جب میں نے پہلی بار صبیحہ خانم کی فلم دیکھی تو میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور گورنمنٹ ہائی سکول ملتان میں پڑھتا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی فلمی صنعت میں صبیحہ خانم سے خوبصورت اور کوئی اداکارہ نہیں تھی۔ اس زمانے میں ہر دوسری فلم میں صبیحہ نظر آتی تھیں وہ سبھی اداکاروں کے ساتھ کام کرتی تھیں لیکن سنتوش کمار کے ساتھ ان کی جوڑی بہت مقبول تھی۔ میٹرک کے بعد میں لاہور آیا اور فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تو اپنی عمر کے مطابق شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر، بادشاہی مسجد، پرانا قلعہ، داتا صاحب کامزار، چوبرجی، مسجد وزیر خان، چڑیا گھر، عجائب گھر، لارنس گارڈن بالخصوص گلشن فاطمہ دیکھنے کے بعد میں نے ملتان روڈ پر واقع شاہ نور سٹوڈیو اور ایورنیو سٹوڈیوز دیکھے پھر ہدایتکار اداکار نذیر کے سکرین اینڈ ساﺅنڈ سٹوڈیو فیروز پور روڈ کا چکر لگایا جہاں سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی کی ایک فلم ہیر بنی تھی اور آخر میں اپنے نئے نئے دوستوں سے خواہش ظاہر کی کہ صبیحہ خانم سے ملنے جانا ہے۔ ہمارے دوستوں میں سے ذوالفقار احمد کے والد کاتعلق فلمی دنیا سے تھا کہ ان کے والد فلموں کی ایڈیٹنگ کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے والد کی معرفت وقت لیا اور ہم تین دوست ا چھرہ تھانہ سے قریب شاہ جمال روڈ پر صبیحہ کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ صرف ”اڑھائی گھنٹے“ انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ ابھی میڈم سو رہی ہے۔ یوں سومنات پر ہمارا پہلا حملہ ناکام ہوا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اگلی بار پوری تیاری کے ساتھ صبیحہ کی رہائش گاہ پر حملہ آور ہوں گے۔ برسوں بعد جب صبیحہ خانم سے بے شمار مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں اور صحافت کی دنیا میں میرا تھوڑا بہت نام بنا تو صبیحہ یہ سن کر بہت ہنسی اور انہوں نے کہا کہ ”ہائے مینوں تہاڈا پتا ہندا تے باہر آ کے ملدی“۔
صبیحہ کا اصل نام مختار بیگم تھا۔ وہ گجرات کی رہنے والی تھی۔ 1950 میں فلمی دنیا میں آئی۔ 16 اکتوبر 1935 ان کا یوم پیدائش ہے۔ 1950 میں فلم بیلی میںہیروئن کی سہیلی کے طور پر پہلی بار اداکاری کی، سلور جوبلی فلم دو آنسو میں ہیروئن بنی اور 1954میں گولڈن جوبلی فلم سسی کے بعد ان کا ستارہ عروج پر پہنچ گیا۔ پاکستان کی کامیاب ترین فلم دلا بھٹی 1956 میں بنی جس کا مشہور گانا آج تک فلم بینوں کو یاد ہے ”واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا“ 1954 میں ”گمنام“ 1955 میں ”قاتل“ چھوٹی بیگم اور 1956 میں فلم ”سرفروش“ عشق لیلیٰ، وعدہ اور 1957 میں سات لاکھ 1958 میں موسیقار 1963 میں دامن 1963 میں کنیز 1965 اور سوال 1966 میں سامنے آئیں۔ صبیحہ کی ماں کا نام بالو تھا۔ اصل نام اقبال بیگم۔ وہ سٹیج کی اداکارہ تھی۔ 1937 میں ہیر سیال فلم میں کام کیا 1938 میں سسی پنوں سامنے آئی۔ صبیحہ کے والد کا نام محمد علی عرف ماہیا تھا۔ 1959 میں صبیحہ کی اپنی فلم ناجی کے ٹائٹل پر ان کا نام بطور فلمساز دیا گیا۔ فلموں سے اداکاری ختم ہونے کے بعد صبیحہ نے ٹی وی پر گانا شروع کیا۔ سونی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد، جگ جگ جیے میرا پیارا وطن ان کے مشہور گانے تھے لیکن وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ حالانکہ موسیقار خلیل احمد نے جو پی ٹی وی پر ہفتہ وار پروگرام کرتے تھے انہیں گلوکارہ بنانے کی بہت کوشش کی۔ ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں کے بعد پنجاب میں بالو یعنی اقبال بیگم اور ماہیا یعنی محمد علی کی داستان محبت بہت مشہور ہوئی۔ چنانچہ اس محبت کا انجام شادی پر منتج ہوا۔ ان دونوں کی ایک ہی بیٹی تھی جس نے صبیحہ خانم کے نام سے اداکاری کا آغاز کیا۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے سینئر اداکارہ شمار ہوتی ہیں۔ نفیس خلیلی نے انہیں اپنے سٹیج ڈرامے میں کام دیا۔ مسعود پرویز ہدایتکار نے 1950میں فلم بیلی میں کاسٹ کیا۔ انور کمال پاشا نے دو آنسو میں سنتوش کمار کے ساتھ ان کی جوڑی بنائی۔ شروع میں لوگوں کا خیال تھا کہ وہ صرف اردو فلموں میں کام کر سکتی ہیں اور سمجھا جاتا تھا کہ کرتے اور لاچے میں مسرت نذیر صحیح پنجابی مٹیار لگتی ہے لیکن ہدایتکار ایم ایس ڈار کی سپرہٹ فلم دلا بھٹی میں صبیحہ خانم نے زبردست اداکاری کی اور یوں وہ پنجابی فلموں کی بھی سپرہٹ ہیروئن بن گئیں۔ فلم وعدہ کی شوٹنگ کے دوران اور سنتوش کمار کی داستان محبت کا آغاز ہوا لیکن برسوں بعد فلم حسرت کی شوٹنگ جاری تھی کہ یکم اکتوبر 1958ءمیں صبیحہ اور سنتوش نے شادی کر لی حسن طارق کی فلم تہذیب، اک گناہ اور سہی میں صبیحہ نے ناقابل فراموش کردار ادا کئے۔ آغاز میں صبیحہ نے مدرستہ البنات میں داخلہ لینا چاہا لیکن انتظامیہ نے اجازت نہ دی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ سکول میں ایک فلم ایکٹریس کی موجودگی سے اکثر بچیوں کے والدین کو اعتراض ہوگا۔
سنتوش کمار کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی درپن بھی فلم ایکٹر تھے۔ جن کی شادی اداکارہ نیئر سلطانہ سے ہوئی ان سے چھوٹے سید سلیمان تھے جو بہت سی کامیاب فلموں کے ہدایتکار ہیں اور آج کل کراچی میں کبھی کبھار کوئی ٹی وی سیریل بناتے ہیں۔ ان سے بھی چھوٹے منصور ہیں جو ایک زمانے میں ڈاکومنٹری فلمیں بناتے تھے۔ سید سلیمان نے اداکارہ اور رقاصہ پنا سے شادی کی جو ختم ہو چکی ہے۔
1957 وہ سال ہے جس میں کل 27 فلمیں بنیں اور ہر تیسری فلم کی ہیروئن صبیحہ خانم تھیں۔ ان میں سے سنتوش کمار کے ساتھ چار اور اسلم پرویز کے ساتھ تین فلمیں سامنے آئیں۔ فلم آنکھ کا نشہ کے ہیرو سدھیر تھے لیکن اس فلم میں مسرت نذیر نے صبیحہ کی ماں کا کردار ادا کیا۔ 1958 میں بھی صبیحہ کی فلمیں سب سے زیادہ تھیں۔ صبیحہ کے والد سونے کی اس چڑیا سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے سخت مخالفت کی۔ سنتوش کمار کی پہلی بیوی کا نام جمیلہ رضا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خاتون کی وجہ سے ہی میرے تعلقات سنتوش کمار سے قائم ہوئے کیونکہ اچھرہ میں میرے گھر کے ساتھ ہاﺅس نمبر3 میں ریلوے کے ایک ریٹائرڈ افسررہتے تھے جبکہ میری رہائش ان سے اگلے مکان یعنی نمبر 4 میں تھی۔ سپرنٹنڈنٹ رہتے تھے۔ جمیلہ ان کی بیٹی تھیں اور مہینے میں دو تین بار سنتوش کمار اپنی لمبی گاڑی میں اپنے سسرال آتے تھے اور ہمیشہ جمیلہ ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجئے کہ سارے محلے کو جمیلہ رضا کی فیملی نے کس طرح اُلو بنایا۔ ایک شام ہمارے پڑوس سے اچانک شور اٹھا۔ میرے بڑے بھائی مزمل صاحب یونیورسٹی میں بی فارم کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا میرے ساتھ چلو، اگلے ہی لمحے ہم جمیلہ کے گھر پہنچ گئے وہاں برآمدے میں ایک ستون کے ساتھ گہرے سانولے رنگ کا ا یک نوجوان رسوں سے بندھا ہوا تھا اور جمیلہ کا بوڑھا باپ دہائی دے رہا تھا کہ یہ بدمعاش میری بیٹی عقیلہ کو بھگا کر لے گیا ہے۔ سارے محلے والے جمع ہو گئے جو نوجوان تھے وہ ستون کے ساتھ بندھے ہوئے اس بدمعاش کی پٹائی کر رہے تھے جو بقول جمیلہ کے والد کے سنتوش کی سالی کو اغوا کر کے لے گیا تھا۔ جمیلہ محلے میں کافی مقبول تھی کیونکہ وہ دراز قد اور خوبصورت لڑکی تھی۔ شاید اسی وجہ سے نوجوانوں نے ستون سے بندھے ہوئے ”ملزم“ مار مار کر برا حال کر دیا تھا۔ پھر کسی سیانے نے کہا اسے مت مارو کہیں مر ہی نہ جائے اور رسہ کھول کر اسے اچھرہ تھانے لے چلو۔ ہم سب عقیلہ کے باپ کے ساتھ اچھرہ تھانے پہنچے۔ سنتوش کمار کے سسر تھانے کے ٹیلی فون سے بار بار سنتوش صاحب کو فون کر رہے تھے کہ فوراً تھانے پہنچ جائیں لیکن وہ کسی شوٹنگ پر سٹوڈیو گئے ہوئے تھے۔ رات نو بجے کا وقت تھا۔ پولیس نے ”ملزم“ سے سوال کیا لڑکی کہاں ہے؟ وہ بولا جناب میرے گھر میں ہے۔ ہم نے کچھ عرصہ پہلے شادی کر لی تھی لیکن عقیلہ کے والدین ہماری شادی کے سخت مخالف تھے۔ میرا ایک پرائیویٹ سکول ہے اور عقیلہ اس میں بچوں کو پڑھاتی تھی۔ وہ اسے رخصت نہیں کرتے تھے۔ آج میں اپنے عزیزوں کے ساتھ ان پر دباﺅ ڈالنے گیا کہ میری بیوی کو رخصت کریں تو انہوں نے ہمیں مارا اور ان کے گھر میں موجود لوگوں نے مجھے ستون کے ساتھ باندھ دیا لیکن میرے کچھ عزیز عقیلہ کو لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ واضح رے کہ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر مزمل نے ”ملزم“ کی سب سے زیادہ پٹائی کی تھی۔ اب ہم خود ملزموں کی طرح بیٹھے ہوئے تھے چھوٹے تھانیدار صاحب نے حکم دیا کہ گرم دودھ لاﺅ۔ مجھے یہ فرض سونپا گیا اور میں اچھرے جا کر ایک جگ میں گرم دودھ لایا، ملزم کو دودھ پلایا گیا اس دوران میں ملزم کے بھائی اور کچھ اور لوگ عقیلہ کو لے کر تھانے پہنچ گئے۔ جہاں عقیلہ نے نکاح کا اعتراف کر لیا چنانچہ پولیس والوں نے عقیلہ کے باپ، ان کے ساتھ آنے والے پڑوسیوں کو ڈانٹ پلائی اور کہا اگر آپ کے خیال میں یہ شادی نہیں ہوئی تو عدالت سے رابطہ کریں۔ آپ کو کسی انسان کو گھر میں باندھ کر مار پٹائی کا کوئی حق نہیں۔ یوں عقیلہ اپنے من پسند شوہر کے ساتھ تھانے سے” فتح یاب“ ہو کر رخصت ہو گئی اور ہم ندامت سے سرجھکا کر ا پنے اپنے گھر چلے گئے۔
(جاری ہے)
اگلے روز ہم نے سنتوش کمار کو اپنے سسرال آتے دیکھا۔ حسب معمول ان کی پہلی بیگم جمیلہ ہمراہ تھی۔ کافی دیر بحث ہوتی رہی۔ گواہ کے طور پر میرے بڑے بھائی اور مجھے بھی بلایا گیا تاہم ساری روداد سن کر جمیلہ نے والدین کو سمجھایا کہ عقیلہ نے اچھا نہیں کیا لیکن بہرحال اب اس کی شادی ہو چکی ہے آپ صبر کریں اور ہو سکے تو داماد کے ساتھ صلح کر لیں تاکہ آپ سے آپ کی بیٹی مل جل سکے۔ اس گھریلو ”پنچایت“ کے حوالے سے سنتوش صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے دعوت دی کہ کسی روز میں فلم سٹوڈیو میں ان کی شوٹنگ دیکھنے آﺅں۔ میں نے حامی بھری لیکن ان دنوں رات کو اخبار میں ملازمت کرتا تھا اور دن میں کالج جاتا تھا اس لئے برسوں تک میں کبھی فلم سٹوڈیو نہ جا سکا البتہ وقتاً فوقتاً سنتوش صاحب ہمارے پڑوس میں آتے تو یہ ضرور معلوم کرواتے کہ میں گھر میںہوں یا نہیں۔ بہت برسوں بعد میں اپنے گھر سے نکل رہا تھا اور وہ کار سے نکل کر اپنے سسرال جا رہے تھے کہ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا ضیاصاحب! آپ نے میری دعوت قبول نہیں کی۔ میں نے پھر وعدہ کیا کہ کل ہی چکر لگاﺅں گا۔ اگلے روز میں سٹوڈیو پہنچا۔ یہ فلم میرا گھر میری جنت کا سیٹ تھا حسن طارق ہدایتکار تھے۔ فلم کے گانے کے بول بھی میرا گھر میری جنت ہی تھے۔ صبیحہ پر گیت فلمایا جا رہا تھا تاہم حسب وعدہ سنتوش کمرے کے پیچھے پلاسٹک کی کرسیوں پر گول میز کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بڑی محبت سے میرا ا ستقبال کیا اور کہا کہ آج کھانا میرے ساتھ کھائیے گا۔ پھر وہ مجھ سے میرے کالج اور میری اخبار میں ملازمت کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے۔ سنتوش کمار کی عمر اب ڈھلنے لگی تھی تاہم وہ ا بھی تک انتہائی خوبصورت انسان تھے۔ مجھے ان کی پہلی اور دوسری بیوی کے مابین بہت باتوں کا علم تھا کیونکہ ہم برسوں سے جمیلہ کے والدین کے پڑوس میں رہتے تھے اور ہمارے درمیان صرف ایک دیوار تھی۔ محلوں کی مخصوص طرز زندگی میں شاید ہی کبھی گھر میں کوئی میٹھی چیز پکی ہو اور خواتین نے دیوار کے ساتھ سٹول رکھ کر اپنے پڑوسیوں کو نہ بھجوائی ہو۔ پڑوسیوں کے دکھ سکھ غمی خوشی میں شامل ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا لہٰذا ایک مدت تک دونوں بیویوں کا ایک ہی گھر میں رہنا یقیناً دلچسپ واقعات تخلیق کرتا تھا۔ سنتوش انتہائی مہذب، کم گو اور مخلص انسان تھے۔ میں نے ا ن کی زبان سے کبھی کوئی سخت لفظ نہیں سنا۔ وہ کسی کی برائی نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی بات ناپسند ہوتی تو خاموش ہو جاتے یا موضوع تبدیل کر دیتے۔ بعدازاں فلمی صنعت چھوڑ کر انہوں نے ہال روڈ پر واقع آر جی اے کمپنی میں ڈائریکٹر مارکیٹنگ کے طور پر ملازمت کر لی جو پلاسٹک کیبنٹ میں عوامی ٹرانسسٹر بناتی تھی۔ میں کئی بار انہیں ہال روڈ کی بلند و بالا بلڈنگ میں ملنے بھی گیا۔ سنتوش بہت حساس اور عزت نفس اور انا رکھنے والے انسان تھے۔ ایک مرتبہ میرے پوچھنے پر کہ آپ نے فلمیں کیوں چھوڑ دیں وہ بولے ضیاصاحب! جب اداکاری نہیں آتی تھی اور چار خانے کی بشرٹ پر پتلون پہن کر ہیروئن کے پیچھے اور درختوں کے گرد بھاگنا ہوتا تھا یا اسے سائیکل پر بٹھا کر گھمانا ہوتا تھا تو بڑی فلمیں ملتی تھیں پھر شادی ہوئی زندگی کا کچھ تجربہ ہوا دکھ سکھ دیکھے دوسری شادی پر خاندانی نظام کے جھگڑے سامنے آئے۔ پاکستان سے باہر بہت کچھ دیکھنے کا موقع ملا۔ ہالی وڈ کی سیر کی تو کنپٹیوں پر کچھ بال سفید ہو گئے تھے۔ پاکستانی فلموں کے پروڈیوسر ناچنے گانے والے چاکلیٹی نوجوان کی ضرورت تھی لہٰذا فلموں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی اور آخر میں مجھے یہ جملہ بار بار سننا پڑا کہ شاہ جی ایک چھوٹا سا رول ہے ہیروئن کے ابا کا۔ میں سمجھ جاتا کہ بالوں میں کچھ اور سفیدی بھرنی ہے اور بوڑھے آدمی کے روپ میں ہیروئن کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتے ہوئے کمرے کے وسط میں چارپائی پر لاکر دھکا دینا ہے اور پوری قوت سے چیخ کر کہا ہے آج کے بعد گھر سے باہر نکلی تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔ یہ کہنے کے بعد سنتوش صاحب نے اس نکتے کی یوں وضاحت کی کہ دنیا بھر میں بڑے ایکٹر 50/55 سال کے بعد مشہور ہوتے ہیں۔ انہوں نے امریکی اداکار گیری کوپر کی مثال دی کہ وہ 72 سال کی عمر میں کاﺅبوائے فلموں میں ہیرو آتا ہے اور فائٹ کے مناظر فلمبند کرواتا ہے۔ پھر انہوں نے جان وین کا ذکر کیا جو 68 برس کی عمر میں ”کنکرر“ فاتح فلم میں آپ کو جنگجو کی حیثیت سے فائٹ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں جب آدمی کو پتا چلتا ہے کہ پرفارم کیسے کرنا ہے تو مکھن میں سے بال کی طرح اسے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ آرجی اے والے میرے عزیز بھی ہیں اچھے وقتوں میں، میں نے کچھ شیئر ان کی کمپنی کے خریدے تھے آج وہی کام آئے اوراب میں نئے ٹرانسسٹر کی مارکیٹنگ کر رہا ہوں۔
قارئین کو حیرت ہو گی کہ میں نے صبیحہ خانم کے ذکر کے ساتھ ہی سنتوش کا تذکرہ کیوں شروع کر دیا۔ دراصل یہ دونوں نام پاکستان کی فلمی تاریخ میں کچھ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا بہت مشکل ہے سنتوش صاحب کی وفات کے بعد صبیحہ خانم پر بہت مشکلات آئیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ان کے ساتھ کھڑا ہونے والا اب بچھڑ گیا تھا اور وہ اکیلی رہ گئی تھی۔ اس دور میں بھی انہوں نے ایک معمر خاتون کی حیثیت سے بھی زبردست کردار ادا کئے۔ کیا آپ اک گناہ اور سہی کی ممی کو بھول سکتے ہیں۔ اس فلم کی کہانی سعادت حسن منٹو کے ڈرامے ممی سے لی گئی تھی اور معروف فلمساز اور مصنف آغا حسن امتثال نے اسے سکرین کے لئے لکھا تھا۔ یہ ایک ایسی نائیکہ کی کہانی ہے جو ان لڑکیوں سے جن سے وہ پیشہ کرواتی ہے ٹوٹ کر پیار بھی کرتی ہے اور جب کبھی کوئی ان کا ہاتھ مانگتا ہے تو وہ خوشی سے سرشار ہو جاتی ہے۔
زندگی کے شب و روز گزرتے رہے۔ اردو ڈائجسٹ، صحافت، نوائے وقت، جنگ، پاکستان اور پھر خبریں ادارے بدلتے رہے لیکن قدرت کو شاید یہی منظور تھا۔ پہلے سنتوش کمار اور پھر صبیحہ سے بار بار میرا ٹاکڑا ہوتا رہا۔ جن دنوں میں جنگ میں ڈپٹی ایڈیٹر اور بعدازاں جوائنٹ، ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہا تھا ہم اکثرا پنے فورموں میں صبیحہ خانم کو بلاتے تھے۔ ان کے لئے بڑے مشکل حالات تھے لیکن وہ انتہائی وقار کے ساتھ اور اپنی گزشتہ شہرت کے حوالے سے اپنے آپ کو عزت اور احترام سے محفوظ رکھے ہوئے تھی۔نگار زریں شاید ہماری خاتون رپورٹر تھیں۔ وہ جنگ میں ملازمت کے دوران پنجابی میں ریڈیو پروگرام بھی کرتی تھی اور اکثر سننے والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ کوئی سکھ لڑکی ہے جو بول رہی ہے۔ وہ انتہائی دبلی پتلی خاتون تھیں ان کے شوہر شاہد صاحب لبرٹی مارکیٹ میں مسجد کے سامنے سندھی بریانی بیچتے تھے۔ ایک روز وہ گھبرائی ہوئی میرے پاس آئیں۔ انہوں نے پوچھا جیب میں کتنے پیسے ہیں میں نے پرس نکال کر گنتی کی اور کہا 22سو روپے ہیں نگار بولیں ضیاصاحب میرے ساتھ چلیں ایمرجنسی ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور سخت گرمی تھی۔ میرے پاس نئی سوزوکی کار تھی اور خدا کا شکر ہے کہ اس کا ایئرکنڈیشنر بھی خوب کام کرتا تھا، نگار بالکل بہنوں کی طرح تھیں اور سب اسے بہت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ مجھے دھنی رام روڈ پر لے گئیں اور میو ہسپتال کی عقبی دکانوں کے سامنے برتنوں کی دکان سے ایک راہبر واٹر کولر خریدا، ایک بڑی ایک چھوٹی پلیٹ کے علاوہ جگ گلاس اور فرائی پین بھی لیا۔ پھر ایک دکان سے دودھ کے دو پیکٹ دہی کے دو پیکٹ ایک کلو چینی ایک کلو بیسن اور کچھ مصالحہ جات بھی لئے۔ میں اسے بار بار پوچھتا کہ کیا گھر سے لڑ کے آئی ہو جو نیا گھر بسا رہی ہو لیکن وہ ہنستی رہی۔ انارکلی کی ایک دکان سے ہم نے بیڈ شیٹ تکئے کا غلاف اور میز پوش لیا اور پھر فیروزپور روڈ سے ہوتے ہوئے گارڈن ٹاﺅن پہنچے۔ نگار مجھے گائیڈ کرتی رہیں اور ہم ایک بڑی سی کوٹھی میں داخل ہو گئے کچھ چیزیں میں نے اٹھائیں تو کچھ نگار نے۔ بیرونی برآمدے ہی سے سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں۔ لگتا تھا گراﺅنڈ فلور پر سب کمروں میں ہیں کیونکہ سارے ایئرکنڈیشنر چل رہے تھے۔ ہم سب سے بالائی چھت پر پہنچے جہاں سیڑھیوں کے بعد صرف خالی فرش دکھائی دے رہا تھا۔ سیڑھیوں پر جو چھت تھی اسے بڑھا کر ایک کمرے کی شکل دی گئی تھی۔ اینٹوں کا فرش تپ رہا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو کل کائنات ایک پرانا بیڈ تھا جس پر صبیحہ خانم بیٹھی تھیں اور پسینے میں شرابور تھیں۔قارئین واضح رہے کہ ہم نے وہاں کچن نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی سلام دُعا کے بعد میں نے نگار سے پوچھا مسئلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا آنٹی کا اپنی بیٹی سے کوئی جھگڑا ہو گیا ہے اور وہ شادمان کا گھر چھوڑ کر وقتی طور پر کسی واقف کار کی کوٹھی کے بالائی کمرے میں منتقل ہو گئی ہیں۔ دو چار دن میں باقی بچوں سے ان کا رابطہ ہو جائے گا لیکن وہ کسی سے مدد مانگنا نہیں چاہتیں اس لئے میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ یہ چند روز وہ کسی نہ کسی طرح گزار لیں پھر ان کے بچے آ جائیں گے اور کوئی نہ کوئی انہیں اپنے ساتھ لے جائے گا۔
زندگی میں پہلی بار جس خاتون کے گھر شاہ جمال میں ہم اڑھائی گھنٹے اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیٹھے رہے تھے۔ آج وہ عارضی ہی سہی لیکن شدید بحران میں نظر آئی تھیں۔ انہوں نے نگار کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور بڑے وقار سے بولیں۔ ضیا صاحب! آپ کا بہت شکریہ۔ دوچار دن کی بات ہے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا بس مجھے فکر ہے تو اس بات کی کہ آج کل رمضان ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں سحر اور افطار کے وقت کوٹھی کے مالکان سے مدد مانگوں۔ میں نے بڑے اچھے دن گزارے ہیں‘ میں نہیں چاہتی کسی کو بھی میری پریشانی کا علم ہو۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ہم کسی سے بات نہیں کریں گے اور اجازت مانگی کہ دو چار دن کے لیے کھانے پینے کی کچھ چیزیں تو ہم ابھی بازار سے لے کر دے جاتے ہیں۔ انہوں نے بڑے وقار سے جواب دیا اللہ آپ کو جزا دے ویسے بھی روزے داروں کی سحری اور افطاری کا بندوبست کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔ ہم نے بازار کا پھر ایک چکر لگایا اور اپنی طرف سے دو تین دن کے لیے کچھ چیزیں‘ تھوڑے پھل‘ سموسے‘ ڈبل روٹی‘ بسکٹ کے چند ڈبوں کے علاوہ کولر میں ڈالنے کے لیے برف لے کر صبیحہ خانم کو دے آئے۔ اگلے روز مجھے دفتر کے کسی کام سے اسلام آباد جانا تھا‘ تیسرے دن میں نے وہیں سے دفتر فون کیا اور نگار کو بلایا۔ خدا کا شکر ہے کہ صبیحہ خانم کے بعض عزیزوں کو پتا چل گیا تھا اور ان کا قریبی کوئی خاندان آ کر انہیں گاڑی پر ساتھ لے گیا تھا۔ نگار نے بتایا کہ صبیحہ خانم نے کمرے کو جو تالا لگایا تھا اس کی چابی وہ خود آ کر روزنامہ جنگ کے دروازے پر سکیورٹی والوں کو دے گئی تھیں اور بعد میں نگار کو فون پر انہوں نے کہا تھا کہ وہاں جو چیزیں پڑی ہیں وہ اٹھوا لینا اور یاد سے کسی ضرورت مند کو دے دینا۔
کچھ برسوں بعد معلوم ہوا کہ وہ امریکی ریاست ورجینیا کے شہر لس برگ چلی گئی ہیں جہاں ان کی ایک بیٹی آباد ہے۔
ایک زمانے میں ٹیلی ویژن کی سکرین پر صبیحہ خانم نے انور مقصود کے پروگرام سلور جوبلی میں ”یادکروں تجھے شام سویرے “ بھی سنایا ۔ آیئے اب ان ایوارڈز کا تذکر ہو جائے جو صبیحہ خانم کو ملے۔ سب سے زیادہ نگار ایوارڈ 1957ءمیں بہترین اداکارہ فلم سات لاکھ میں‘ 1963 ءمیں بہترین اداکارہ فلم شکوہ میں‘ 1967ءمیں سپیشل ایوارڈ فلم دیور بھابھی میں‘ 1975ءمیں سپیشل ایوارڈ فلم اک گناہ اور سہی میں‘ 1981ءمیں 30 سالہ فلمی کیریئر پر ایوارڈ ملا۔ بہترین معاون اداکارہ حسن طارق کی فلم سنگدل میں (1982) ۔
ان کی فلموں کے ناموں پر نظر ڈالیں اور دیکھیںکہ پوری زندگی انہوں نے کتنی شہرت اور نام کمایا۔فلموں کے نام یہ ہیں۔ 1950 ءبیلی‘ اسی سال دو آنسو اور ہماری بستی‘ 1951ءمیں غیرت اسی سال فلم پنجرہ‘ 1953 میں برکھا اسی سال غلام اور سیلاب‘ اسی سال آغوش‘ 1954ءمیں گمنام‘ رات کی بات اور سسی‘ 1955ءمیں چھوٹی بیگم‘ دلا بھٹی‘ حمیدہ‘ اور سرفروش بنیں‘1957 ءمیں بھولے خان‘ داتا‘ عشق لیلیٰ‘ پاسبان‘ سردار، سات لاکھ، وعدہ، آنکھ کا نشہ، آس پاس مکمل ہوئیں 1958ءمیں فلم دربار، دل میں تو، حسرت، مکھڑا،شیخ چلی بنیں۔ 1959ءمیں مسکراہٹ، نغمہ¿ دل، ناجی، تیرے بغیر، آج کل۔ 1960ءمیں ایاز، راہگزر، سلطنت، شام ڈھلے۔ 1962ءمیں موسیقار 1963ءمیں دامن، رشتہ، شکوہ۔ 1964ءمیں دیوانہ، عشرت 1965ءمیں کنیز 1966ءمیں سوال، تصویر، دیور بھابھی، ستمگر، آگ، کمانڈر، ناہید، شہنشاہ جہانگیر 1969ءمیں لاڈلا، ماں بیٹا، پاک دامن، انجمن، مترئی ماں، محبت رنگ لائے گی، سجناں دور دیا 1971ءمیں بندہ بشر، بہن بھرا، گرہستی، جلتے سورج کے نیچے، تہذیب، یار دیس پنجاب دے۔ 1972ءمیں ایک رات محبت، سر دا سائیں، آﺅ پیار کریں۔ 1973ءخواب اور زندگی، شرابی۔ 1974ءمیں دیدار، مس ہپی، پیار دی نشانی، قسمت، رنگی، سیﺅ نی میرا ماہی، 1975ءمیں بکھرے موتی 1976ءمیں زبیدہ 1977ءکالو، میرے حضور، آگ اور زندگی 1978ءابھی تو میں جوان ہوں، حیدر علی، شیرا، تماشبین، 1979ءدو راستے، راجہ کی آئے گی بارات، وعدے کی زنجیر 1980ءبدمعاشی بند، 1980ءمیں رشتہ 1981ءانوکھا درج، چن سورج، پروا نئیں، 1982ءمیں سنگدل، ووہٹی جی 1985ءعشق نچاوے گلی گلی، کامیابی 1985ءدیوانے دو، مہک 1989ءمحبت ہو تو ایسی، 1994 سارنگا۔ ان کی کامیاب فلمیں تھیں۔
سنا ہے آج کل امریکہ میں وہ اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ رہتی ہیں تاہم ان کا بیٹا اور چھوٹی بیٹی بھی امریکہ ہی میں بعض دوسرے مقامات پر رہائش پذیر ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ ان کا فون نمبر مل سکے تا کہ میں ان سے بات کر کے تازہ ترین صورت حال قارئین کو بتا سکوں لیکن فلم رپورٹر اشفاق حسین صاحب کی کوشش کے باوجود ان کا فون نمبر نہیں ملا البتہ میرے بعض رشتہ دار جو کسی شادی کے سلسلے میں امریکہ سے آئے تھے انہوں نے بتایا کہ صبیحہ خانم جس بیٹی کے ساتھ رہتی ہیں اس کا بڑا اچھا کاروبار ہے اور وہ صبیحہ خانم کا بڑا خیال رکھتی ہیں ان کے دوسرے بچے بھی اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے یوں کہا جا سکتا ہے کہ صبیحہ خانم سنتوش کی رحلت کے بعد جن مسائل کا شکار ہوئیں اور مشکلات کے جن گرداب میں پھنسی اس سے نکل چکی ہیں اور اپنی بقیہ زندگی اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ میں ہنسی خوشی بسر کر رہی ہیں برسوں سے وہ پاکستان نہیں آئیں اور نہ ہی ان کا اپنے ملنے جلنے والوں سے کوئی رابطہ ہے۔ درپن ان کے دیور اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، نیئر سلطانہ بھی انتقال کر چکی ہیں ان کے دوسرے دیور سلیمان کراچی میں ہیں جبکہ ان کے سب سے چھوٹے دیور منصور کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
اپنے دور کی سب سے خوبصورت سب سے مقبول اور سب سے باصلاحیت اداکارہ آج یہاں موجود نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ ایک بار جنگ اخبار کی ملازمت کے دوران ہمارے ساتھی فلم رپورٹر عاشق چودھری جو آج کل اپنے نام کے ساتھ ستارہ¿ امتیاز بھی لکھتے ہیں اور نگار زریں کو یہ ڈیوٹی سونپی گئی تھی کہ وہ سنتوش کمار کی قبر پر صبیحہ خانم کو لے جائیں اور ان کی ایسی تصاویر بنوائیں جن میں سنتوش صاحب کے نام کی تختی نظر آ رہی ہو، میں اس موقع پر موجود نہیں تھا لیکن مجھے دوستوں نے بتایا کہ عمر بھر کیمروں کے سامنے ہنسنے اور رونے کی اداکاری کرنے والی صبیحہ خانم حقیقی زندگی میں بھی اپنے شوہر کی قبر پر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں کیونکہ فلموں میں سینکڑوں بار عشق و محبت کے مناظر فلمبند کروانے کے باوجود انہیں زندگی میں ایک ہی شخص سے محبت ہوئی جو عمر کے آخری سالوں میں ان کا ساتھ نہ دے سکا اور دوسری دنیا میں چلا گیا۔ میں صبیحہ خانم کے حالات زندگی پڑھ رہا تھا تو مجھے حیرت ہوئی کہ سنتوش صاحب نے اپنی پہلی شادی جو جمیلہ رضا سے ہوئی تھی کا دعوت نامہ بطور خاص صبیحہ صاحبہ کو بھجوایا اس وقت کسے معلوم تھا کہ صبیحہ ایک دن سنتوش کمار کی دوسری بیوی بن جائیں گی۔