بنیادی متحارب گروہ تھے۔ وفاقی فوج کے ارکان اور دیگر سول فورسز وقت گزرنے کے ساتھ متحارب گروہوں میں شامل ہو گئے۔ رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی‘ جو صبح شام تحریروں اور ٹی وی ریڈیو پروگرامز کے ذریعے جلتی پر تیل کا کام کرتا تھا۔ سماجی اثرات بے حد بھیانک تھے۔ یوگوسلاویہ کے مردِ آہن مارشل ٹیٹو نے ایک مربوط معاشرے کی بنیاد رکھی تھی۔ مارشل ٹیٹو کے انتقال کے بعد سیاسی رہنما اور شہریوں کی کثیر تعداد مغربی جمہوریت کے آسیب کا شکار ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں ٹکرائو ناگزیر تھا۔ ظلم و تشدد کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ انسانیت شرما گئی۔ یوگوسلاویہ کے مختلف علاقوں خاص طور سے بوسنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اقوام متحدہ کی افواج نیلی کیپ پہنے یوگوسلاویہ پہنچ گئیں۔ پاک فوج کا دستہ سرب اکثریت کے علاقے میں تھا۔ ہماری ذمہ داری کے علاقے میں حدِ نظر تک انگوروں کے باغات تھے۔ شہد اور دیگر کھانے پینے کی اشیا وافر مقدار میں تھیں۔ سوشل سکیورٹی کا سایہ جنگ کے دوران بھی بوڑھے افراد کو میسر تھا۔ ہم حیران تھے کہ ایک ہنستے بستے ملک کے رہنے والوں کو آخر کیا ہو گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب نے نفرت اور حقارت کے الائو میں ایک دوسرے کو دھکیل دیا۔ جواب ایک ہی تھا کہ ریاست کو ختم کرنے کے منصوبہ سازوں نے ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت لسانی، فرقہ وارانہ، فقہی، سماجی اور علاقائی تنازعات کو بھرپور انداز میں فروغ دیا۔ سیاستدان بنیادی نظریات کے حوالے سے تقسیم ہوئے۔ اُس کے بعد ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ میڈیا ریٹنگ کے چکر میں افراتفری کا سہولت کار بن گیا۔ اب عوام تھے اور نامعلوم ذرائع سے آنے والے ہتھیاروں کے انبار جو خون ریز جنگ کا اصل سبب تھے۔ یوگوسلاویہ کے توڑ پھوڑ کی کہانی اقوام عالم کے لیے درسِ عبرت ہے۔
ہمارے لیے سپریم کورٹ کا تازہ ترین انتباہ ہی کافی ہ