1966ءمیں 91 فلمیں سامنے آئیں کیونکہ 1965ءکی جنگ کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگ گئی تھی چنانچہ پنجابی‘ بنگالی اور سندھی فلمیں بھی بننے لگیں لیکن یہ صبیحہ اور سنتوش کا شاید آخری سال تھا۔ نو فلموں میں سنتوش اور دو فلموں میں صبیحہ نے کام کیا جن کے نام ہیں ”سوال“ اور ”تصویر“ دونوں کے ہیرو سنتوش تھے۔ حسن طارق کی سپرہٹ فلم سوال صبیحہ‘ سنتوش کی آخری کامیاب فلم تھی۔ فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے اور موسیقار رشید عطرے اور میڈم نور جہاں کے گائے ہوئے دو گیت امر ہوئے۔ لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم میں نہ لگاﺅں گی ہاتھ رے“ ”اے رے او بے مروت اے رے او بیوفا بتا دے کیا یہی ہے وفاﺅں کا صلہ“۔ تصویر میں بھی صبیحہ‘ سنتوش تھے لیکن اسے سنتوش کے بھائی ایس سلیمان نے بنایا تھا‘ خلیل احمد کی موسیقی میں یہ گیت بہت مقبول ہوا۔ ”اے جانِ وفا دل میں تیری یاد رہے گی“۔ اس فلم میں زیبا محمد علی اور اسلم پرویز بھی موجود تھے۔ سنتوش کی دیگر سات فلموں میں میرا سلام‘ انسان‘ مجبور‘ تقدیر‘ ماں‘ بہو اور بیٹا سبھی ناکام فلمیں تھیں جن میں رانی‘ شمیم آرا اور حسنہ نے کام کیا۔ ان فلموں کے یہ گیت البتہ بہت مقبول ہوئے۔ ”اب اور پریشان دل ناشاد نہ کرنا“ (مہدی حسن) ۔ ”آ جا پیار کی نندیا چوری چوری“ (مالا‘ مجیب عالم)۔ ”ہم شہر وفا کے لوگوں کو تقدیر نے اکثر لوٹا ہے“ (مسعود رانا)۔ ”یہ دنیا وہ محفل ہے جہاں آنسو بھی ہیں“ (مسعود رانا) اس سال کی ایک بڑی فلم ”ہمراہی“ تھی جس میں سنتوش کمار ہیرو تھے اور ہیروئن حسنہ تھی لیکن ہیرو کے ساتھ کوئی بھی لو سانگ شامل نہیں تھا۔ اس سال کی آخری فلم فلمساز نغمہ نگار حمائت علی شاعر کی لوری تھی۔ سنتوش کے ساتھ ہیروئن زیبا تھی جبکہ طلعت صدیقی اور محمد علی بھی اداکاروں میں شامل تھے۔ یہ فلم بھی اپنے گیتوں کی وجہ سے بہت مقبول ہوئی اور اس کا ایک گیت ”خداوندا یہ کیسی آگ سینے میں“ کے علاوہ اس کی لوری بھی بہت مقبول ہوئی۔ اس دور میں وحید مراد اور محمد علی سپر سٹار بن چکے تھے اور اردو فلم بین اب سنتوش ‘ سدھیر ‘ درپن وغیرہ سے اکتا چکے تھے اور ان کے ایک جیسے انداز سے بیزار ہوچکے تھے۔ 1967 ءمیں کل 83 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں پانچ فلموں میں سنتوش اور تین فلموں میں صبیحہ خانم نظر آئیں۔ ان میں سے ایک فلم ”ستمگر“ تھی جس میں یہ جوڑی مرکزی کردار میں تھی لیکن رانی اور درپن بھی موجود تھے۔ فلم ”دیور بھابی“ اور ”آگ“ میں یہ جوڑی معاون کرداروں میں تھی۔ اور روایتی ہیرو اور ہیروئن بالترتیب رانی ‘ زیبا‘ وحید مراد اور محمد علی تھے سنتوش کی بطور ہیرو دو اور فلمیں ناکام سامنے آئیں۔ رانی کے ساتھ ”بے رحم“ اور فردوس کے ساتھ ”لہو پکارے گا“ دونوں ناکام ہوئیں۔ 1968ءمیں ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 128 تک جا پہنچی لیکن صبیحہ خانم کو تین اور سنتوش کو پانچ فلمیں ملیں۔ تین فلموں میں یہ جوڑی معاون کرداروں میں ملی جس میں ”کمانڈر“ ‘ ناہید اور شہنشاہ جہانگیر شامل ہیں۔ رانی‘ حیدر‘ دیبا‘ سلونی ‘ اعجاز ان میں جوانی کے کرداروں میں تھے۔ کمانڈر فلم ناکام ہوئی لیکن گانے بہت مقبول ہوئے جس کی دھنیں ماسٹر عبداللہ نے بنائی تھیں۔
”جان من اتنا بتا دو محبت ہے کیا“(ارونا لیلیٰ ) ”جواب دے بیوفا زمانے“(نور جہاں) میرا محبوب ہے یا جان بہار آیا ہے“ )ارونا لیلیٰ‘ مسعود رانا) سنتوش کو فلم ”جان آرزو“ میں شمیم آراءاور وحید مراد اور پنجابی فلم ووہٹی میں نیلو اور محمدعلی کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ دونوں فلمیں ناکام ہوئیں۔ 1969ءمیں میاں بیوی کی یہ جوڑی اپنی ذاتی فلم ”پاک دامن“ میں نظر آئی۔ فلم کے سہارے کیلئے دیبا‘ اور اعجاز سیکنڈ پیئر تھے۔ ماسٹر عنایت حسین کے بنائے ہوئے یہ گیت بہت مقبول ہوئے۔ ”کیا خبر تھی تیری محفل سے نکلنا ہوگا“ نور جہاں۔
ہار دینا نہ ہمت کہیں ایک سا وقت رہتا نہیں (مالا‘ مسعود رانا) دیگر دوفلموں ”لاڈلا“ اور ”ماں بیٹا“ میں صبیحہ سنتوش کے معاون کردار تھے اور وحید مراد ‘ شبنم ‘ رانی ان کے جوان کرداروں میں جلوہ گر ہوئے۔
اس سال کی 120 فلموں میں اس جوڑی کی ہی تین فلمیں تھیں۔ 1970ءکی 124 فلموں میں یہ جوڑی صرف ایک فلم ”انجمن“ میں نظر آئی اور وہ بھی معاون کرداروں میں وحید مراد کی بطور ایک سپرہٹ فلم تھی لیکن ان کی ہیروئن میں رانی اور دیبا تھیں۔ یہ سنتوش کی پہلی سپرہٹ فلم ”دو آنسو“ کی کاپی تھی۔ اس سال سے صبیحہ نے اولڈ کریکٹرادا کرنے شروع کردیئے اور جلد ہی ملکہ جذبات کا خطاب پایا۔ چند بڑی فلموں میں سے وحید ڈار کی فلم ”سجناں دور دیا“ (1970ئ) میڈم نور جہاں کا سپرہٹ ٹائٹل گیت جسے موسیقار نذیر علی نے کمپوز کیا تھا بہت مقبول ہوا۔ صبیحہ کو اپنی بے مثال کردار نگاری کی وجہ سے 1975ءکے تاشقند کے فلمی میلے میں فلم ”اک گناہ اور سہی“ پر بہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی ملا۔ یاد رہے کہ پاکستان کے پہلے صدارتی ایوارڈ دیئے گئے تو سنتوش کو فلم ”انتظار“ میں بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا تھا۔ معاون اداکارہ کی حیثیت سے صبیحہ نے ”تہذیب“ ”یار دیس پنجاب دے“ ”سر دا سائیں“ ”زبیدہ“ ”ابھی تو میں جوان ہوں“ ”حیدر علی“ ”وعدے کی زنجیر“ ”رشتہ“ ”سنگدل“ ”کامیابی“ ”پیار کرن توں نئیں ڈرنا“ مشہور ہوئیں۔ صبیحہ کی آخری فلم ”مرد جینے نہیں دیتے“ 1997ءمیں بنی جسے انور کمال پاشا کے بیٹے محمد کمال پاشا نے بنایا تھا۔ 1971ءکی کل 84 فلموں میں اس جوڑے کی واحد فلم دلجیت مرزا کی ”گرہستی“ تھی جس کے رومانوی کرداروں میں سنگیتا‘ اور جمال تھے۔ ببیتا اور ندیم کی ”جلتے سورج کے نیچے “ اور زیبا محمد علی کی ”سلام محبت“ میں بھی صبیحہ ‘ سنتوش نے معاون کردار ادا کئے۔ 1972ءکی 78 فلموں میں یہ جوڑی صرف دو فلموںمیں معاون اداکار کے طور پر نظر آئی۔ زیبا‘ محمد علی کی ”محبت“ اور دیبا اور شاہد کی فلم ”ایک رات“ 1973ءمیں سنتوش نے آخری بار فلم ”شرابی“ میں ٹائٹل رول کیا۔ سنتوش نے ٹی وی شو نیلام گھر جسے طارق عزیز پیش کرتے تھے میں موٹرکار کا سب سے بڑا انعام بھی جیتا۔ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں فلموں کو چھوڑ کر سنتوش کمار نے آر جی اے کمپنی میں ڈائریکٹر مارکیٹنگ کی ملازمت اختیار کرلی۔ مسرت نذیر کی طرح سے صبیحہ نے بھی گائیکی کے شعبے میں کچھ کام کیااور ایک البم بھی بنائی لیکن کامیابی نہ ملی سنتوش کمار نے اپنی زندگی کے آخری عشرے میں صرف پانچ فلموں میں معاون اداکار کے طور پر کام کیا۔ ”مس ہپی (1974ئ) ”طلاق“ (1976ئ)‘ ”میرے حضور“ (1977ئ)‘آنگن (1982ئ)‘ اور سنتوش کے انتقال کے بعد ریلیز ہونے والی فلم دیوانے دو (1985ئ) ہے۔ سنتوش نے اپنے فلمی کیریئر میں 92 فلموں میں کام کیا جبکہ صبیحہ کی فلموں کی تعداد 200 کے لگ بھگ ہے۔ بطور فلمساز سنتوش نے دامن (1963ئ) اور تصویر (1966ئ) میں بنائیں۔ صبیحہ خانم نے بطور فلمساز ناجی (1959ئ) ‘ دیور بھابی (1961ئ) اور پاک دامن (1969ئ) میں بنائیں۔ سنتوش کمار کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ جو 19 دسمبر 1925ءمیں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اعلیٰ سرکاری ملازم تھے۔ حیدرآباد دکن سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے سول سروس کا امتحان بھی دیا تھا اور کامیاب ہوئے لیکن فلموں کی کشش نے انہیں سرکاری افسر نہ بننے دیا۔ ان کے چھوٹے بھائی درپن کا نام سید عشرت عباس تھا۔ سنتوش کے والد کی بھی دو بیویاں تھیں۔ سنتوش اور درپن ایک والدہ سے تھے تو دوسری والدہ سے ہدایت کار ایس سلیمان کے علاوہ سید منصور بھی تھے۔ سنتوش کمار نے اداکارہ صبیحہ سے شادی کی تو درپن نے اداکارہ نیئر سلطانہ سے۔ صبیحہ کا اصل نام مختار بیگم تھا جو گجرات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد محمد علی ماہیا ایک کوچوان ہوتے تھے جنہیں ماہیا گانے کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے اقبال بیگم عرف بالو سے 16 اکتوبر 1935ءکو شادی کی۔ محمد علی کی بیوی بالو کے نام سے اداکارہ بنی جس میں ہدایتکار داﺅد چاند کی فلم سسی (1940ئ) ایک یادگار فلم تھی۔ کم عمری میں ہی محمد علی ماہیا نے اپنی بیٹی صبیحہ کو اداکاری اور گلوکاری کی تربیت دی ۔ انہوں نے ریڈیو کے ایک ڈرامے بت شکن میں بھی کام کیا جن میں ریڈیو فنکار سلطان کھوسٹ نے ان کی تربیت کی سنتوش فیملی میں نیئر سلطانہ بھی شامل ہوئیں اور درپن سے شادی کی۔ ان کا تعلق بھارتی صوبے اترپردیش سے تھا۔ ایس سلیمان نے زریں عرف پنا رقاصہ سے شادی کی جو اب ختم ہوچکی ہے اور دونوں لاہور میں الگ الگ رہتے ہیں اس فلمی فیملی کی اگلی نسل میں کسی نے سٹیج‘ فلم‘ یا ٹی وی پر کام نہیں کیا۔ ہم نے صبیحہ کی سرگزشت میں یہ لکھا تھا کہ ایس سلیمان کراچی میں ہیں جبکہ معروف صحافی خاور نعیم ہاشمی نے ہماری توجہ اس طرف دلائی کہ ایس سلیمان لاہور ہی میں ہیں اور وہ اور ان کی سابق بیوی پنا الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں۔میرا ارادہ ہے کہ کسی روز ان سے ملنے جاﺅں وہ انتہائی ذہین اور کامیاب فلموں کے ہدایتکار تھے۔ فلمی صنعت کے زوال کے بعد شاید وہ مشکلات کا شکار ہیں۔