ضیا شاھد کے انکشافات

شیخ مجیب الرحمن سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات..پہلی قسط..ضیا شاہد

1970ء کے الیکشنز ہونے والے تھے تاہم مشرقی پاکستان سے جو خبریں آ رہی تھیں ان سے پتہ چلتا تھا کہ مسلم لیگ‘ جماعت اسلامی جیسی جماعتیں جو مغربی پاکستان میں مضبوط سمجھی جاتی تھیں ان کے جلسوں پر حملے ہو رہے تھے۔ مولانا بھاشانی پیچھے ہٹ گئے تھے اور شیخ مجیب الرحمن کے قبضے میں ڈھاکہ اور دوسرے شہروں کی سیاست آگئی تھی۔ عام خیال یہی تھا کہ مغربی پاکستان کی سیاسی قوت پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ ہے۔ عوامی لیگ مغربی پاکستان میں نہ ہونے کے برابر تھی اور پیپلزپارٹی کے بارے میں یہی معلومات سامنے آ رہی تھیں کہ شاید وہ مشرقی حصے میں سرے سے کوئی امیدوار بھی کھڑا نہ کرسکے۔ ملک رفتہ رفتہ سیاسی طور پر دو بڑے حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا اور اس وقت سوچا یہ جارہا تھا کہ شاید آنے والا الیکشن اس خلیج کو مزید وسیع کر دے گا۔ ہم بڑی تیزی سے تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہے تھے۔ جب شیخ مجیب الرحمن آخری مرتبہ مغربی پاکستان آئے قدرتی طور پر ایک اخبار نویس ہونے کی حیثیت سے اور ایک سیاسی ہفت روزہ کے ایڈیٹر پبلشر ہونے کے ناطے میری خواہش تھی کہ پریس کانفرنسوں اور تقریبات میں ہاتھ ملانے سے یا ایک آدھ سوال کر لینے سے آگے جا کر ان سے تفصیلی گفتگو کر سکوں لہٰذا میں نے کوشش کی کہ ملاقات کا انتظام ہو جائے۔
شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کا مغربی پاکستان میں نام و نشان نہ تھا لیکن رسماً مشرقی پاکستان سے ایک جیتنے والی پارٹی کے ساتھ بعض لوگ اپنے اپنے طور پر اپنی دانست میں شیخ صاحب کی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ لاہور سے ملک حامد سرفراز پرانے سیاسی ورکر تھے۔ پشاور سے ماسٹر خان گل ، عوامی لیگ کے نائب صدر تھے۔ لاہور ہی سے فوجداری مقدمات کے مشہور وکیل برکت علی سلیمی ڈھاکہ گئے۔
شیخ صاحب سے مل کر پارٹی کی سینئر صدارت کا عہدہ لے کر پلٹے حالانکہ سیاست میں ان کا پہلی بار داخلہ ہوا تھا۔ سلیمی صاحب کے نوجوان بھانجے شاکر سلیمی کو بعدازاں بلکہ برسوں بعد خبریں ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بننے والے ہمارے دوست علیم چودھری مرحوم نے مجھے ملایا اور ہم تینوں اچھے دوست بن گئے۔ میں نے شاکر سے اپنی خواہش کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے ہفتے شیخ صاحب لاہور آ رہے ہیں اور میرے انکل سلیمی صاحب ایڈووکیٹ کے گھر شادمان میں ٹھہریں گے۔ میں آپ کو ساتھ لے جاؤں گا اور ان سے الگ تفصیلی ملاقات کروا دوں گا۔
دس پندرہ روز میں شیخ صاحب کے آنے کی اطلاع ملی۔ میں نے شاکر سلیمی کو فون کیا۔ انہوں نے سیاسی حلقوں کے لالچ کا ذکر کرتے ہوئے کہا یار پنجاب میں تو کوئی شیخ مجیب الرحمن کا نام نہیں لیتا تھا لیکن جب سے یہ پتا چلا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ان کی جماعت سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی بنے گی ہمارے گھر کو سینکڑوں لوگوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان میں سے ہر ایک شیخ صاحب سے تعارف چاہتا ہے کیونکہ افواہ یہ ہے کہ الیکشن میں کامیاب ہو کر وہ لازماً پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے۔ ہم شادمان پہنچے تو کم از کم 30، 40 لمبی لمبی کاریں باہر کھڑی تھیں اور اچھرے سے نہر کو جانے والی سڑک پر جسے شاہ جمال روڈ کہتے تھے، مزار کو مڑنے والی سڑک سے بالکل سامنے اور سلیمی صاحب کے گھر کے باہر 30،40 ملاقاتی سڑک پر اور کوٹھی کے صحن میں موجود تھے۔ شاکر سلیمی مجھے گھر کے اندرونی حصے میں لے گئے اور کہا آپ یہیں ٹھہریں میں شیخ صاحب کا پتا کرتا ہوں۔ سلیمی صاحب کا ڈرائنگ روم کھچا کھچ برا ہوا تھا اور خوشامدی مہمان بار بار انہیں مبارکبادیں دے رہے تھے کہ عوامی لیگ برسراقتدار آئے گی تو سلیمی صاحب لازماً گورنر ہاؤس میں ہوں گے اور گورنر کے عہدے پر ان کا تقرر لازمی ہے کیونکہ عوامی لیگ پاکستان کے سینئر نائب صدر ہونے کی حیثیت سے گورنری ان کا حق بنتا ہے جبکہ وہ الیکشن بھی نہیں لڑ رہے۔ شیخ صاحب نے ابھی ملاقاتیں شروع نہیں کی تھیں اور وہ اپنے کمرے میں تھے جب شاکر صاحب لوٹے اور مجھے ساتھ لے کر کئی کمروں سے گزرتے ہوئے شیخ صاحب کے بیڈ روم تک لے گئے۔ ہم اندر داخل ہوئے اور سلام دعا کے بعد کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ شیخ صاحب اپنے پلنگ پر تہمد بنیان زیب تن کیے بیٹھے تھے اور ایک ملازم کسی ٹیوب سے کریم نکال کر ان کی گردن اور کندھوں پر لگا رہا تھا۔ شاکر نے یہ کہہ کر یہ ضیا صاحب ہیں جو میرے بہترین دوست ہیں تعارف کروایا۔ شیخ صاحب کی رسمی گفتگو بدل گئی۔ انہوں نے ایک بار پھر مجھ سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اورکہا سلیمی صاحب ہمارے دوست نہیں بھائی ہیں۔ آپ کیا کام کرتے ہیں۔ میں نے مختصر الفاظ میں اپنا تعارف کروایا اور باتیں شروع ہوئیں۔ میں نے پوچھا آپ تو اب کم ہی مغربی پاکستان آتے ہیں۔ کہنے لگے میں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہوں۔ میں نے پوچھا کمپین کیسی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا الیکشن میں اب صرف ووٹ ڈالنے باقی ہیں۔ آپ نے خبریں پڑھ لی ہونگی۔ عوامی لیگ اس قدر مقبول ہے کہ اس کے خلاف بات کرنے والے کو عام لوگ اپنا جملہ پورا نہیں کرنے دیتے۔ میں نے کہا لیکن کسی مخالف پارٹی کو جلسہ نہ کرنے دینا تو جمہوریت کے خلاف بات ہے کیا یہ طرز عمل نامناسب نہیں؟ انہوں نے کہا وہ وقت دور نہیں جب عوامی لیگ کے مخالفین کیلئے گھر سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ میں تو بہت سمجھاتا ہوں لیکن لڑکے خاص طور پر سٹوڈنٹس بہت غصے میں ہیں۔ وہ میری بھی نہیں سنتے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ جناب آپ عوامی لیگ کے سربراہ ہیں لوگ آپ کی بات کیوں نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا جو طوفان وہاں اٹھ رہا ہے آپ کو یہاں بیٹھ کر اس کا اندازہ نہیں۔ عوامی لیگ سب سے مضبوط جماعت ہے اس کا لیڈر بھی میں نہیں بلکہ وہ نوجوان ہیں جو اسلام آباد کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ میں نے کہا یہاں جو خبریں چھپ رہی ہیں ان سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو استادوں نے نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکایا ہے اور بات اب چھ نکات سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تعلیمی شعبے میں بہت سے قابل ٹیچرز موجود ہیں جو ہندو ہیں لیکن وہاں شرط ہندو مسلمان کی نہیں بنگلہ دیشی اور غیر بنگلہ دیشی کی ہے۔ مسلمان ہو یا ہندو یا عیسائی بنگلہ دیشی سب ایک ہیں اور برسوں سے اسلام آباد کے ظلم وستم سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب ان کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے تو بہتر ہو گا۔ شیخ مجیب نے قدرے توقف سے کہا یہ جو بڑے بڑے نام والی پارٹیاں آپ کو نظر آتی ہیں ان میں سے ایک بھی ڈھاکہ یا کسی اور شہر میں جلسہ عام نہیں کر سکتیں۔ نوجوان اتنے غصے میں ہیں کہ ان کے شامیانے اکھاڑ دیتے ہیں اور وہ کسی مقرر کی بات سننے کو تیار نہیں۔ شیخ صاحب کا لہجہ بہت پرجوش تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ لوگ چاہتے ہو کہ پاکستان قائم رہے تو بنگالیوں کو ان کا حق دینا پڑے گا۔ یہ پیرٹی جیسے قانون کہ آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود مغربی پاکستان سے زیادہ نمائندگی نہیں ملے گی۔ اب نہیں چل سکتے۔ اگر ہمیں ہمارا حق نہ ملا تو نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ یہ بوٹوں والے زبردستی ہمارے علاقے پر اسلام آباد کا قبضہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ میں نے کہا جناب! میں نے پڑھا ہے کہ آپ پاکستان موومنٹ کے سرگرم کارکن تھے اور علامتی طور پر کلکتہ اور ڈھاکہ کے درمیان سائیکل پر سفر کیا تھا۔ شیخ مجیب نے کہا ہمیں بعد میں احساس ہوا کہ ہمیں دو نمبر شہری شمار کیا جاتا ہے پھر وہ تھوڑا جذباتی ہوئے اور بولے پہلے اردو کو قومی زبان بنا کر ہماری زبان کو پیچھے دھکیلا گیا جس کے نتیجے میں جو مظاہرے ہوئے ان کا انجام بنگالی نوجوانوں کی شہادت ہے۔ اس مقام پر جو شہید مینار بنا وہاں سے ہماری تاریخ شروع ہوتی ہے۔ کچھ دیر مزید گفتگو کرنے کے بعد شیخ صاحب بڑے جذباتی لہجے میں بولے ہمارا نیا خون یونیورسٹی اور کالجوں کے نوجوان اب مزید زیادتی برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیکھو مسٹر! تم جو بھی کہو شاید اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان میں آخری رشتہ ہوں گا۔ میرے بعد آپ کو ڈھاکہ سے یہاں آنے والا کوئی دوست نہیں ملے گا۔ ہم الیکشن میں کلین سویپ کرنے جارہے ہیں آپ جسے مشرقی پاکستان کہتے ہیں وہاں سے عوامی لیگ کے سوا شاید ایک بھی سیٹ اسلام آباد کا طواف کرنے والوں کو نہ مل سکے۔ آپ لوگ ہمیں سمجھنے کی کوشش کرو‘ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ الیکشن کے بعد جیتی ہوئی عوامی لیگ ہمارے حساب سے متحدہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوگی اس کا راستہ روکنے والی کوئی حرکت کی گئی تو اسلام آباد کے بجائے ڈھاکہ بنگالیوں کا مرکز ہوگا۔ اگر تم کچھ لکھ سکتے ہو تو لکھو بتا سکتے ہو تو بتاؤ اب سازشیں کی گئیں تو ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
وہ بہت دیر تک بولتے رہے۔ مستقبل کا نقشہ کم از کم ان کی نظر میں واضح تھا میں نے کہا جناب اگر آپ کی پارٹی کی سیٹیں سب سے زیادہ ہوئیں تو آپ ہمارے وزیراعظم ہوں گے۔ انہوں نے کہا میں آپ کو دعوے سے کہتا ہوں کہ قومی اسمبلی میں ہماری سیٹیں سب سے زیادہ ہوں گی لیکن ہمیں وزارت عظمیٰ ملتی ہوئی نظر نہیں آتی اور اگر یہ زیادتی کی گئی تو آپ ڈھاکہ سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ہماری یہ گفتگو کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی۔
( جاری ہے)
شیخ صاحب نے ہمارے سامنے کُرتا پہنا ڈرائینگ روم سے بار بار بڑے سلیمی صاحب آرہے تھے اور کہہ رہے تھے شیخ صاحب باہر آئیں ڈرائنگ روم تو کیا باہر صحن بھی بھر چکا ہے لوگ ملاقات کے لئے بے چین ہیں۔ جب دوسری مرتبہ انہوں نے آکر اصرار کیا تو شیخ صاحب نے کہا میں شاکر کے نوجوان دوست سے بات کررہا ہوں جو جرنلسٹ ہے شاید میری بات اس کی سمجھ میں آسکے کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ جو کچھ ہمارے خلاف بیان ہورہا ہے وہ ہمیں دھکیل کر دیوار سے لگا دے گا۔ پھر میں بھی کچھ نہ کرسکوں گا اور سب کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
آج اتنے برس گزرنے کے باوجود ان کی باتیں مجھے اچھی طرح یاد ہیں بعد میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ الیکشن میں نور الامین اور تری دیورائے دو ارکان قومی اسمبلی کے سوا عوامی لیگ جیت گئی۔ پھر بھٹو صاحب نے ڈھاکہ جانے سے اپنے ارکان کو منع کردیا ’’ادھر ہم‘ ادھر تم ‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی پھر مجیب کے خلاف فوجی ایکشن ہو۔ بعدازاں بھٹو صاحب نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کر عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب کو میاں والی جیل سے اسلام آباد بلا کر باعزت لندن بھیج دیا جہاں سے بنگلہ دیش کا بابائے قوم بن کر بنگلہ بندھو ڈھاکہ پہنچا اور انڈیا کے حملے کے نتیجے میں بننے والی آزاد ریاست کا صدر بنا۔ کئی برس بعد سارک کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ اخبار نویسوں کے وفد میں شامل میں ڈھاکہ پہنچا تو بیگم خالدہ ضیاء حکمران تھیں جو میجر ضیاء الرحمن کی بیوی تھیں اور عوامی لیگ کے سخت خلاف تھیں۔ میں بطور خاص ’’پاکستان آبزرور‘‘ کے ایڈیٹر زاہد ملک کے ہمراہ شیخ مجیب کے گھر پہنچا وہاں کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا یہ کہانی پھر سہی۔