شیخ مجیب الرحمن نے ہمارے سامنے کُرتا پہنا‘ ڈرائنگ روم سے بار بار بڑے سلیمی صاحب آرہے تھے اور کہہ رہے تھے شیخ صاحب باہر آئیں‘ ڈرائنگ روم تو کیا باہر صحن بھی بھر چکا ہے‘ لوگ ملاقات کیلئے بے چین ہیں۔ جب دوسری مرتبہ انہوں نے آکر اصرار کیا تو شیخ صاحب نے کہا میں شاکر کے نوجوان دوست سے بات کررہا ہوں جو جرنلسٹ ہے‘ شاید میری بات اس کی سمجھ میں آسکے کیونکہ وقت تیزی سے گزررہا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ جو کچھ ہمارے خلاف بیان ہورہا ہے وہ ہمیں دھکیل کر دیوار سے لگا دے گا‘ پھر میں بھی کچھ نہ کر سکوں گا اور سب کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
آج اتنے برس گزرنے کے باوجود ان کی باتیں مجھے اچھی طرح یاد ہیں‘ بعد میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ الیکشن میں نورالامین اور تری دیورائے دو ارکان قومی اسمبلی کے سوا عوامی لیگ جیت گئی‘ پھر بھٹو صاحب نے ڈھاکہ جانے سے اپنے ارکان کو منع کردیا ’’ادھر ہم‘ ادھر تم‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی‘ پھر مجیب کے خلاف فوجی ایکشن ہوا۔ بعدازاں بھٹو صاحب نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربن کر عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب کو میانوالی جیل سے اسلام آباد بلا کر باعزت لندن بھیج دیا‘ جہاں سے بنگلہ دیش کا بابائے قوم بن کر بنگلہ بندھو ڈھاکہ پہنچا اور انڈیا کے حملے کے نتیجے میں بننے والی آزاد ریاست کا صدر بنا۔
کئی برس بعد سارک کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ اخبارنویسوں کے وفد میں شامل میں ڈھاکہ پہنچا تو بیگم خالدہ ضیا حکمران تھیں جو میجر ضیاء الرحمن کی بیوی تھیں اور عوامی لیگ کے سخت خلاف تھیں۔ میں بطور خاص ’’پاکستان آبزرور‘‘ کے ایڈیٹر زاہد ملک کے ہمراہ شیخ مجیب کے گھر پہنچا۔ دھان منڈی کے علاقے میں میں اپنے دوست زاہد ملک کے ساتھ شیخ صاحب کے مکان کے سامنے کھڑا تھا‘ سڑک خالی تھی‘ مکان کے سامنے صرف ایک چھوٹا سا لکڑی کا بنا ہوا سٹال تھا جس پر ٹھنڈے مشروبات اور سگریٹ موجود تھے لیکن گاہک کوئی نہ تھا۔ ہم نے سٹال والے سے پوچھا کیا شیخ مجیب الرحمن کی آخری یاد گار دیکھنے زیادہ لوگ نہیں آتے؟ اس نے کہا ہر سال برسی والے دن یہ سڑک بھر جاتی ہے یا پھر ہفتہ وار چھٹی کے روز اکا دکا لوگ آتے ہیں‘ باقی زیادہ رش نہیں ہوتا۔ شیخ صاحب سے آخری ملاقات جو لاہور میں ہوئی تھی آج برسوں بعد میں ان کی رہائش گاہ میں داخل ہوا تو ماضی کے واقعات میری آنکھوں کے سامنے آگئے۔شیخ صاحب لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کی مہربانی سے اور پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بنگلہ دیش کے صدر بنے تھے‘ جلد ہی اپنی مقبولیت کھونے لگے۔ ان کی حکومت پر بے تحاشہ کرپشن کے الزامات تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ صدارتی نظام کو چھوڑ کر پارلیمانی نظام کی جانب آگئے اور خود پہلے وزیراعظم بنے۔ کرپشن بڑھتی رہی اور نوزائیدہ ملک کا نظام بگڑتا چلا گیا۔ بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی کم و بیش انڈیا کی بغل بچہ ریاست کی تھی جسے بنگلہ دیش آرمی پسند نہ کرتی تھی۔ عوام میں بنگلہ بندھوکی غیرمقبولیت کے باعث فوج زیادہ مضبوط ہوتی چلی گئی اور بالآخر فوج کے سربراہ میجر ضیاء الرحمن کے دور میں ہی فوج نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ بنگلہ دیش کے بابائے قوم کا فوجیوں نے گھیراؤ کرلیا اور پھر گھر میں داخل ہوکر شیخ مجیب الرحمن کو بیوی‘ بچوں‘ بیٹی اور داماد سمیت فائرنگ کرکے موقع پر ہی مار ڈالا۔ ڈھاکہ کے شہریوں پر خوف مسلط تھا‘ شیخ مجیب اور ان کے اہل خانہ کی لاشیں تین دن تک اس مکان میں سڑتی رہیں‘ بالآخر کچھ لوگوں نے ہمت کرکے اور فوجی کمانڈروں سے خصوصی اجازت لے کر انہیں اٹھایا اور ان کے آبائی گاؤں لے جاکر دفن کردیا۔ صرف حسینہ واجد اپنے شوہر کے ساتھ ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے زندہ بچ نکلیں۔ پہلے میجرضیاء الرحمن اور بعدازاں ان کی بیگم خالدہ ضیا بنگلہ دیش میں حکمران رہے اور جب ہم شیخ مجیب الرحمن کے گھر پہنچے تو خالدہ ضیا ہی وزیراعظم تھیں اور حسینہ شیخ کی پارٹی عوامی لیگ کو الیکشن میں ہروا چکی تھی۔
شیخ مجیب الرحمن کے گھر کو اب ایک یادگار کی شکل دی جاچکی ہے۔ ایک کمرے میں اس یادگار کی حفاظت کرنے والی کمیٹی کا دفتر ہے‘ ان کے پاس کچھ کتابیں شیخ صاحب کی زندگی کے بارے میں موجود تھیں جو قیمتاً مل سکتی ہیں۔ ایک پمفلٹ البتہ کسی معاوضے کے بغیر وہ آنے والے خاص مہمانوں کو دیتے ہیں جس میں شیخ صاحب کے ان تمام رشتہ داروں کی تصویریں ہیں جو اس مکان میں رہتے تھے اور فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ پھر وہ ہمیں سیڑھیوں میں لے گئے جہاں شیخ صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے رسل کو مارا گیا تھا‘ یہ ٹین ایجر فائرنگ کی آوازیں سن کر بھاگا مگر سپاہیوں نے پیچھا کیا‘ دیوار پر خون کے دھبے دیکھے جاسکتے تھے۔ بنگالی قوم کے ’’نجات دہندہ‘‘ کو خود ان کی ’’قوم‘‘ نے بنگلہ بندھو یعنی بنگالیوں کے باپ کا خطاب دیا اور پھر مشرقی پاکستان کو انڈین آرمی کی سرپرستی میں بنگلہ دیش آرمی نے پہلے ’’آزاد‘‘ کروایا پھر اس ’’بنگالیوں کے باپ‘‘ کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ کوئی احتجاج ہوا نہ کوئی سڑکوں پر نکلا۔ جلسہ نہ جلوس نہ کوئی تحریک یوں لگتا تھا کہ بنگالی قوم نے فوجیوں کے ہاتھوں اس کے رشتہ داروں سمیت بہیمانہ قتل کو قبول بلکہ ہضم کرکے یہ تاثر دیا کہ بھارت نواز شیخ مجیب انہیں قبول نہیں ہے اور پھر برسوں تک اس کی بیٹی حسینہ شیخ بھی حکومت میں نہ آسکیں۔
میں ان کی باتیں یاد کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ ایک بابائے قوم ہمارے بھی ہیں جن کا مزار کراچی میں ان کی سب سے بڑی یاد گار ہے۔ ہم لاکھ نااہل سہی مگر پاکستان کے خالق حضرت قائداعظمؒ سے پیار کرتے ہیں اور ان کا مزار ہر وقت آباد وشاد رہتا ہے‘ سینکڑوں بلکہ تقریبات میں ہزاروں پاکستانی وہاں جمع ہوتے ہیں اور ان کیلئے فاتحہ کہتے ہیں جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی قبر تک پہنچنا تو ویسے ہی مشکل ہے کیونکہ ڈھاکہ سے کافی فاصلے پر ہے لیکن یہ مکان جسے ان کی یاد گار کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے‘ پر بھی عام دنوں میں لوگ کم ہی آتے ہیں۔ اس یاد گار کا عملہ ہمیں ان کے مختلف کمرے دکھاتا رہا کہ یہاں شیخ مجیب اور ان کی بیگم قتل کئے گئے‘ یہاں ان کی بیٹی اور داماد مارے گئے‘ ان کمروں میں ان کے دوسرے رشتہ داروں کو گولیوں سے بھونا گیا‘ رسل اس کمرے سے بھاگ کر سیڑھیوں تک پہنچا ہی تھا کہ دھرلیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے معروف فلسفی برٹرینڈرسل کے نام پر بیٹے کا نام رکھا تھا۔ گھر پر اداسی کی ایک فضا تھی۔ جہاں مزار بھی نہ تھا کہ کوئی فاتحہ ہی پڑھ سکے۔ میں نے ان سے آخری ملاقات کو بار بار یاد کیا۔ اگر بھٹو صاحب اپنی پارٹی کے لوگوں کو ڈھاکہ جانے سے نہ روکتے جہاں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا‘ اگر بھٹو صاحب مذاکرات کیلئے ڈھاکہ جاکر شیخ مجیب الرحمن سے طویل ملاقاتیں نہ کرتے جن کے آخر میں پیپلزپارٹی کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر اتفاق رائے ہوچکا ہے، اگر باقی آدھا نکتہ بھی تاریخ کی سب سے بڑی بجھارت نہ بنتا کہ وہ کیا تھا اور ساڑھے پانچ نکات کون سے تھے جن پر بھٹو صاحب متفق ہوگئے تھے، اگر مغربی پاکستان کی دیگر جماعتیں جنہیں پیپلز پارٹی کے مقابلے پر کم سیٹیں ملی تھیں‘ کی قیادتیں بشمول شاہ احمد نورانی اور خان عبدالولی خان شیخ مجیب سے مذاکرات کے بعد بھٹو صاحب کو منانے میں کامیاب نہ ہوجاتیں‘ اگر یحییٰ خان جو یقین دہانیاں شیخ مجیب سے چاہتے تھے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور ان کے خلاف فوجی کارروائی نہ کرتے جس پر بھٹو صاحب نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ شاید بھٹو صاحب کی مراد مغربی پاکستان سے نئے پاکستان سے تھی۔ اگر شیخ صاحب کو وزیراعظم قرار دینے والے یحییٰ خان انہیں اسلام آباد بلا کر وزارت عظمیٰ سونپ دیتے تو شاید 1947ء میں بننے والا پاکستان بچ سکتا تھا لیکن ہمارے مرحوم دوست عباس اطہر نے روزنامہ آزاد ’’میں بطور نیوز ایڈیٹر، ’’ادھر ہم اْدھر تم‘‘ کی جو سرخی جمائی تھی بھٹو صاحب کی پالیسی کا ایک حصہ نہ بن جاتی اور اگر مجیب اور بھٹو کی افہام وتفہیم سے پاکستان کا اقتدار زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو مل جاتا تو شاید ہمارا ملک ایک رہ سکتا تھا اور زیادہ آبادی والا صوبہ مشرقی پاکستان ہم سے ہمیشہ کیلئے الگ نہ ہوجاتا۔
حسینہ شیخ آج کل بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں اور جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے بوڑھے لیڈروں پر برسوں پہلے پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر وطن دشمنی کے مقدمے چلا رہی ہیں اور 95/95,90/90 سال کے ’’پاکستانی‘‘ لیڈروں کو پھانسیاں دے رہی ہیں۔ پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر آج ان بزرگوں کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے شاید پھندے پر جھولنے سے پہلے یہ ضرور سوچتے ہونگے کہ جس ملک کیلئے ہم نے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا وہاں کی کسی سڑک پر تو ہمارے لیے جلوس تک نہیں نکلا۔ آج پاکستان کی مسلم لیگ بھی خاموش ہے اور جماعت اسلامی بھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی اپنے باپ اور اہل خانہ کی لاشیں تین دن تک بے گورو کفن پڑی رہنے کا بدلہ لے رہی ہیں اور جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے پاکستانی جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی تصویروں کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورے میں تحفے کے طور پر پیش کرکے اپنے خبث باطن کو ظاہر کررہی ہیں۔ قرآن پاک کی ایک آیت بار بار یاد آتی ہے اور پاکستانی حکومت کی مجرمانہ خاموشی سے اس دکھ کو اور دو چند کر دیتی ہے کہ یہ وہ سچائیاں ہیں جو دل کو ہلا دیتی ہیں۔ شیخ مجیب بھی کامیاب رہے اور خود کو بنگلہ بندھو بنا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی کامیاب رہے کہ نئے پاکستان کے سربراہ بن کر سامنے آئے لیکن تاریخ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ المیہ مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے تینوں کردار غیرطبعی موت مرے۔ اندراگاندھی جس کا کہنا تھا کہ ہم نے قائداعظمؒ کے دو قومی نظریئے کو بحرہند میں ڈبو دیا اپنے ہی تنخواہ دارمحافظوں کی گولیوں کا نشانہ بنی‘ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھ گئے اور شیخ مجیب الرحمن کو ان کے اپنے فوجیوں نے خاندان سمیت بھون ڈالا۔ یہ داستان عبرت ہے‘ اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو۔
فاعتبروا یا اولی الابصار