شیخ صاحب انتہائی حد تک کفائت شعار تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں بھی وہ اپنے اوپر خرچ کرنے سے گریز کرتے تھے اخبار کا مالک ہونے کے باوجود عام طور پر وہ اور پرویز صاحب لکشمی چوک سے چاول کا ایک پیالہ منگواتے تھے جس پر بغیر گھی کے دال کا ایک بڑا چمچ ڈالا جاتا تھا۔ دال چاول کا یہ پیالہ ایک روپے میں ملتا تھا، شیخ صاحب سگریٹ بھی پیتے تھے لیکن جو ان کے کمرے میں آتا جس کے پاس سگریٹ کی ڈبیا ہوتی وہ یہ جانے بغیر کہ کس برانڈ کا سگریٹ ہے ایک کی بجائے دو سگریٹ نکالتے اور دراز میں رکھ لیتے۔ انہیں پتا تھا کہ میں سگریٹ نہیں پیتا اس لئے میرے علاوہ اور کوئی ایسا بے تکلف دوست آتا جسے سگریٹ پیش کرنا مطلوب ہوتا تو ڈبیا یا سگریٹ کیس کی بجائے دراز کھول کر کہتے اپنی مرضی کا سگریٹ نکال لو۔ ایک روز میرے سامنے انتہائی حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جو مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ ان کا اخبار اجالا پرنٹرز سے چھپتا تھا۔ اجالا ان کے فلمی ہفت روزے کا نام تھا۔ یہ شیٹ فیڈ مشین تھا اور اخبار کا ایک ایک ورق الگ الگ چھپتا تھا۔ بعد میں دفتر اسے تہہ کر کے اندر کے صفحات ڈال کر اخبار کی شکل دیتے تھے۔ مجھے دفتری کا نام بھول گیا ہے لیکن ایک چھوٹے قد کا کمزور سا آدمی تھا جو دوسرے چوتھے روز قسطوں میں بل مانگنے دفتر آیا کرتے تھے۔ ایک روز وہ شیخ صاحب کے پاس آیا اور بولا شیخ صاحب! آج پیسوں کی بہت ضرورت ہے میرے لڑکے جو ٹھیکے پر اخبار بناتے ہیں کل سے باغی ہو چکے ہیں۔ پورا بل نہ سہی سو روپے ہی مجھے دے دیں تا کہ آج کا دن تو نکال لوں، شیخ صاحب نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا دو تین دن صبر کرو۔ اس نے ہاتھ جوڑ دیئے اور کہنے لگا آج تو تانگے پر واپس گھر جانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ شیح صاحب بولے خدا کے بندے پیدل چلا کرو۔ صحت کے لئے اچھا ہوتا ہے۔ اس نے کہا شیخ صاحب میں بھاٹی دروازے رہتا ہوں بیڈن روڈ سے کئی میل کا فاصلہ بن جاتا ہے۔ صحت اجازت نہیں دیتی۔ کافی دیر بحث مباحثے کے بعد اس نے کہا شیخ صاحب دس روپے ہی دے دیں۔ شیخ صاحب نے کہا آج تو دراز خالی ہے اور جیب میں بھی کچھ نہیں چیک لے لو۔ اس نے کہا لائیں چیک ہی دے دیں شیخ صاحب نے دراز سے چیک بک نکالی دس روپے کا چیک لکھا دستخط کئے اور پھر چیک اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ”نو نقد لو گے“ وہ غصے میں آ گیا اس نے کہا دے دیں شیخ صاحب نے دوسری دراز کھولی اور پانچ روپے کا نوٹ اور چار روپے کے سکے اس کی طرف بڑھا دیئے۔ جب وہ پیسے لے کر چلا گیا تو میں نے پوچھا شیخ صاحب میں سمجھا نہیں آپ کا چیک بیکار جائے گا آپ کو پتا ہے ہر چیک پر بینک کچھ پیسے کاٹتا ہے۔ شیخ صاحب بولے پیر جی! آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ بینک کا چیک دس پیسے کا ہوتا ہے۔ یہی چیک میں پھر کسی وقت استعمال کر لوں گا میرے دس پیسے تو بچ گئے ناں۔ پھر انہوں نے کہا کرائے کے گھر میں رہتے ہیں یا اپنا بنا لیا میں نے کہا نہیں جناب! ہر ماہ کرایہ دیتا ہوں۔ شیخ صاحب بولے تسی گھر نئیں بنا سکدے تہانوں پیسہ بچانا نئیں آندا۔
چند ماہ گزرنے کے بعد انہوں نے مجھ پر دباﺅ ڈالنا شروع کیا کہ ایک سپیشل سپلیمنٹ نکالیں اور سرکاری اور کمرشل بزنس جمع کریں۔ ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ میں نے کئی بار کہا کہ میں ایڈیٹر ہوں اشتہارات کا منیجر نہیں۔ وہ بولے آپ اتنے برسوں سے صحافت میں ہیں کچھ تو جاننے والے ہوں گے۔ ڈیڑھ دو ماہ بعد انہوں نے خود ہی سارے سٹاف کو جمع کیا اور کہا کہ مغربی پاکستان کا ایک سپیشل سپلیمنٹ نکالیں جو اشتہار لائے گا آدھے پیسے اس کے۔ شیخ صاحب اپنے قول کے بہت پکے تھے اور جو لوگ انہیں جانتے تھے انہیں یقین تھا کہ وہ ایک پیسے کی بددیانتی بھی نہیں کریں گے۔ سارے سٹاف نے محنت شروع کر دی۔ اشتہار والے لڑکوں کے علاوہ بعض رپورٹروں نے بھی بھاگ دوڑ کی۔ ایک دن مجھ سے بولے پیر جی قسم تو توڑ دیں، کچھ تو لائیں چلو تین اشتہار ہی سہی۔ ان کے اصرار سے مجبور ہو کر میں نے دوچار لوگوں کو فون کیاسروس انڈسٹریز میں میرے دوست کنور دلشاد جو بعد میں سرکاری نوکری میں چلے گئے اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کے عہدے تک پہنچے۔ سروس میں شعبہ اشتہارات کے منیجر ہوتے تھے۔ ایک اشتہار ان سے لیا دوسرا ایمز ایڈورٹائزنگ کمپنی جو مال روڈ پر ریگل سینما والی جگہ میں تھی کے جنرل منیجر درانی صاحب سے جو ملتان کے زمانے کے میرے دوست تھے اور فیروز سنز لیبارٹری کی پبلسٹی کرتے تھے ان سے” سات سو سات “صابن کا اشتہار منگوایا۔
اس طرح سے دو تین اشتہار اور جمع کئے اور تین کے بجائے پانچ کا کوٹہ پورا کر دیا۔ شیخ صاحب بولے یہ تو کمرشل ریٹ کے اشتہار ہیں لیکن میں نے بھی بڑی کوشش کی ہے جن بچوں نے محنت کی ہے انہیں تو 50 فیصد ضرور دوں گا لیکن میں مالک اور آپ ایڈیٹر ہیں ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ کمیشن لیں۔ میں ہنس پڑا اور میں نے کہا جناب میں نے آپ سے کمیشن کےلئے نہیں کہا کیونکہ میں پہلے ہی طے کر چکا ہوں کہ مجھے آپ کی یہ مہربانی نہیں چاہیے۔ شیخ صاحب نے اطمینان کا اظہار کیا اور مجھ سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔
(جاری ہے)
جب حنیف رامے صاحب کی چیف منسٹر شپ سے علیحدگی کی خبریں آنے لگیں تو میں ایک دن شیخ صاحب کے پاس گیا۔ میں نے کہا شیخ صاحب میرا ارادہ پورا وقت اپنے ہفت روزہ اخبار کو دینے کا ہے اس لئے آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔ شیخ صاحب بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے ابھی تو پنجاب حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ نہیں ہوا کچھ تو انتظار کریں۔ میں نے کہا میکلوڈ روڈ پر ایک دوست کا دفتر خالی پڑا ہے میرا ارادہ ہے اس میں منتقل ہو جاﺅں۔ شیخ صاحب گھبرا گئے اور بولے جب تک رامے صاحب ہیں تب تک نہ چھوڑیئے گا۔ میں نے کہا آپ فکر نہ کریں آپ کے ساتھ اچھا وقت گزرا ہے میں چلا گیا تو بھی میری خدمات ہمیشہ حاضر رہیں گی انشاءاللہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ شیخ صاحب کبھی جذباتی نہیںہوتے تھے وہ انتہائی پریکٹیکل انسان تھے تاہم اس روز نہ جانے ان کے جی میں کیا آئی کہ انہوں نے بار بار میرا شکریہ ادا کرنا شروع کیا۔ کہنے لگے آپ نے کبھی پیسوں کے بارے میں مجھے تنگ نہیں کیا۔ آپ چاہتے تو پنجاب حکومت نے جتنے اشتہارات بڑھائے تھے ان میں سے اپنا حصہ بھی مانگ سکتے تھے۔ میں کئی ہفتے اس انتظار میں تھا کہ آپ آج بات کریں گے یا کل کریں گے لیکن آپ نے زبان نہیں کھولی۔ میں نے مذاق میں سپلیمنٹ والی بات کی تھی آپ کا اپنے لائے ہوئے ا شتہاروں پر کمیشن اصول کی بات تھی لیکن آپ نے وہ بھی نہیں لیا۔ میرے لائق کبھی کوئی خدمت ہو تو ضرور بتایئے گا۔ رامے صاحب کے جانے کے بعد بھی میرے پاس کام کرنے کا موڈ بنے تو بلا تکلف مجھے بتائیے گا۔ پھر ہنس کر بولے تنخواہ ففٹی پرسنٹ ہوگی۔ میں نے کہا شیخ صاحب اللہ پاک ا ٓپ کو خوش رکھے اور آپ کاادارہ جو ا تنے بے شمار کارکنوں کو روزی فراہم کر رہا ہے اللہ اسے شادو آباد رکھے۔ میں ہمیشہ آپ کا خیرخواہ ہوں اور رہوں گا۔ وہ اس روز دیرتک مجھے اپنے ابتدائی حالات سناتے رہے۔ کس طرح وہ ایک اشتہاری ایجنسی سے منسلک تھے۔ برادرم جمیل اطہر ایڈیٹر (جرا¿ت و تجارت) نے اپنی کتاب ایک عبوری سرگزشت میں شیخ ایم شفاعت پر اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ” مغربی پاکستان “کے مالک شریف حسین سہروردی تھے اور شفاعت صاحب ان کے پاس منیجر اشتہارات تھے۔ جب مغربی پاکستان پر مالی مشکلات آئیں تو شیخ صاحب نے سہروردی صاحب سے یہ اخبار خرید لیا ایک زمانے میں اس کے ا یڈیٹر مرتضےٰ احمد خان میکش تھے بعد ازاں حاجی صالح محمد صدیق نوائے وقت والے بھی ا یڈیٹر رہے۔ جمیل اطہر صاحب نے بھی شیخ صاحب کی کاروباری صلاحیت اور انتظامی شدبد کی تعریف کی ہے اور ان کا مو¿قف ہے کہ بی کلاس اخباروں میں مغربی پاکستان سب سے مضبوط اور بہتر اخبار تھا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ویج بورڈ کے نفاذ پر شیخ صاحب بہت پریشان تھے اور اس پریشانی میں انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔“
شیخ ایم شفاعت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میں نے اپنے آپ پر جبر کر کے ایک ایک پیسہ بچایا اور اسے ادارے پر لگایا۔ پھر بولے ضیا صاحب! آپ بہت سے دوسرے کارکنوں سے مختلف ہیں۔ اللہ کرے آپ اپنے رسالے میں کامیاب رہیں۔
برسوں بعد میں ایک بڑے اشاعتی گروپ سے منسلک تھا۔ کراچی میں اخباری تنظیموں کے الیکشن کے وقت چھوٹے اخبارات و رسائل کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور کراچی میں ہوٹل کے اخراجات کی پیشکش کا سلسلہ چلا تو دو فریقوں میں سے ایک فریق کے لیے بھاگ دوڑ میرے ذمے تھی۔ میں نے شیخ صاحب سے بات کی انہوں نے کہا مجھے خوشی ہے کہ آپ ایک بڑے ادارے میں بڑی پوزیشن پر ہو‘ بس پرانے تعلقات کا خیال رکھو۔ پی آئی اے کا ایک ایک ٹکٹ تو سب کو مل رہا ہے آپ مجھے دو بھجوائیں گے ایک الیکشن کے لیے اور ایک کھلی تاریخ کا تاکہ آئندہ مجھے کراچی جانا ہو تو میں استعمال کر سکوں۔ بہت سے نامور لوگوں سے یہی ڈیل ہوئی تھی لیکن میری معلومات کے مطابق دو ٹکٹ کسی نے نہیں مانگے تھے۔ شیخ صاحب نے اپنی عمر کے آخری حصے میں میکلوڈ روڈ پر اپنا دفتر تعمیر کیا۔ انہوں نے ساری عمر بڑی کامیابی سے اخبار چلایا ان کے صاحبزادے برطانیہ چلے گئے تھے۔ وہاں سے واپسی پر شیخ صاحب اپنے اللہ سے جا ملے تھے۔ ان کے بیٹے نے بڑی کوشش کی لیکن اللہ نے جو خوبیاں بالخصوص امانت‘ دیانتداری‘ وعدے کی پابندی‘ لین دین میں شفافیت کے جو اوصاف شیخ صاحب کو عطا کیے تھے شاید ان کی اولاد‘ باپ کے مقام تک نہ پہنچ سکی۔ ان کے صاحبزادے آج کل اپنا ذاتی کاروبارکر رہے ہیں اور خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تاہم شیخ ایم شفاعت نے اپنی پوری زندگی اپنی بہتر منصوبہ بندی اور امانت و دیانت کے ساتھ جس کامیابی سے بسر کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کا نام اخبار میں بطور ایڈیٹر چھپتا تھا‘ لیکن وہ قلم کی بجائے لوہے کا ایک فٹ رول اپنے پاس رکھتے تھے اور صبح سویرے مقابلے کے اخبارات کے ٹینڈر نوٹسوں کی پیمائش اور اپنے ہاں چھپنے والے ٹینڈرز سے موازنہ ان کا پہلا کام ہوتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا محنتی‘ اتنا منصوبہ ساز‘ اس قدر کفائت شعار مگر وقت پر ادائیگی کرنے والا اور کوئی پبلشر نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے۔ وہ شریف اور نیک انسان تھے اور دنیا کی آلائشوں سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔