1963سے 1969تک کم و بیش سات برس میں اردو ڈائجسٹ سے منسلک رہا فکری طور پر قریشی برادران جماعت اسلامی سے بہت قریب تھے اور مجھے بھی اس قربت کی وجہ سے سید مودودی سے بے شمار مرتبہ ملاقاتوں کا موقع ملا۔ اگرچہ اردو ڈائجسٹ کا دفتر سمن آباد میں تھا اور مودودی صاحب کی رہائش 5اے ذیلدار پارک اچھرہ میں تھی لیکن میں ہفتے دو ہفتے میں ایک بار اپنی سواری پر یا برادرم مقبول جہانگیر کے سکوٹر پر سید مودودی کے ہاں جاتا رہا۔ اکثر اوقات ہمارے جانے کا مقصد صحیح یا غلط اردو زبان کا کوئی محاورہ ہوتا یا کسی لفظی ترکیب کی وضاحت کیونکہ دفتر سے ہدایات بھی یہ تھیں اور خود ہم بھی یہ سمجھتے تھے کہ سید مودودی کی خدمات دین کے حوالے سے تو جو ہوں ان کی نثر بہت عمدہ تھی صاف اور سلیس زبان میں وہ مشکل سے مشکل مسئلہ بھی بڑی آسانی سے بیان کردیتے اور لطف یہ کہ مسئلہ جتنا بھی گنجلک اور متنازع ہوتا ان کا اپنا ذہن چونکہ ہر معاملے میں صاف ہوتا تھا۔ اس لیے وہ ایسے سادہ اور دلنشین الفاظ منتخب کرتے کہ بات دل میں اتر جاتی۔ اردو ڈائجسٹ میں اصلاح زبان پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ قریشی برادران خود سرسا ضلع حصار کے رہنے والے تھے لیکن ہم سب کی اصلاح زبان کے لیے ہمیشہ وہ ایک نہ ایک ماہر زبان دفتر میں رکھتے تھے اور برسوں تک ہماری لکھی ہوئی سلپیں شعبہ کتابت میں جانے سے قبل ان کے پاس جاتی تھیں۔ فضل الٰہی جو اصلاح زبان کیلئے پہلے سکالر ہماری زبان کی اصلاح کیلئے رکھے گئے پنجابی ہونے کے باوجود اردو زبان کے بڑے ماہر تھے اور خود اردوزبان کی ایک ڈکشنری مرتب کرچکے تھے۔ بعد ازاں یہ فریضہ مولانا عبدالجلیل مائل نقوی کے سپرد ہوا جو اپنا پورا نام کچھ یوں لکھتے تھے۔ حضرت مولانا عبدالجلیل مائل نقوی سابق اتالیق شہزادگان بھوپال اور ہروقت بھوپال کے محل کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ ایک بار اردو ڈائجسٹ کے سالنامے کیلئے ہر سال کی طرح میں راولپنڈی کے مایہ ناز لکھنے والوں سے ان کی تحریریں لینے گیا۔ ان میں زیادہ تر ادیب فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ شفیق الرحمن لکھنا چھوڑ چکے تھے اور فوج کی میڈیکل کور کے میجر جنرل تھے۔ ضمیر جعفری فوج کے سابق میجر تھے لیکن اسلام آباد بن رہا تھا اور وہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پبلک ریلیشنز آفیسر تھے۔ یاد رہے کہ جنرل یحییٰ خان اس پراجیکٹ کے انچارج تھے۔ صدیق سالک ان دنوں آئی ایس پی آر میں کیپٹن ہوا کرتے تھے۔کرنل محمد خان ایجوکیشنل کور کے افسر تھے۔ مظفر علی سید ایئرفورس کے شعبہ پبلک ریلیشنز میں افسر تھے اور پشاور میں ان کا دفتر تھا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کے تعلقات صدیق سالک سے بہت دوستانہ تھے لہٰذا صدر میں فیروز سنز کے دفتر کے پاس عارضی طور پر فوجی بیرکوں میں بنائے ہوئے سالک صاحب کے گھر ہی رہائش پذیر ہوتا اور سارا دن ان کے پیچھے پڑا رہتا کہ فلاں کو فون کرو تاکہ مجھے سالنامے کیلئے کچھ لکھ دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی ادیبوں کے حلقے میں بھی ایک دن یہ بحث چل نکلی کہ آج کل اردو کا سب سے بہتر نثرنگار کون ہے تو کرنل محمد خان جو اپنی شگفتہ تحریروں کے باعث نئے نئے مشہور ہوئے تھے نے مولانا مودودی کو اردو زبان کے اس زمانے کے بہترین نثر نگار قرار دیا اور کہا کہ میرے ایک استاد نے مجھے اچھی اردو لکھنے کیلئے مودودی صاحب کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔ کرنل محمد خان نے کہا میرا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں۔ میں مذہبی بحثوں میں پڑنے والا آدمی نہیں ہوں لیکن مجھے جو سلاست اور روانی ان کی تحریر میں نظر آئی وہ کہیں اور نہ دیکھی۔ انہی دنوں جماعت اسلامی کا ایک سالانہ اجتماع راوی روڈ لاہور پر بھاٹی اور ٹیکسالی کے درمیان سڑک کے دائیں جانب اس پارک میں ہوا جو اندرون شہر سے منسلک تھا یہ ایک لمبی پٹی تھی جو بھاٹی سے ٹیکسالی تک پرانے شہر کو سڑک سے جوڑتی تھی۔ ملک امیر محمد خان گورنر تھے اور لاہور کے اس وقت کے معروف بدمعاش اچھا شوکر والا کا بہت خوف اور دبدبہ تھا۔ جماعت اسلامی کا اجلاس الٹانے کے لئے گورنر صاحب کے حکم پر مودودی صاحب کے جلسے میں آنے سے پہلے ہی اچھا شوکر والا کے بھیجے ہوئے بدمعاشوں نے جلسہ گاہ میں بے تحاشا فائرنگ کی اس سے جماعت کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگیا۔ جلسہ گاہ میں بھگڈر مچ گئی۔ مودودی صاحب سے بہت کہا گیا کہ آپ جلسہ میں نہ جائیں مگر انہوں نے یہ تجویز قبول نہ کی۔ بجلی اور لاؤڈ سپیکر کے تار کٹ چکے تھے ہر طرف خوف کا سماں تھا۔ پولیس کے لوگ خود بدمعاشوں کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں بچا کر ساتھ لے گئے تھے۔ جماعت اسلامی والوں نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑنے والے مائیک اور سپیکر ٹو ان ون کا بندوبست کیا جب ہم جلسہ گاہ میں پہنچے تو میں نے سید مودودی کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔ مزاج کے مطابق وہ ہمیشہ کی طرح پُرسکون تھے اور انتہائی اطمینان کے ساتھ خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہمارے نہتے ساتھیوں پر جس طرح بدمعاشوں نے فائرنگ کی ہے اور جس طرح سب لوگوں نے دیکھا کہ پولیس حملہ آوروں کی حفاظت کر رہی تھی اس کے پیش نظر ہم کوئی مقدمہ درج نہیں کرائیں گے کیونکہ یہ بات لاہور میں پھیلی ہوئی ہے کہ حملہ گورنر صاحب نے کراویا ہے۔ ہم اللہ کی عدالت میں مقدمہ کروائیں گے اور ہم انصاف کامعاملہ اس ہستی پر چھوڑتے ہیں جو کائنات کو تشکیل دینے والی ہے اس سے بڑا منصف ہمیں اور کوئی نہیں مل سکتا پھر وہ رکے اور دونوں ہاتھ اٹھاکر دعائیہ انداز میں بولے اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے ساتھی بیگناہ ہیں وہ غیر مسلح ہیں اور پاکستان میں اسلام کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے لہو سے ہاتھ رنگنے والے ظالموں سے اور شدادوں سے تو ہی اس ظلم کا بدلہ لے۔ ہم اپنا انصاف تیرے ہی سپرد کرتے ہیں کہ تجھ سے بڑا انصاف کرنے والا اور کوئی نہیں ہے۔ سید مودودی کی گفتگو میں جذباتیت تھی نہ جواب میں انہوں نے ایک لفظ بھی برا بھلا کہا۔ بس انہوں نے اپنا معاملہ اپنے رب کے حضور پیش کردیا۔ میرے گرد جو لوگ کھڑے تھے ان میں سے کئی ایک نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ اس دوران کسی نے اچانک کہا یااللہ! رحم کر۔ اگر دعا یہ قبول ہوگئی تو قاتل جہاں کہیں بھی چھپ کر بیٹھا ہو۔ خواہ وہ اس کی پناہ گاہ ہو سرکاری عمارت ہو یا گورنر ہاؤس وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔
وقت گزرتا گیا وہ ایس پی سکندر حیات جو جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کروانے کی نگرانی کررہا تھا اسے ایک موذی مرض لاحق ہوگیا۔ اس کی زبان پر کیڑے پڑ گئے تھے کوئی اسے ملنے جاتا وہ ہاتھ جوڑ کر کہتا میرے لیے دعا کرو میرا ایک ایک پل گزارنا مشکل ہورہا ہے۔ دعا کرو مجھے اللہ پاک صحت دے دے یا پھر اپنے پاس واپس بلالے۔ اس واقعہ کے ماسٹر مائنڈ امیر محمد خان نواب آف کالا باغ کا انجام ان دونوں سے برا ہوا۔ اپنے ہی گھر میں اپنے ہی بستر پر وہ سو رہے تھے کہ ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا ان پر مسلسل گولیاں برسائیں یوں ملک امیر محمد خان راہی ملک عدم ہوا ’’اور آنکھوں والو! عبرت پکڑو‘‘ (ق م)
میں زندگی میں کبھی جماعت اسلامی میں شامل نہیں ہوا لیکن ہمیشہ سے میری جماعت والوں سے بہت دوستیاں رہیں۔ میں نے گفتگو کا آغاز اردو ڈائجسٹ کی ملازمت اور اردو زبان کی اصلاح سے کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار یہ بحث شروع ہوگئی کہ ’’اس دوران‘‘ کے بعد ’’میں‘‘ آتا ہے یا نہیں ہم جھٹ مقبول جہانگیر کے سکوٹر پر بیٹھے اور مقبول صاحب نے اپنے ویسپا کا رخ اچھرے کی طرف موڑا۔ ابھی شام کی نشست عام کا وقت شروع نہیں ہواتھا اور سید مودودی اپنی لائبریری میں بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ وہ نظم و نسق کے بڑے پابند تھے اور مقررہ وقت سے پہلے باہر صحن میں بچھی ہوئی کرسیوں کی طرف نہیں آتے تھے جو جلد ہی اجلاس عام کی شکل اختیار کر جاتیں اور پھر عصر کی نماز سے مغرب کی نماز تک کھلی گفتگو ہوتی لیکن مقبول جہانگیر نے ایک چٹ لکھی اور بمشکل تمام ان کے عملے کے کسی آدمی کو دی کہ اسے اندر پہنچادے تھوڑی دیر بعد میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ہمیں اندر سے بلاوا آگیا ہم اندر پہنچے مودودی صاحب نے جو کچھ لکھ رہے تھے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا مقبول جہانگیر نے مسئلہ بیان کیا۔ مودودی صاحب نے چند منٹ میں اسے حل کر دیا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے انہوں نے کہا تھا کہ اس دوران کے بعد ’’میں‘‘ نہیں لگتا کیونکہ ’’دوران میں‘‘ ساقط ہے لیکن پہلے سے مستعمل ہے۔ ہم شکریہ ادا کرکے باہر نکلنے ہی والے تھے۔ کہ مودودی صاحب مسکرائے اور بولے آپ نے چٹ پر جو کچھ لکھا تھا اس کی وجہ سے میں آپ کو جلدی بلانے پر مجبور ہو گیا۔ مقبول جہانگیر ہنس پڑے ہم باہر نکلے تو میں نے پوچھا مقبول صاحب آپ نے کیا لکھا تھا۔انہوں نے کہا میں نے لکھا تھا کہ ’’اصلاح زبان کیلئے علم کے دو متلاشی آپ سے ہنگامی طور پر ملنا چاہتے ہیں‘‘ اور نیچے دونوں نام اور ڈائجسٹ لکھ دیا تھا جو صاحب ہمیں اندر لے کر گئے وہ کہنے لگے بھائی حیرت ہے مودودی صاحب تو لائبریری میں کسی سے نہیں ملتے۔
(جاری ہے)