ضیا شاھد کے انکشافات

ضیاالحق، مرد مومن ، مرد حق از ضیا شاہد قسط 6

ایڈیٹروں کے علاوہ بیورو کریسی کے ساتھ ساتھ سندھ سے آنے والے چند بلدیاتی رہنما بھی موجود تھے تین چار باریش اور معمر سندھی پگڑیاں باندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ضیاء الحق کو دیکھتے ہی بلند آواز میں رونا شروع کر دیا اور ان میں سے ایک نے کہا اللہ کرے ہماری عمر بھی آپ کو لگ جائے۔ آپ نے پاکستان کی خدمت کے لئے جو کام کیا ہے ہماری جانیں بھی آپ پر قربان ہیں۔ ضیاء الحق صاحب ہمیں چھوڑ کر ان کی طرف بڑھے۔ انہوں نے روتے ہوئے بوڑھے افراد کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بار بار انہیں تسلی دی اور پھر بڑے باوقار انداز میں بولے بزرگو! بھائیو! میں الحمدللہ مسلمان ہوں اور میرا ایمان ہے کہ جس دن میں پیدا ہوا تھا اس سے بھی پہلے خالق حقیقی کے پاس یہ امر طے شدہ تھا کہ محمد ضیاء الحق نامی بچہ کتنے برس جئے گا اور کب اسے واپس بلایا جائے گا۔ آپ اطمینان رکھیں مجھے آپ کی خدمت کا جو موقع ملا ہے اگر اللہ کو منظور ہے کہ میں اسے جاری رکھوں تو ایک چھوڑ کر ہزار راکٹ چلائے جائیں تو بھی مجھے کچھ نہیں ہو گا اور اگر اللہ کو یہ منظور ہے کہ میرا وقت پورا ہو گیا تو میں اس لاؤنج میں آپ سے باتیں کرتے کرتے بے ہوش کر زمین پر گروں گا اور اللہ کے حضور پہنچ جاؤں گا۔ میں نے ان کی آواز سنی لہجہ دیکھا۔ ان کے اعتماد اور یقین کو دیکھتے ہوئے میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ضیاء الحق میں ایک لاکھ خامیاں ہوں لیکن خدا کی ذات پر ان کا یقین مستحکم تھا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ان کی پسندیدہ نعت کے الفاظ یہ تھے۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا
کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
چند سال بعد میں ’’جنگ‘‘ ہی سے منسلک تھا کہ محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے ان کے دور میں بینظیر بھٹو نے کانفرنس میں شمولیت کے لئے جونیجو صاحب سے ملاقات کی تو وزیراعظم جونیجو اور بینظیر بھٹو نے وزیراعظم ہاؤس کے مختلف حصوں میں گھوم کرپرانے وقتوں کو یاد کیا، یہ خبریں اور تصویریں چھپیں تو اکثر دوستوں نے مجھے فون کیا کہ ضیاء الحق جونیجو صاحب کی اس مہمان نوازی کو پسند نہیں کریں گے پھر جونیجو صاحب کے وزیرخارجہ زین نورانی نے افغانستان کے بارے میں ضیاء الحق کی پالیسی سے انحراف کیا اور کھلم کھلا مخالف رائے دی۔ ایک بار پھر مجھے اسلام آباد کے بقراطوں نے فون کئے اور کہا کہ جہاد افغانستان ضیاء الحق کے خیال میں ان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر ہے لہٰذا ضیاء الحق زین نورانی کا وجود برداشت نہیں کریں گے۔ کچھ ماہ بعد ہم چند اخبار والوں کو چین جانے کا دعوت نامہ ملا۔ ہم اس سفر کے لئے تیار تھے کہ اچانک خبر آئی کہ صدر نے جونیجو صاحب کی وزارت عظمیٰ ختم کر دی ہے اور کابینہ بھی ختم کر دی ہے۔ چند روز بعد ہمیں صدر ضیاء الحق کی طرف سے ان کی زندگی کی طویل ترین پریس بریفنگ کے لئے بلایا گیا۔ میں روزنامہ جنگ کی طرف سے بڑے میر صاحب کے ساتھ راولپنڈی پہنچا۔ چوکور میز پر 30/40 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، ضیاء الحق صاحب آئے اور ابتدا ہی میں انہوں نے کہا کہ میں اپنی بات بھی کروں گا لیکن پہلے آپ کی سنوں گا، آپ میں سے ہر شخص صورتحال پر اپنی رائے دے۔ میں نے جونیجو حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے لہٰذا آپ بتائیں کہ آگے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ صبح دس یا گیارہ بجے بریفنگ شروع ہوئی۔ ظہر کی نماز کا وقت آیا تو نماز کے لئے وقفہ ہوا۔ میں واش روم جانے کے لئے اس کمرے میں گیا تھا۔ یہاں وضو کرنے کے لئے چار یا پانچ ٹوٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور وضو کے کمرے کی طرف جانے لگے۔ چند منٹ بعد ضیاء الحق دوبارہ میز کی طرف آئے۔ پوری میز خالی پڑی تھی صرف دو لوگ موجود تھے۔ ایک طرف میں تھا اور دوسری طرف ایک انگریزی اخبار سے منسلک ملیحہ لودھی۔ جو آج کل اقوام متحدہ میں پاکستان کی خصوصی سفیر ہیں۔ پہلے ضیاء الحق خود چل کر ملیحہ لودھی کے پاس گئے اور بڑے احترام سے ان سے کہا کہ محترمہ اگر آپ کو نماز ادا کرنی ہو تو نیچے گاڑی حاضر ہے وہ آپ کو قریب ہی میری رہائش گاہ پر لے جائے گی۔ میں نے بیگم کو پیغام بھیج دیا ہے وہ آپ کا خیر مقدم کریں گی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد آپ واپس تشریف لے آئیے گا۔ ضیاء ا لحق صاحب کی طویل بات سن کر ملیحہ لودھی نے انتہائی مختصر الفاظ میں کہا جنرل ! یو نو میں نماز نہیں پڑھتی۔ ضیاء الحق مسکرائے اور پھر پوری میز کا چکر کاٹ کر میرے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ضیا صاحب! آپ کو کیا ہوا۔ کیا طبیعت ناساز ہے۔ میں نے کہا نہیں جناب میرا نماز پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ میں نے صبح کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی حالانکہ میں روزانہ صبح کی نماز ضرور پڑھتا ہوں۔ وہ کہنے لگے آئیں پھر تشریف لائیں، میں نے معذرت کی اور کہا کہ نماز اللہ کے لئے پڑھنی چاہیے ملک کے حکمران کی خوشنودی کے لئے بغیر وضو نماز میں امام کے پیچھے کھڑے ہونا اچھی بات نہیں، ضیاء الحق صاحب پھر ہنسے اور بولے آپ کو کیسے پتا کہ لوگ بغیر وضو کے نماز پڑھیں گے میں نے کہا 40/50 لوگ موجود ہیں اور اندر ٹوٹیاں شاید چار ہیں۔ یہ 50 لوگ وضو نہیں کر سکتے ا ور صبح سے ہم یہاں بیٹھے ہیں لہٰذا یہ دعویٰ بھی غلط ہو گا کہ سب وضو میں ہیں۔ ضیاء الحق بولے آپ کبھی نہیں بدل سکتے جیسے آپ کی مرضی۔ یہ کہہ کر وہ کمرہ نماز میں چلے گئے۔
اس روز ظہر کی نماز کے بعد کھانا ہوا اور پھر گفتگو شروع ہو گئی۔ عصر کی نماز سے پہلے بمشکل ہم فارغ ہوئے۔ ہر شخص نے طویل گفتگو کی۔ اختتام پر ضیاء الحق صاحب نے اشارۃً بتایا کہ وہ مغربی جمہوریت کی جگہ اسلام کے نظام مشاورت پر مبنی سسٹم لا رہے ہیں اور اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ آپ لوگ بھی اپنی تجاویز بھیجیں۔ جب ہم اٹھنے لگے تو ضیاء الحق صاحب اپنے مخصوص انداز میں میر خلیل الرحمن صاحب کے ساتھ باہر آئے اور سامنے کھڑی کار تک انہیں پہنچانے پر اصرار کیا۔ میں بھی میر صاحب کے ہمراہ تھا۔ میر صاحب بار بار کہتے رہے کہ صدر صاحب آپ کے اتنے مہمان ہیں آپ انہیں اٹینڈ کریں لیکن ضیاء الحق صاحب اپنی بات پر مُصر رہے۔ جب میر خلیل الرحمن کار کی اگلی سیٹ پر بائیں جانب بیٹھ گئے تو بھی ضیاء الحق صاحب رخصت ہونے سے پہلے کار کے دروازے کا ہینڈل پکڑ کر ان سے باتیں کرنے لگے۔ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا لہٰذا اخلاقاً باہر نکلنا چاہا تو ضیاء الحق نے دوسرا ہاتھ میرے دروازے کے ہینڈل پر رکھ دیا اور اشارہ کیا کہ بیٹھے رہیں۔ ضیاء الحق صاحب اصرار کر رہے تھے کہ میر صاحب افغانستان میں جو جہاد ہو رہا ہے وہ آخری مرحلے میں ہے۔ اس جہاد سے فارغ ہو کر ساری توجہ کشمیر پر مرکوز ہو گی اور انشاء اللہ ہم مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروا لیں گے۔ آپ کے کچھ مضمون نگار جہاد کا مذاق اڑاتے ہیں آپ انہیں منع کریں اور انتظار کریں نتیجہ آپ کے سامنے آ جائے گا۔ میر صاحب نے اخلاقاً وعدہ کیا پھر اچانک ضیاء الحق صاحب میری طرف مڑے۔ کہنے لگے میں آپ کو برسوں سے جانتا ہوں آج کل جنگ کے کلر صفحات پر آپ کے ہر موضوع پر کئے جانے والے فورمز چھپ رہے ہیں۔ میں نے ان کی بات سن کر ایک بار پھر باہر آنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا آپ بیٹھے رہیں صرف میری بات غور سے سن لیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ رسولؐ پاک کی زندگی کے ہرپہلو پر فورم کروائیں جیسے رسولؐ پاک سربراہ ریاست، رسول پاکؐ بحیثیت منصف اعلیٰ ،رسول پاکؐ بحیثیت کمانڈر انچیف وغیرہ۔ اس کے علاوہ اندرون ملک کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا سے بھی سکالرز کو بلوائیں اخراجات کے لئے ہم بھی مالی تعاون کریں گے اور بعد میں ان ساری باتو ں کو اخبار میں چھاپیں تا کہ لاکھوں افراد تک پہنچ جائے پھر ان تقاریر، مقالہ جات کو کتابی شکل میں شائع کریں۔ ہمارا پورا تعاون آپ کو ملے گا، ایک بار پھر انہوں نے مڑ کر کہا میر صاحب! ضیا شاہد صاحب سے کہیں یہ کام فوراً شروع کریں، میر صاحب نے اس پر بھی اثبات میں جواب دیا تو ضیاء الحق نے ان کے اور میرے دروازے کا ہینڈل چھوڑ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لئے۔ میر صاحب کا خیال تھا کہ جنرل صاحب واپس مڑیں گے تو ہم ڈرائیور کو چلنے کے لئے کہیں گے لیکن جنرل صاحب کھڑے رہے اور ہمیں اشارہ کیا کہ آپ چلیں۔ راستے میں میر صاحب بولے میں نے بڑے حکمران دیکھے ہیں آپ کو ضیاء الحق صاحب پسند ہوں یا نا پسند ان سے بڑا متواضع، مہمان نواز اور کسر نفسی سے کام لینے والا حکمران میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔
اس بریفنگ کے دو تین ماہ بعد ایک تقریب میں صرف چند منٹ کے لئے ان سے سلام دعا ہوئی۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان کو آج تک اپنی بات یاد تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا سیرت رسولؐ پاک پر فورم شروع کیوں نہیں کئے۔ میں نے کہا جس پیمانے پر آپ چاہتے ہیں اس پیمانے پر کام کرنے کے لئے بڑی تیاری چاہئے۔ میں ابتدائی کام انجام دے چکا ہوں جلد ہی انشاء اللہ پھر یہ کام شروع کروں گا۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ اسلام آباد میں کیجئے گا تا کہ پوری دنیا کے سامنے یہ کام آ سکے۔
میری ان سے آخری ملاقات اسلام آباد ہی میں ہوئی، ایک پریس کانفرنس کے اختتام پر وہ خود چل کر ہم چند ایڈیٹروں کے پاس آئے۔ انہوں نے ہم سے پوچھا اسلام کے نظام حکومت کے لئے ہم جو ڈھانچہ بنا رہے ہیں۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے اس پر بڑا کام کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ حضرات اپنے اپنے اخبارات کے لئے انصاری صاحب کا تفصیلی انٹرویو کریں۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا آپ تو انہیں فورم میں بلائیں اور ان کے خطاب کے بعد حاضرین سے کہیں کہ ان سے سوالات کریں۔
کچھ عرصے بعد میں ’’جنگ‘‘ کے دفتر میں دم بخود بیٹھا تھا کہ صدر ضیاء الحق کے طیارہ پھٹنے کی خبر آ چکی تھی اور خوشنود علی خان چیف رپورٹر بڑی تیزی میں تھے اور بہاولپور اور ملتان کے نمائندوں سے بات کرنے کے بعد خود بھی اپنا فوٹو گرافر اور رپورٹر لے کر بہاولپور کے قریب بستی لال کمال پہنچنا چاہتے تھے جس کی فضا میں طیارہ تباہ ہوا تھا۔ گھر پہنچا تو میری بیوی جس نے کبھی زندگی میں سیاست میں دلچسپی لی نہ کسی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ سرکاری ملازمت سے گھر جانے اور اگلی صبح دفتر جانے کے علاوہ ان کا کہیں آنا جانا کم ہی ہوتا تھا۔ وہ اپنا سفری بیگ تیار کر رہی تھیں۔ انہوں نے بڑی آہستگی سے کہا ضیا صاحب! مجھے ضیاء الحق صاحب کے جنازے میں جانا ہے۔ (جاری ہے)