شاید 1960کا ذکر ہے ایوب خان والے مارشل لا کو کم و بیش دو برس گزر چکے تھے جب میں میٹرک کر کے لاہور آیا اور کالج میں داخلہ لیا۔ مجھے شروع ہی سے سیاسی جلسے سننے کا بہت شوق تھا۔ لاہور میں ان دنوں موچی گیٹ کی جلسہ گاہ سب سے بڑی جگہ سمجھی جاتی تھی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کی طرف سے جاتے ہوئے برانڈرتھ روڈ کے اختتام پر چند گز آگے موچی دروازے کی جلسہ گاہ شروع ہوتی تھی۔ مینار پاکستان سے پہلے وہی جلسہ گاہ ’’عظیم الشان‘‘ جلسہ گاہ تھی جو بھری ہوتی ہو تو لاکھوں کا جلسہ لکھا جاتا تھا حالانکہ ایک بار اخباروں میں یہ بحث چھڑی تو کسی نے پیمائش کرکے یہ دعویٰ کیا کہ جلسہ گاہ کے اندر صرف 36ہزار افراد آتے ہیں اور اگر سرکلر روڈ اور برانڈرتھ روڈ بھی کھچا کھچ بھرے ہوں اور اطراف کی تمام سڑکیں بھی جہاں سے سٹیج نظر نہ آتا ہو مگر لاؤڈ سپیکروں پر جو دور تک لگائے جاتے تھے صرف آواز سنائی دیتی ہو تو کل تعداد ملا کر 90/80ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔ ایوب خان کا دور تھا اور رفتہ رفتہ لوگ ان کے خلاف لوگ لب کھولنے لگے تھے۔ پہلا جلسہ جو میں نے وہاں سنا اس میں نوابزادہ نصراللہ، سید مودودی اور آغا شورش کاشمیری کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ سید مودودی نے اپنی نستعلیق اردو میں ’’NO LAW‘‘ کی تشریح کی اور کہا کہ کسی کھیت کی حفاظت کیلئے اس کے چاروں اطراف اونچی باڑ لگائی گئی لیکن کھیت کی حفاظت پر مامور چوکیدار ہی اس کھیت کا دشمن بن گیا۔ آغا شورش کاشمیری کی تقریر زبان دانی اور خطابت کا عمدہ نمونہ ہوتی تھی۔ وہ جب ایوب خان کو للکارتے تو یار لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر دعویٰ کرتے کہ آج رات پولیس انہیں اٹھاکر لے جائے گی۔ نوابزادہ نصراللہ خان احراری لیڈروں کی طرح فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے اشعار سناتے اور ایسی حکایات بیان کرتے کہ سننے والوں کے اندر ایک آگ سے بھڑکنے لگتی اور جی چاہتا کہ جلسہ ختم ہو اور ہم مارشل لاء لگانے والے آمر کی قیام گاہ واقع اسلام آباد کی طرف چڑھ دوڑیں۔ ان جلسوں میں وقتاً فوقتاً دوسرے مقرر بھی شامل ہوتے رہتے۔ میں نے یہاں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، خان عبدالقیوم خان، ولی خان کے علاوہ بعد میں آنے والے برسوں میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کو بھی سنا۔ اصغر خان کو بھی یہیں گرجتے اور برستے دیکھا اور پھر ہم نے ایک نسل کو دوسری نسل میں ڈھلتے بھی دیکھا۔ حنیف رامے، غلام مصطفی کھر اور پروفیسر خورشید احمد، خواجہ محمد رفیق (خواجہ سعد رفیق کے والد) بھی ان جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موچی دروازہ لاہور کا دل بن گیا۔ یہاں سے جو نعرے اٹھتے وہ پورے ملک میں پھیل جاتے۔ اس سے پہلے احمدیوں کے خلاف تحریک چل چکی تھی اور اس تحریک میں احمدیوں کے عقیدے کے خلاف مجلس ختم نبوت ؐ کے اہتمام سے بے شمار تقریریں ہوئیں جو مرکزی جلسہ گاہوں سے نکل کر گلی گلی کوچہ کوچہ میں بنی ہوئی مساجد میں جاپہنچیں۔ جلسے اور جلوس کا موضوع احمدیوں کو اقلیت قرار دو بن گیا پھر لاہور میں محدود طور پر مارشل لاء لگا۔ پنجاب بھر میں پکڑ دھکڑ کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس تحریک میں مارشل لاء کے تحت وہ فوجی عدالتیں بنیں جن کے سامنے سید مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو تحریک ختم نبوت کے بڑے ملزموں کے طور پر پیش کیا گیا۔ مشہور ہے کہ مولانا عبدالستار خان نیازی جو اپنی جماعت کے علاوہ مسلم لیگ کی تحریک میں بھی شامل تھے اور جنہوں نے زندگی کے آخری دور میں اپنے پارٹی لیڈر مولانا شاہ احمد نورانی سے بغاوت کرکے جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ تشکیل دیا۔ تحریک ختم نبوت ؐ کے بارے میں مشہور تھا کہ مولانا عبدالستار نیازی نے پولیس سے بچنے کیلئے اپنی داڑھی منڈوا دی تھی اور زیر زمین چلے گئے تھے لیکن پولیس نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور سید مودودی کے ساتھ انہیں بھی فوجی عدالت میں پیش کرنا شروع کیا۔ سید مودودی نے انتہائی ہمت اور بہادری سے اپنے گھر سے گرفتاری دی اور انہیں کبھی خوف سے ہمکنار ہوتے نہیں دیکھا گیا۔ انہوں نے عدالت میں ٹھونک بجاکر کہا کہ احمدی غیر مسلم ہیں اور انہیں اپنی تقریروں یا تحریروں پر کوئی افسوس نہیں۔ عدالت نے سید مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی دونوں کو سزائے موت دی۔ ملک میں احتجاجی جلسے شروع ہوئے اور بے شمار لوگ گرفتار ہوئے تاہم دونوں حضرات نے کسی قسم کا معافی نامہ پیش کرنے سے انکار کردیا۔ ان دنوں مسئلہ قادیانیت پر سید مودودی کالکھا ہوا پمفلٹ پاکستان میں بے تحاشا پڑھا گیا۔ چنانچہ عوام کے پرزور اصرار پر یہ سزائیں ختم کرنا پڑیں۔ پاکستان بننے سے لے کر مودودی صاحب کی وفات تک انہیں متعدد بار سیفٹی ایکٹ اور دوسرے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا اور کئی جیلوں میں انہیں کافی وقت گزارنا پڑا لیکن انہوں نے پہاڑ جیسے حوصلے کے ساتھ ہر جیل کاٹی اور اپنے وقار اور احترام میں اضافہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایوب خان نے انہیں ایک مرتبہ پیغام بھیجا کہ اگر وہ حکومت کی مخالفت ترک کردیں اور سیاست چھوڑ دیں تو وہ انہیں مذہبی وزارت سونپ دیں گے اور مرکزی وزیر کی حیثیت سے وہ دین کی اور زیادہ خدمت کر سکیں گے مودودی صاحب نے جواب دیا کہ میں ایسی حکومت میں جس کے بے شمار قوانین قرآن و سنت کے مخالف جاتے ہوں اس میں شامل نہیں ہو سکتا اور یہ کہ انہیں اقتدار کا مطلق شوق نہیں۔ سیاست چھوڑنے کیلئے دباؤ باہر سے سے ہی نہیں خود جماعت کے اندر سے بھی بڑھنے لگا تھا۔ یہ ایوب خان کے آنے سے پہلے کی بات ہے یعنی فروری 1957میں ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے ایک علاقے ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کا ایک بھرپور سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس میں جماعت اسلامی کا ایک دھڑا اسی بنیاد پر الگ ہوگیا کہ وہ سیاست میں حصہ لینے اور الیکشن میں حصہ لینے کا مخالف تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا اسرار احمد جو بعد میں ڈاکٹر اسرار احمد کے نام سے مشہور ہوئے دو صحافیوں عرفان غازی اور سلطان غازی کے والد عبدالجبار غازی کے علاوہ معروف صحافی اور دانشور ارشاد احمد حقانی اس صف میں شامل تھے۔ سید مودودی ان کے نقطہ نظر سے متفق نہیں تھے اور ان کا خیال تھا کہ الیکشن کا میدان مخالفین کیلئے کھلا چھوڑنا از خود شکست کو تسلیم کرنا ہے جبکہ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ کسی میدان میں ہار کو تسلیم نہ کرے بلکہ جب تک زندہ رہے ہر جگہ اور ہر مقام پر جس بات کو حق اور سچ سمجھتا ہو اس پر سختی سے قائم رہے۔
سید مودودی کی جماعت اسلامی کو ہمیشہ تنظیمی اعتبار سے ایک مضبوط جماعت سمجھا جاتا تھا اور کوئی اتحاد اس وقت تک کامیاب قرار نہیں پاتاتھا جب تک اس کے مرکزی حصے کے طور پر جماعت شامل نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے سید مودودی کی یہ سوچ تھی کہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح جماعت بھی اس کے چھوٹے بڑے ہزاروں ارکان پر مشتمل نہ ہو بلکہ وہ تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی طرح شراکت کے احساس کو اس حد تک لے گئے کہ وہ ارکان جن کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہ تھا کو جماعت اسلامی اپنے مرکزی فنڈ میں سے تنخواہیں اور مکان کا کرایہ تک دیتی تھی اس طرح جماعت کو بے شمار فل ٹائم سیاسی کارکن مل گئے اور اسے مضبوط ترین تنظیم کے سبب کامیاب قوت نافذہ کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر جماعت کے پاس اس کے اپنے ہی کارکنوں کی صورت میں فل ٹائم ملازم نہ ہوتے تو جماعت تنظیمی طور پر اتنی مضبوط نہ ہوتی۔ سید مودودی پر عقائد کے اعتبار سے ملک بھر کے مولوی حضرات سخت تنقید کرتے تھے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث بعد میں آنے والی جماعتیں اہلسنت والجماعت اور دوسرے بے شمار چھوٹے بڑے گروپس کی لڑائی جماعت اسلامی سے اس لیے تھی کہ وہ مولوی حضرات اپنے مقابلے میں زیادہ مقبولیت اور زیادہ کھالیں جمع کرنے کی صلاحیت کے باعث اسے اپنا رقیب سمجھتے تھے۔ برسوں تک جمعہ کے روز نماز پڑھ کر میں جس مسجد سے نکلا مسجد کے دروازے پر مودودی صاحب کے خلاف کفر کے فتوے والے پمفلٹ پڑھنے کو ملے بعض بظاہر سکالرز حضرات نے مودودی صاحب کی سوچ کو فتنہء مودودی قرار دیا۔ بعدازاں پیپلزپارٹی جو 1977کے الیکشن میں مودودی صاحب کی جماعت کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑی ہوگئی (یہ بھی یاد رہے کہ جماعت اسلامی تنہا نہیں تھی بلکہ وقتی طور پر نو ستاروں والے اتحاد میں جمعیت علمائے اسلام، مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی احمد کی سربراہی میں خاکسار تحریک اشرف خان کی سربراہی میں جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑی تھی) لیکن یہ سب بھٹو صاحب کی مخالفت میں تھا۔ ورنہ جونہی بھٹو صاحب اقتدار سے الگ ہوئے اور جنرل ضیاء الحق مارشل لا کے ذریعے حکومت میں آئے تو سب سے پہلے تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان، شاہ احمد نورانی اور مولانا مفتی محمود کی جماعتیں الگ ہوئیں۔ میں نے نو جماعتی اتحاد کے سربراہوں کے خلاف ایک دلچسپ کیس بھی کیا تھا کہ انہوں نے نظام مصطفی کے نفاذ کیلئے اتحاد کیا لیکن بھٹو صاحب کے اقتدار سے الگ ہوتے ہی منتشر ہوگئے اور اتحاد بھی ٹوٹ گیا اور نظام مصطفی کے نفاذ کا دعویٰ بھی ہوا ہو گیا۔
(جاری ہے)
(وضاحت) گزشتہ روز مولانا مودودی کے جلسے کو ناکام بنانے والے تین مرکزی کرداروں کا ذکر ہوا تھا کہ کس طرح وہ بعد میں اپنے انجام کو پہنچے۔ ان میں سے ایک کردار اچھا شوکر والا کا انجام کمپوز ہونے سے رہ گیا تھا۔ قارئین ! واضح رہے کہ یہ بھی طبعی موت نہیں مرا بلکہ اپنے مخالفین کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا۔