یہ موٹر وے بننے سے بہت پہلے کی بات ہے۔ لاہور سے پنڈی تک جانے کیلئے جی ٹی روڈ استعمال کرنا پڑتی تھی۔ ایئرپورٹ سے کسی فلائٹ کا پوچھا جو میسر ہو لیکن فلائٹ کی اڑان میں کافی وقت تھا اور ہمیں جنازے میں پہنچنے کی جلدی تھی لہٰذا میں اہلیہ کے ہمراہ عازم راولپنڈی ہوا راستے میں ہمارے درمیان کوئی بات نہ ہوئی لیکن میرا ذہن پیچھے کی طرف لوٹ گیا تھا۔ قدرتی بات ہے کہ جو شخص دنیا سے چلا گیا اس کی خوبیاں ہی یاد آتی ہیں برائیاں نہیں۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ضیاء الحق میں بہت سی خامیاں ہونگی کیونکہ وہ انسان تھے فرشتے نہیں لیکن یہ وقت ان کی برائیاں شمار کرنے کا نہیں تھا میں ڈرائیونگ کر رہا تھا لیکن میرا ذہن تیزی سے گزشتہ بہت سے برسوں میں پیش آنے والے واقعات کی طرف مڑ گیا۔ ان کے نہایت قریبی ساتھی اور پرسنل سٹاف کے ممبرز نے مجھے یہ واقعہ سنایا اور میں نے بعدازاں صدیق سالک صاحب سے اس کی تصدیق کی۔ حقائق سن کر میں ایک لمحے کیلئے دم بخود ہو گیا تھا۔ ضیاء الحق کی مخالف ایک خاتون اپنے گھر میں نظربند تھی۔ خفیہ ایجنسیوں نے گھر کے باہر تو کیا اندر بھی نظر نہ آنے والے حساس کیمرے لگا رکھے تھے۔ ایک ادارے کے سربراہ نے پہلے رپورٹ دی اور پھر تین ویڈیو کیسٹس ضیاء الحق کو بھجوائے۔ جنرل صاحب نے انہیں دیکھنے سے بھی انکار کر دیا اور انتہائی سختی سے پوچھا کہ کیا کچھ اور فلمیں بھی ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ ساری آپ کو بھجوا دی گئی ہیں اور یہ مختلف مواقع کی ہیں۔ ہر کیسٹ کم وبیش اڑھائی سے تین گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل تھی۔ ضیاء الحق اس قدر غصے میں تھے کہ انہوں نے اپنے ماتحت افسر کی سرزنش کی اور کہا کہ کیا میں نے آپ کو کوئی حکم دیا تھا پھر انہوں نے تینوں کیسٹیں اپنے سامنے دفتر سے باہر کھلی جگہ پر رکھوائیں اور پٹرول منگوا کر ان پر چھڑکوایا۔ وہ اس وقت تک وہاں کھڑے رہے جب تک کیسٹیں جل نہیں گئیں اور ان کا بیرونی پلاسٹک پگھل نہیں گیا۔ بعدازاں انہوں نے متعلقہ افسر کو جو بہت بڑے عہدے پر تھا بلایا اور دیر تک اپنے کمرے میں بٹھائے رکھا بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے سختی سے حکم جاری کیا تھا کہ آئندہ کسی خاتون کے گھر کے اندر کیمرے نصب نہ کیے جائیں۔ مجھے بتایا گیا کہ جنرل ضیاء نے کہا کہ مخالفت اپنی جگہ پر لیکن بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اگر میری حکومت میں کسی کی پرائیویٹ زندگی کو اچھالا گیا تو میں خدا کے سامنے کیا جواب دونگا۔
راولپنڈی کی طرف سفر جاری تھا اور بار بار مجھے کوئی نہ کوئی بات یاد آ رہی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب انہوں نے مارشل لاء لگایا تو ایسے موقعوں پر کچھ بھی ہو جایا کرتا ہے۔ دو چار لوگ قتل بھی ہو سکتے تھے اور بھاگنے سے روکنے پر فائرنگ بھی ہو سکتی تھی لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ انہوں نے سیاستدانوں کو حفاظتی نظربندی میں لیا اور بھٹو صاحب کو بڑی عزت سے مری پہنچا دیا۔ بعدازاں وہ خود مری گئے اور اس ملاقات کی تصویریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ تاہم جب بقول ضیاء الحق کے انہیں ہر طرف گند ہی گند نظر آیا اور بھٹو صاحب کے خلاف ایک مقدمہ قتل کی فائل بھی مل گئی جس میں بھٹو صاحب کے خلاف ایف آئی آر میں بھی ان کو ملزم نامزد کیا گیا تھا تو انہوں نے یقیناًکارروائی شروع کی لیکن میں زندگی میں کئی بار اس موضوع پر قلم اٹھا چکا ہوں کہ سعودی عرب کی مداخلت اور سفارش کے باعث ضیاء الحق تیار ہو گئے تھے کہ بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد بھی وہ سعودی طیارے پر انہیں ان کے ہاں بھجوا دیں گے البتہ 10 سال تک بھٹو صاحب نہ پاکستان واپس آئیں گے اور نہ سیاست میں حصہ لیں گے یہ بعینہ وہی فارمولہ تھا جو جناب نواز شریف کیلئے جنرل پرویز مشرف کے دور میں سعودی عرب سے تجویز ہوا تھا لیکن جب یہ پیشکش لے کر سرکاری لوگ بھٹو صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے طیش میں آ کر انہیں انتہائی برا بھلا کہا اور اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ ’’دفع ہو جاؤ‘‘ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ یہ واقعہ ضیاء الحق کے معتمد خاص چودھری ظہور الٰہی نے جناب مجید نظامی کے کمرے میں لفظ بہ لفظ سنایا تھا اچانک میرے جی میں آئی کاش بھٹو صاحب یہ آفر مان لیتے اور جیل سے باہر آجاتے۔ دس سال سے پہلے ہی حالات بدل سکتے تھے۔ وہ اس افسوسناک انجام کو نہ پہنچتے لیکن جن دنوں یہ بات عام تھی اور ہر شخص کی زبان پر تھی کہ قبر ایک ہے اور میتیں دو۔ یعنی بھٹو کے مخالفین ضیاء الحق کو مشورہ دیتے تھے کہ تمہارے بوٹوں تلے سانپ آ گیا لہٰذا اسے کچل دو جبکہ دوسری طرف ضیاء الحق کے ناقدین اور بھٹو کے پُرجوش حامی یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ضیاء الحق نے آئین توڑا ہے اور ایک منتخب حکومت کی بساط لپیٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا ہے لہٰذا آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ضیاء الحق کو پھانسی دی جا سکتی ہے یعنی اگر بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دی گئی تو ضیاء الحق کو ملے گی آخر وہی ہوا چونکہ طاقت اور حکومت دونوں ضیاء الحق کے پاس تھے اس لیے بھٹو صاحب کو یہ آزمائش دیکھنا پڑی۔
مجھے یہ بھی یاد آیا کہ فیروزپور روڈ لاہور پر کیمپ جیل کے سامنے کمسن پپو نامی مقتول کے تین قاتلوں کو سرعام پھانسی دی گئی تھی اس واقعہ کی بہت شہرت ہوئی۔ تاہم بعض لوگوں بالخصوص ہیومن رائٹس کے علمبرداروں نے اس پر احتجاج بھی کیا تھا۔ ضیاء الحق صاحب ایک مجلس میں گفتگو کر رہے تھے کہ کسی نے یہ اعتراض اٹھایا۔ ضیاء الحق نے موقع پر موجود لوگوں سے کہا کہ آپ کا خیال کیا ہے کیا یہ زیادتی ہے میں بھی اس گفتگو میں شامل تھا چنانچہ میں نے کہا ہر گز نہیں کیونکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے اور عدالتی عمل سے گزرنے کے بعد سزا ہوئی تھی صرف سرعام پھانسی دینے پر اعتراض ہو رہا ہے لیکن میری رائے ہے کہ لوگوں کو اس واقعے سے عبرت دلانے کیلئے یہ اچھا قدم تھا کیونکہ معصوم بچے کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے مجرموں کو سب کے سامنے کیفرکردار تک پہنچانے پر کسی صاحب اولاد کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ضیاء الحق کو بولنے کا بہت شوق تھا لیکن میری مختصر بات سن کر انہوں نے کہا یہی میرا جواب ہے۔ حسب عادت میں نے سوچا اچھا موقع ہے لہٰذا ضیاء الحق صاحب سے مخاطب ہو کر میں نے ایک اور شکایت داغ دی۔ جناب اصل اعتراض آپ کی طرف سے کوڑوں کی سزا دیئے جانے پر ہے۔ ضیاء الحق نے کہا اسلام کے ابتدائی دور کو دیکھیں تو یہ سزا عام تھی اور خلفائے راشدین کے دور میں مجرموں کو سرعام کوڑے لگائے جاتے تھے۔ میں نے پھر گزارش کی کہ میں مجرموں پر کوڑے برسانے کی بات نہیں کر رہا۔ یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ سڑک پر آ کر ’’جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگانا کون سا اخلاقی جرم ہے جس پر کوڑے لگائے جا رہے ہیں۔ ضیاء الحق صاحب نے جواب میں بڑی تفصیل سے اپنا نقطہ نظر بتایا اور بولے اسلام میں نہ بھٹو ازم کی گنجائش ہے اور نہ جئے بھٹو کی۔ میرے علاوہ دو تین اور شرکاء نے بھی ان کی توجہ اس طرف دلائی کہ مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں پر بھی اخلاقی مجرموں کی طرح جسمانی نہیں سزائیں ہونی چاہئیں۔ ضیاء الحق اپنی بات پر ڈٹ گئے۔ کافی بحث ہوئی۔ میں نے موقع پا کر ایک بار پھر کہا کہ مجھے پیپلزپارٹی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میں کسی شخص کے جئے بھٹو کا نعرہ لگانے کو کوئی جرم نہیں سمجھتا۔ وہ شخص صرف اپنے سیاسی نظریات کے مطابق اپنی پارٹی کے لیڈر کا نام لے رہا ہوتا ہے۔ ضیاء الحق بولے میں سیاسی پارٹیوں کا سرے سے مخالف ہوں میرا بس چلے تو غیرجماعتی نظام ہی برقرار رکھوں۔ میں نے کہا جناب غیرجماعتی نظام آیا مگر نہیں چل سکا تبھی آپ نے سیاسی جماعتوں کو اجازت دی اور جب اجازت نہیں دی تھی تو بھی وہ کالعدم لکھ کر گزارا کرتی تھیں اور ہم لوگ اخبارات میں کالعدم کا لفظ ساتھ شامل کر کے ہر جماعت کا ذکر کرتے تھے۔ ضیاء الحق نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی مجھے کالعدم لفظ کو بھی غیرقانونی قرار دے دینا چاہیے تھا اس پر اکثر شرکاء ہنس پڑے۔
یاد رہے کہ ہمارا جنازے میں شرکت کیلئے سفر کٹتا جا رہا تھا اور جانے والے کے حوالے سے یادوں نے ذہن پر ہلا بول رکھا تھا۔ مصطفی کھر جیل میں تھے کہ ان کی بیگم تہمینہ کھر نے جن سے میرے بہت اچھے مراسم تھے مجھ سے کہا کہ میں نے پہلے ہی بہت سے لوگوں سے گزارش کی ہے کہ کھر صاحب کی رہائی کے متعلق جنرل صاحب سے بات کریں۔ ضیا بھائی اگر آپ اسلام آباد جا کر خود بھی کوشش کریں نہ کوئی چالان نہ مقدمہ۔ مصطفی کھر صاحب جیل میں بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ میں نے وعدہ کر لیا صدر صاحب سے وقت لینے میں مجھے کئی ہفتے لگ گئے کیونکہ وہ ایک غیرملکی دورے پر بھی جا رہے تھے۔
(جاری ہے)
وقت مقررہ پر میں پنڈی پہنچا اور پرانے ایوان صدر میں ضیاء الحق سے ملاقات کی۔ میں نے تہمینہ صاحبہ کے حوالے سے مسئلہ پیش کیا تو ضیا صاحب نے الٹا مجھ سے یہ سوال کیا آپ کو کھر صاحب سے کیا دلچسپی ہے۔ میں نے کہا جی میری کچھ زیادہ دوستی نہیں لیکن ایک مدت سے انہیں جانتا ہوں اب ان کی بیگم لندن سے آ گئی ہیں اور ان کی یہ بات تو دل کو لگتی ہے کہ حکومت ان پر یا تو عدالت میں مقدمہ چلائے یا انہیں رہا کرے۔ ضیاء الحق نے کہا آپ کو اپنے ملک سے تو محبت ہو گی کھر کیا کرتا رہا ہے۔ انڈین سفارتخانے سے لندن میں رقم بٹورنے کے علاوہ خفیہ طور پر دہلی گیا اور پاکستان کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے ان سے مدد مانگی۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ ایسے شخص کی حمایت کر رہے ہیں۔ ضیاء الحق صاحب بڑے غصے میں تھے اور وہ صحیح کہہ رہے تھے کیونکہ بعدازاں کھر صاحب سے طلاق لینے کے بعد تہمینہ نے مشہور کتاب ’’مینڈا سائیں‘‘ (مائی فیوڈل لارڈ) میں کھر صاحب کے بھارتی سفارتخانے سے پیسے وصول کرنے اور بھارت جا کر را کے حکام سے ملنے کی روداد قلمبند کی ہے۔ انہوں نے کہا آپ آج واپس لاہور نہ جانا میں آپ کو اپنے ایک افسر کے پاس بھیجتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ آپ کو کھر کی فائل دکھائے جس میں سارے ثبوت ہیں۔ میں نے کہا جناب! ان کی اہلیہ کا خیال ہے کہ اگر کوئی ثبوت ہیں تو مقدمہ چلایا جائے۔ انہوں نے کہا ابھی اس میں کچھ رکاوٹیں ہیں جو میں آپ کو بتا نہیں سکتا لیکن کھر کی بیگم صاحبہ سے ضرور کہئے گا کہ اگر مقدمہ چلا تو اس کی سزا موت ہو گی کیونکہ اس نے حکومت سے نہیں بلکہ ریاست سے غداری کی ہے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ نرم پڑ گئے اور ملاقات کے آخر میں مجھ سے کہا ضیا صاحب اگر بیگم صاحبہ کو ان سے ملاقات میں کوئی دقت ہو تو میں ابھی آرڈر کر دیتا ہوں کہ وہ جب چاہیں اپنے شوہر سے جیل جا کر مل سکتی ہیں۔ معاف کیجئے گا اس سے زیادہ میں ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، میں نے لاہور واپس آ کر تہمینہ صاحبہ کو بتایا اور مجھے یاد ہے کہ میری ملاقات کا یہ اثر ضرور ہوا کہ ضیاء الحق صاحب نے ان کی بیگم کو ملاقات کے لئے آنے کے راستے میں آنے والی ہر مشکل دور کر دی۔
ضیاء الحق کو میں نے ہمیشہ عام طور پر نرم دل اور دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والا پایا۔ مذہب کے بارے میں ان کے اعتقادات بہت مضبوط تھے اور وہ آخری دنوں تک یہ خواب دیکھتے رہے کہ پاکستان میں اسلامی جمہوریت نافذ ہو جسے وہ مشاورت کا نظام کہتے تھے۔ کئی بار ان سے گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ بالغ رائے دہی کے نظام کے بھی زیادہ قائل نہیں تھے اور اقبال کا یہ شعر
جمہوریت ایک طرز تماشا ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں جاتا
اکثر سناتے تھے۔ وہ صدارتی نظام کو اسلام کے زیادہ قریب سمجھتے تھے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ معذور افراد کا بہت خیال رکھتے تھے شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ان کی ایک اپنی بیٹی زین نیم معذور تھی لیکن ضیاء الحق نے کبھی انہیں گھر میں چھپا کر نہیں رکھا تھا۔ وہ بڑے فخر سے زین کو اپنے ساتھ باہر لے جاتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے دور حکومت میں کبھی میں نے اعجاز الحق یا انوارالحق کو ان کے ساتھ دیکھا ہو لیکن زین مختلف تقریبات میں باپ کے ساتھ ضرور ہوتی تھی۔ خصوصی بچوں میں ان کی دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے ملک بھر کے معذور اور خصوصی بچوں کے لئے بہت کام کیا کراچی کی ایک تقریب میں وہ بیٹی کو ساتھ لائے تو بار بار محافظ کا ہاتھ چھوڑ کر ان کے پاس جانے کی کوشش کرتی اور ان کی گفتگو میں حارج ہوتی تھی لیکن میں نے خاص طور پر محسوس کیا کہ ان کے چہرے پر ناگواری کا کوئی تاثر نہیں تھا، وہ بات ادھوری چھوڑ کر بیٹی کو پیار کرتے اور پھر محافظوں سے کہتے کہ ان سے پوچھو آپ کیا کھائیں گی۔ پھر حاضرین سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا بیٹی اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور میری بیٹی تو تھوڑی تکلیف میں ہے۔ مجھے یقین ہے ان کی جتنی خدمت میں کروں گا اتنا ہی روز محشر کے بعد جنت میں جانے کے لئے آسانی ہو گی، پھر انہوں نے کہا کچھ اس انداز میں بیٹیوں کو خواہ انہیں کوئی بھی تکلیف ہو پڑھانے لکھانے اچھا انسان اچھا پاکستانی بنانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر تو بڑے سے بڑا قصور وار بھی پُل صراط سے باآسانی گزر سکتا ہے۔
برسوں کی یادداشتیں سمیٹنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ذاتی ملاقاتوں کے علاوہ بے شمار پریس کانفرنسوں اور پریس بریفنگ میں مجھے ضیاء الحق سے گفتگو کا موقع ملا۔ ایک مرتبہ ان کے پریس سیکرٹری بریگیڈیئر صدیق سالک نے صدر سے واپس آنے والی ڈاک مجھے دکھائی اور ہنس کر بولے روزانہ اخبار تو ایک طرف رہے پتا نہیں صدر صاحب اتنا وقت کیسے نکالتے ہیں جو پمفلٹ جو کتابچہ جو رسالہ ان کے نام آتا ہے وہ اس کی ورق گردانی ضرور کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے کچھ رسالے مجھے دکھائے جن پر ضیاء الحق نے بعض مضامین پر نشان لگائے تھے اور بعض کے سرورق پر لکھا تھا کہ رسالے والے صاحب کو دعوت دیں اور ملاقات کے لئے بلائیں۔ وہ نئی کتاب کو بھی شوق سے پڑھتے خاص طور پر جس کا موضوع ان کی دلچسپی کا حامل ہوتا۔سالک صاحب کی اپنی کتاب پریشر ککر کے چھپنے سے بھی پہلے ضیاء الحق صاحب اس کے پروف پڑھ چکے تھے۔
مجھے ہمیشہ ضیاء الحق کی ایک بات سے اختلاف رہا وہ یہ کہ ان کا اقتدار میں آنے کا طریقہ غلط تھا اور پیپلزپارٹی کے ورکروں پر کوڑے زنی کرنا ظلم تھا۔ ہمیشہ میں آزادی اظہار کے حق میں رہا ہوں۔ ہر شخص کو پورا اختیار ہے کہ جسے وہ چاہے پسند کرے زبردستی اپنے آپ کو افراد پر یا نظام پر مسلط کرنا غلط ہے۔ آخری پریس بریفنگ کے بعد صرف ایک بار مجھے چند منٹ کے لئے ان سے گفتگو کا موقع ملا انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ آپ نے ظفر احمد انصاری کو اسلام کے سیاسی نظام کے موضوع پر اپنے فورم میں ابھی تک کیوں دعوت نہیں دی۔ میں نے بتایا کہ ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔ انہوں نے جو کتابچہ لکھا ہے اس کی 10 کاپیاں مجھے کل ہی ملی ہے۔ میں وہ کچھ اہم لوگوں کو ارسال کر لوں۔ ایک ہفتے بعد انہیں دعوت دوں گا۔ وہ بولے آپ نے خود کتابچہ پڑھا ہے۔ میں نے کہا جی نہیں لیکن مذاکرے سے پہلے غور سے پڑھوں گا تا کہ سوالات مرتب کر سکوں۔ ضیاء الحق بولے انشاء اللہ آئندہ پاکستان کا سیاسی نظام یہی ہو گا۔ میں نے کہا جناب اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ساڑھے دس سال حکومت میں رہنے کے بعد نئے نظام کا نفاذ بہت مشکل ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ کام پہلے یا دوسرے سال شروع کرنا چاہئے تھا معافی چاہتا ہوں اب شاید اس کا وقت گزر چکا ہے۔ انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور مجھ سے ہاتھ ملایا اور آگے بڑھ گئے۔ ضیاء الحق کبھی نمائش اور دھوم دھڑکے کے قائل نہ تھے اور اپنی بات زبردستی منوانے والے نہیں تھے۔ وہ طبعاً سادہ مزاج تھے۔ فوجی وردی کے علاوہ بھی ان کا لباس سادہ ہوتا تھا۔ قیمتی گھڑیاں پہننے کا انہیں کوئی شوق نہ تھا۔ کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف ہوتی تو بھی صبر سے کام لیتے لیکن کرتے وہی جو ان کے دل میں ہوتا تھا۔ میرا خیال ہے اعجاز الحق کو کم از کم ان پر ایک کتاب ضرور لکھوانی چاہئے تھی جن سے عمر بھر میرا یہ اختلاف رہا کہ آپ کے والد کے جنازے پر ایک دنیا امڈ آئی تھی لیکن آپ انہیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔ میدان میں پہلے ہی سے جنرل صاحب کے سیاسی جانشین نوازشریف موجود تھے۔ اعجاز الحق نے ضیا فاؤنڈیشن بنائی اور میرے گھر آ کر تفصیل سے اس کا پروگرام بتایا۔ میں نے بڑی صاف گوئی سے بتایا کہ یہ ناکام ہو گی۔ وقتی طور پر کچھ لوگ آپ کے ساتھ ضرور آئیں گے لیکن فاؤنڈیشن کسی سیاسی جماعت کا متبادل نہیں ہو سکتی پھر جس نے ضیاء الحق فاؤنڈیشن میں جانا ہے اور پھر اس وزن کو لے کر نوازشریف کی حکومت میں آپ نے اپنے لئے جگہ حاصل کرنی ہے تو وہ براہ راست میاں صاحب کی حمایت میں شامل کیوں نہیں ہو گا۔ برادرم ہارون الرشید کی انتہائی دلچسپ کتاب ’’فاتح‘‘ منظر عام پر آئی تو ہمایوں اختر نے مجھے اس کی چند کاپیاں بھجوائیں۔ انہی دنوں اعجاز پھر ملے تو میں نے وہ کتاب دکھا کر کہا کہ ہارون صاحب سے ہی آپ اپنے والد پر کتاب لکھوائیں، ان کی زبان بہت اچھی ہے اور وہ واقعات کو ترتیب سے بیان کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے مجھے افسوس ہے کہ آج تک ضیاء الحق صاحب پر ’’فاتح‘‘ کی طرح کوئی معیاری کتاب شائع نہیں ہو سکی، یاد رہے کہ ’’فاتح‘‘ ہمایوں اختر، ہارون اختر، غازی اختر کے والد جنرل اختر عبدالرحمن کی زندگی پر لکھی گئی تھی۔
مجھے ضیاء الحق صاحب کے گھر بیسیوں مرتبہ کھانے کا اتفاق ہوا۔ آرمی چیف اور صدر ہونے کے باوجود وہ بالعموم سادہ خوراک استعمال کرتے تھے اور دوستوں کو بھی وہی کھانا پیش کرتے۔ میں نے ایک دفعہ ضرورت سے زیادہ بے کیف کھانا دیکھ کر کہا جناب میرا خیال ہے آپ کے کسی وزیر یا حکومت کے کسی سیکرٹری کے ہاں یہاں سے بہت بہتر کھانا مل سکتا ہے۔ کم از کم صدر کے شایان شان کھانے پینے کی میز پر انواع و اقسام کی ہونی چاہئیں۔ قارئین واضح رہے کہ کھانے میں سادہ ابلے ہوئے چاول تھے اور سالن میں پتلی سی دال تھی۔ ضیاء الحق صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا موٹاپا سو بیماریوں کی ایک بیماری ہے میں نہ خود موٹا ہونا چاہتا ہوں نہ اپنے دوستوں اور مہمانوں کی صحت برباد کرنے کی مجھے خواہش ہے۔ ایک بار انہوں نے پنڈی کے صدر ایریا میں بائیسکل بھی چلائی۔ اخبارات نے بڑے مزے سے خبریں اور تصویریں چھاپیں جس میں بالعموم اس عمل پر طنز کیا گیا کہ صدر کا ایک دن سائیکل چلانے سے کیا ہو گا۔ مزہ تو یہ ہے کہ روزانہ سائیکل پر ایوان صدر جایا کریں لیکن یہ تجربہ بھی عوام کو مہنگا پڑے گا کہ آپ کی سکیورٹی کے لئے اتنے لوگ راستے میں موجود ہوں گے کہ راہ گیروں کے لئے چلنا دشوار ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ صدر ضیاء الحق نے سائیکل پر دفاتر آنے اور جانے کا سلسلہ بچت کے طور پر شروع کرنے کا پروگرام بنایا تھا جو صرف ایک ہی دن چل سکا مگر مجھے افسوس ہے کہ کفائت شعاری کے سب سے بڑے مدعی صدر ضیاء الحق نے اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو جرنیلوں کو چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے دیئے جانے والے مشورے کی پاداش میں انہیں سندھڑی کیوں بھجوا دیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے انہی دنوں کہا تھا کہ اب جرنیل بھی چھوٹی گاڑیوں میں سفر کریں گے۔
مجھے یاد آیا کہ ایک روز میں جنگ کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ان دنوں میگزین رپورٹنگ اور فورم کے شعبے میرے پاس تھے کہ ایوان صدر سے فون آیا اور کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد صدر صاحب کی آواز سنائی دی۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے پھر پوچھا کہ کیا مولانا ظفر احمد انصاری کے کتابچے پر فورم ہو گیا ہے۔ میں نے اشتہار دیکھا تھا، یاد رہے کہ ضیاء الحق بہت متفکر تھے کہ جلد سے جلد اسلام کے نظام حکومت پر مولانا کی تصنیف پر بحث شروع ہو اور اخبار کے صفحہ اول پر میں نے اشتہار دیا تھا۔ ’’ظفر بمقابلہ ظفر‘‘ نیچے درج تھا کہ مولانا ظفر احمد انصاری خصوصی مشیر صدر پاکستان کا مباحثہ سابق مرکزی وزیر قانون ایس ایم ظفر کے ساتھ۔ میں نے ضیاء الحق کو بہت مختصر جواب دیا میں نے کہا جناب دونوں حضرات آئے تھے اور دوسرے بہت سے اہل علم حضرات بھی موجود تھے مگر ظفر احمد انصاری صاحب نے اپنے حریف کو ایک ہی جملے میں ناک آؤٹ کر دیا۔ ضیاء الحق صاحب ہنسے اور بولے ہوا کیا۔ میں نے بتایا جناب دونوں حضرات آمنے سامنے سٹیج پر بیٹھے تھے، میں میزبانی کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ میں نے پہلے ایس ایم ظفر کو موقع دیا۔ کتابچہ میں نے انہیں پہلے ہی مطالعے کے لئے بھجوا رکھا تھا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب ’’ڈکٹیٹر کون‘‘ کھولی اور اسے پڑھنا شروع کیا، کئی صفحات سنا کر انہوں نے ظفر احمد انصاری صاحب سے پوچھا اسلامی نظام حکومت کے بارے میں میں نے جو کچھ پڑھا اس پر آپ کی کیا رائے ہے۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے اپنا کتابچہ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا جناب! آج کی نشست اس کتابچے کے حوالے سے تھی جو میں نے آپ حضرات کی خدمت میں بھجوایا تھا۔ میں نے آپ کی کتاب نہیں پڑھی۔ آپ مجھے کتاب بھجوا دیں۔ میں غور سے اسے پڑھوں گا اور جب آپ کہیں گے میں حاضر ہو جاؤں گا اور اپنے تاثرات پیش کروں گا۔ آپ میرے کتابچے پر اظہار خیال فرمائیں۔ ایس ایم ظفر صاحب نے جواب دیا۔ معافی چاہتا ہوں میں اسے پڑھ نہیں سکا۔ انصاری صاحب بولے میں بھی معافی چاہتا ہوں آج کسی دوسرے موضوع پر گفتگو نہیں کر سکتا۔ ماہرین اور عام حاضرین نے تالیاں بجائیں اور تقریب ختم ہو گئیں۔ ضیاء الحق صاحب بھی ہنس پڑے۔ انہوں نے کہا۔ شاید ایس ایم ظفر صاحب کو معلوم نہیں ہو گا کہ مولانا ظفر انصاری نرے مولوی نہیں قائداظم کے دور کے منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں، بھائی وہ دلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ پھر انہوں نے اظہار افسوس کیا کہ ہمارے بڑے اہم لوگ اپنی مصروفیات میں سے ٹھوس مطالعے کے لئے وقت نہیں نکالتے۔
ہم پنڈی کے اطراف میں پہنچ گئے تھے۔ سڑک پر غیر معمولی رش تھا اور صاف محسوس ہوتا تھا کہ لاہور ہی نہیں دوسرے بے شمار شہروں سے گاڑیاں ویگنیں اور بسیں اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد جا رہی ہیں۔ جوں جوں اسلام آباد قریب آتا گیا ٹریفک اور بڑھنے لگی حتیٰ کہ ہم پنڈی سے اسلام آباد جانے والی سڑک پر مڑ گئے۔ اس سڑک پر تو ہجوم کی سی کیفیت تھی۔ ہمارے زیرو پوائنٹ پہنچنے میں ڈیرھ دو گھنٹے صرف ہو گئے۔ ستارہ مارکیٹ میں واقع ایک پرانے دوست کے شور روم پر گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ہم پیدل فیصل مسجد کی طرف چلے کیونکہ کسی بھی گاڑی کا فیصل مسجد تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ مخلوق خدا اس قدر زیادہ تھی کہ پیدل چلنا دو بھر ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی اہلیہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور رفتہ رفتہ ہم فیصل مسجد جانے والی مین روڈ سے نزدیک ہو رہے تھے۔ یاسمین تھوڑی تھوڑی دیر بعد سسکیاں لے کر رونے لگتیں۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ یاسمین تو خاتون تھیں لیکن میرے گردوپیش مجمے میں بہت سے لوگ آنسو بہا رہے تھے۔ اس سڑک پر پہنچے تو لگتا تھا کہ ایک فٹ آگے بڑھنا بھی مشکل ہے عورتیں مرد بڑے بوڑھے میں حیران تھا کہ ہمارے پیپلزپارٹی والے دوست یہ کہتے تھے کہ عوام ضیاء الحق کے سخت خلاف ہیں لیکن یہ بھیڑ اچانک ملک بھر سے کیسے جمع ہو گئی تھی۔ میں نے عمرے اور حج کے بعد اتنا گنجان مجمع کبھی نہیں دیکھا اور جب سے ہوش سنبھالا ہے کسی جنازے میں اتنے لوگ نہیں دیکھے ہم فیصل مسجد سے بہت دور تھے لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ راولپنڈی اور لاہور سے آنے والی سڑک جسے شارع فیصل کہتے ہیں زیرو پوائنٹ تک بھری ہوئی تھی اور آگے جانا کسی طور ممکن نہ تھا۔
میں جنازے کی تفصیلات بیان نہیں کروں گا کیونکہ پاکستان بھر کے عوام نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر اسے بغور دیکھ رکھا ہے۔ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں اس کا علم صرف اللہ پاک کی ذات کو ہے لیکن پیپلزپارٹی کے دوستوں کی نظر میں قاتل اور جمہوریت کے علمبرداروں کی نظر میں ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے جنازے کے برابر پاکستان میں کوئی جنازہ نہیں اٹھا۔ اتنے آنسو کسی جنازے میں نہیں بہائے گئے اتنی دعائیں کسی کیلئے نہیں مانگی گئیں اللہ ہم پر رحم کرے۔ برطانیہ سے امپورٹ ہونے والی جمہوریت ’’ہمارے گوڈوں گٹوں میں بیٹھ چکی ہے‘‘ لطف یہ کہ ہماری جمہوریت عوام کے ووٹوں سے اقتدار تک پہنچانے کا کام تو کرتی ہے۔ عوام کی بہبود کیلئے کسی مثبت کام میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ضیاء الحق کے مخالفین مذاق اڑاتے ہیں کہ اس کی تو نعش بھی نہیں ملی تھی صرف جبڑا ملا تھا اس لیے بعض لوگ فیصل مسجد کے بس سٹاپ کو جبڑا صاحب کہتے ہیں۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میں ضیاء الحق کا چہیتا کبھی نہیں رہا مگر کیا واقعی وہ قابل گردن زدنی ڈکٹیٹر تھا۔ کیا واقعی بھٹو صاحب شہید تھے۔ ان سوالوں کے جواب ہر شخص کے پاس الگ الگ ہیں۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ خوبیوں، خامیوں سمیت ذاتی طور پر ضیاء الحق ایک اچھا انسان تھا۔ دین کے بارے میں جو بھی تصور اس کے ذہن میں تھا وہ اس پر پختہ تھا۔ اپنے انداز اور اپنے طور پر اس نے پاکستان میں اسلامی نظام لانے کی کوشش ضرور کی البتہ اللہ نے مجھے یہ توفیق دی کہ ایک بار میں نے ان کے سامنے یہ کہا تھا کہ آپ یقیناًنظام اسلام اور نظام مصطفی ؐ لانے میں مخلص ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ اس ادارے میں یعنی فوج پر اپنی گرفت اور آئین کے مقابلے میں مارشل لاء جیسے اختیارات چاہتے ہیں۔ ’’یعنی آپ کا سلوگن اسلام جمع جنرل ضیاء الحق ہے‘‘ اس پر وہ بے اختیار ہنس پڑے تھے۔ اب وہ بھی اپنے خدا کے حضور میں پیش ہیں اور بھٹو صاحب بھی فیصلہ اللہ پاک نے کرنا ہے اور بے شک وہ صحیح فیصلے کرنے والا اور انصاف کرنے والا ہے۔