مجھے ضیاء الحق صاحب کے گھر بیسیوں مرتبہ کھانے کا اتفاق ہوا۔ آرمی چیف اور صدر ہونے کے باوجود وہ بالعموم سادہ خوراک استعمال کرتے تھے اور دوستوں کو بھی وہی کھانا پیش کرتے۔ میں نے ایک دفعہ ضرورت سے زیادہ بے کیف کھانا دیکھ کر کہا جناب میرا خیال ہے آپ کے کسی وزیر یا حکومت کے کسی سیکرٹری کے ہاں یہاں سے بہت بہتر کھانا مل سکتا ہے۔ کم از کم صدر کے شایان شان کھانے پینے کی میز پر انواع و اقسام کی ہونی چاہئیں۔ قارئین واضح رہے کہ کھانے میں سادہ ابلے ہوئے چاول تھے اور سالن میں پتلی سی دال تھی۔ ضیاء الحق صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا موٹاپا سو بیماریوں کی ایک بیماری ہے میں نہ خود موٹا ہونا چاہتا ہوں نہ اپنے دوستوں اور مہمانوں کی صحت برباد کرنے کی مجھے خواہش ہے۔ ایک بار انہوں نے پنڈی کے صدر ایریا میں بائیسکل بھی چلائی۔ اخبارات نے بڑے مزے سے خبریں اور تصویریں چھاپیں جس میں بالعموم اس عمل پر طنز کیا گیا کہ صدر کا ایک دن سائیکل چلانے سے کیا ہو گا۔ مزہ تو یہ ہے کہ روزانہ سائیکل پر ایوان صدر جایا کریں لیکن یہ تجربہ بھی عوام کو مہنگا پڑے گا کہ آپ کی سکیورٹی کے لئے اتنے لوگ راستے میں موجود ہوں گے کہ راہ گیروں کے لئے چلنا دشوار ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ صدر ضیاء الحق نے سائیکل پر دفاتر آنے اور جانے کا سلسلہ بچت کے طور پر شروع کرنے کا پروگرام بنایا تھا جو صرف ایک ہی دن چل سکا مگر مجھے افسوس ہے کہ کفائت شعاری کے سب سے بڑے مدعی صدر ضیاء الحق نے اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو جرنیلوں کو چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے دیئے جانے والے مشورے کی پاداش میں انہیں سندھڑی کیوں بھجوا دیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے انہی دنوں کہا تھا کہ اب جرنیل بھی چھوٹی گاڑیوں میں سفر کریں گے۔
مجھے یاد آیا کہ ایک روز میں جنگ کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ان دنوں میگزین رپورٹنگ اور فورم کے شعبے میرے پاس تھے کہ ایوان صدر سے فون آیا اور کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد صدر صاحب کی آواز سنائی دی۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے پھر پوچھا کہ کیا مولانا ظفر احمد انصاری کے کتابچے پر فورم ہو گیا ہے۔ میں نے اشتہار دیکھا تھا، یاد رہے کہ ضیاء الحق بہت متفکر تھے کہ جلد سے جلد اسلام کے نظام حکومت پر مولانا کی تصنیف پر بحث شروع ہو اور اخبار کے صفحہ اول پر میں نے اشتہار دیا تھا۔ ’’ظفر بمقابلہ ظفر‘‘ نیچے درج تھا کہ مولانا ظفر احمد انصاری خصوصی مشیر صدر پاکستان کا مباحثہ سابق مرکزی وزیر قانون ایس ایم ظفر کے ساتھ۔ میں نے ضیاء الحق کو بہت مختصر جواب دیا میں نے کہا جناب دونوں حضرات آئے تھے اور دوسرے بہت سے اہل علم حضرات بھی موجود تھے مگر ظفر احمد انصاری صاحب نے اپنے حریف کو ایک ہی جملے میں ناک آؤٹ کر دیا۔ ضیاء الحق صاحب ہنسے اور بولے ہوا کیا۔ میں نے بتایا جناب دونوں حضرات آمنے سامنے سٹیج پر بیٹھے تھے، میں میزبانی کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ میں نے پہلے ایس ایم ظفر کو موقع دیا۔ کتابچہ میں نے انہیں پہلے ہی مطالعے کے لئے بھجوا رکھا تھا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب ’’ڈکٹیٹر کون‘‘ کھولی اور اسے پڑھنا شروع کیا، کئی صفحات سنا کر انہوں نے ظفر احمد انصاری صاحب سے پوچھا اسلامی نظام حکومت کے بارے میں میں نے جو کچھ پڑھا اس پر آپ کی کیا رائے ہے۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے اپنا کتابچہ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا جناب! آج کی نشست اس کتابچے کے حوالے سے تھی جو میں نے آپ حضرات کی خدمت میں بھجوایا تھا۔ میں نے آپ کی کتاب نہیں پڑھی۔ آپ مجھے کتاب بھجوا دیں۔ میں غور سے اسے پڑھوں گا اور جب آپ کہیں گے میں حاضر ہو جاؤں گا اور اپنے تاثرات پیش کروں گا۔ آپ میرے کتابچے پر اظہار خیال فرمائیں۔ ایس ایم ظفر صاحب نے جواب دیا۔ معافی چاہتا ہوں میں اسے پڑھ نہیں سکا۔ انصاری صاحب بولے میں بھی معافی چاہتا ہوں آج کسی دوسرے موضوع پر گفتگو نہیں کر سکتا۔ ماہرین اور عام حاضرین نے تالیاں بجائیں اور تقریب ختم ہو گئیں۔ ضیاء الحق صاحب بھی ہنس پڑے۔ انہوں نے کہا۔ شاید ایس ایم ظفر صاحب کو معلوم نہیں ہو گا کہ مولانا ظفر انصاری نرے مولوی نہیں قائداظم کے دور کے منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں، بھائی وہ دلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ پھر انہوں نے اظہار افسوس کیا کہ ہمارے بڑے اہم لوگ اپنی مصروفیات میں سے ٹھوس مطالعے کے لئے وقت نہیں نکالتے۔
ہم پنڈی کے اطراف میں پہنچ گئے تھے۔ سڑک پر غیر معمولی رش تھا اور صاف محسوس ہوتا تھا کہ لاہور ہی نہیں دوسرے بے شمار شہروں سے گاڑیاں ویگنیں اور بسیں اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد جا رہی ہیں۔ جوں جوں اسلام آباد قریب آتا گیا ٹریفک اور بڑھنے لگی حتیٰ کہ ہم پنڈی سے اسلام آباد جانے والی سڑک پر مڑ گئے۔ اس سڑک پر تو ہجوم کی سی کیفیت تھی۔ ہمارے زیرو پوائنٹ پہنچنے میں ڈیرھ دو گھنٹے صرف ہو گئے۔ ستارہ مارکیٹ میں واقع ایک پرانے دوست کے شور روم پر گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ہم پیدل فیصل مسجد کی طرف چلے کیونکہ کسی بھی گاڑی کا فیصل مسجد تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ مخلوق خدا اس قدر زیادہ تھی کہ پیدل چلنا دو بھر ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی اہلیہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور رفتہ رفتہ ہم فیصل مسجد جانے والی مین روڈ سے نزدیک ہو رہے تھے۔ یاسمین تھوڑی تھوڑی دیر بعد سسکیاں لے کر رونے لگتیں۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ یاسمین تو خاتون تھیں لیکن میرے گردوپیش مجمے میں بہت سے لوگ آنسو بہا رہے تھے۔ اس سڑک پر پہنچے تو لگتا تھا کہ ایک فٹ آگے بڑھنا بھی مشکل ہے عورتیں مرد بڑے بوڑھے میں حیران تھا کہ ہمارے پیپلزپارٹی والے دوست یہ کہتے تھے کہ عوام ضیاء الحق کے سخت خلاف ہیں لیکن یہ بھیڑ اچانک ملک بھر سے کیسے جمع ہو گئی تھی۔ میں نے عمرے اور حج کے بعد اتنا گنجان مجمع کبھی نہیں دیکھا اور جب سے ہوش سنبھالا ہے کسی جنازے میں اتنے لوگ نہیں دیکھے ہم فیصل مسجد سے بہت دور تھے لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ راولپنڈی اور لاہور سے آنے والی سڑک جسے شارع فیصل کہتے ہیں زیرو پوائنٹ تک بھری ہوئی تھی اور آگے جانا کسی طور ممکن نہ تھا۔
میں جنازے کی تفصیلات بیان نہیں کروں گا کیونکہ پاکستان بھر کے عوام نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر اسے بغور دیکھ رکھا ہے۔ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں اس کا علم صرف اللہ پاک کی ذات کو ہے لیکن پیپلزپارٹی کے دوستوں کی نظر میں قاتل اور جمہوریت کے علمبرداروں کی نظر میں ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے جنازے کے برابر پاکستان میں کوئی جنازہ نہیں اٹھا۔ اتنے آنسو کسی جنازے میں نہیں بہائے گئے اتنی دعائیں کسی کیلئے نہیں مانگی گئیں اللہ ہم پر رحم کرے۔ برطانیہ سے امپورٹ ہونے والی جمہوریت ’’ہمارے گوڈوں گٹوں میں بیٹھ چکی ہے‘‘ لطف یہ کہ ہماری جمہوریت عوام کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچانے کا کام تو کرتی ہے۔ عوام کی بہبود کیلئے کسی مثبت کام میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ضیاء الحق کے مخالفین مذاق اڑاتے ہیں کہ اس کی تو نعش بھی نہیں ملی تھی صرف جبڑا ملا تھا اس لیے بعض لوگ فیصل مسجد کے بس سٹاپ کو جبڑا صاحب کہتے ہیں۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میں ضیاء الحق کا چہیتا کبھی نہیں رہا مگر کیا واقعی وہ قابل گردن زدنی ڈکٹیٹر تھا۔ کیا واقعی بھٹو صاحب شہید تھے۔ ان سوالوں کے جواب ہر شخص کے پاس الگ الگ ہیں۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ خوبیوں، خامیوں سمیت ذاتی طور پر ضیاء الحق ایک اچھا انسان تھا۔ دین کے بارے میں جو بھی تصور اس کے ذہن میں تھا وہ اس پر پختہ تھا۔ اپنے انداز اور اپنے طور پر اس نے پاکستان میں اسلامی نظام لانے کی کوشش ضرور کی البتہ اللہ نے مجھے یہ توفیق دی کہ ایک بار میں نے ان کے سامنے یہ کہا تھا کہ آپ یقیناًنظام اسلام اور نظام مصطفی ؐ لانے میں مخلص ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ اس ادارے میں یعنی فوج پر اپنی گرفت اور آئین کے مقابلے میں مارشل لاء جیسے اختیارات چاہتے ہیں۔ ’’یعنی آپ کا سلوگن اسلام جمع جنرل ضیاء الحق ہے‘‘ اس پر وہ بے اختیار ہنس پڑے تھے۔ اب وہ بھی اپنے خدا کے حضور میں پیش ہیں اور بھٹو صاحب بھی فیصلہ اللہ پاک نے کرنا ہے اور بے شک وہ صحیح فیصلے کرنے والا اور انصاف کرنے والا ہے۔