پہلی ملاقات سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ صاف گو اور کھلے ذہن کے مالک ہیں۔ انہیں مکمل تسلی اور اعتماد تھا کہ انہوں نے بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ کر کے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے کئی بار یہ جملہ دہرایا کہ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو حکومت میں آ کر دیکھا۔ سیاستدانوں نے اتنا گند مچایا ہوا تھا جس جگہ ہاتھ مارتا ہوں میرا ہاتھ آلودہ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ اسی طرح چلتے رہتے تو ملک کی بربادی یقینی تھی۔ ان کی گفتگو کے مخاطب اول تو ہم تھے لیکن دراصل وہ اپنے تئیں ملک بھر میں پھیلے ہوئے اینٹی بھٹو عناصر سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا خدا کا شکر ہے کہ ملک بچ گیا ہے۔ الیکشن کے بارے میں ان کا مؤقف تھا کہ گرد ذرا بیٹھ جائے تو ضرور کرواؤں گا مگر سابق حکمران کے جو جو کارنامے میرے سامنے آ رہے ہیں ان سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔لہٰذا پہلے مجھے گند صاف کرنا ہوگا۔ انہوں نے قومی اتحاد کی تعریف کی مگر یہ کہا کہ ان میں سے بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ وہ نظام اسلام یا نظام مصطفےٰؐ لائیں گے سیاسی نعرہ تھا اور اب وہ رفتہ رفتہ پیچھے ہٹ رہے ہیں مگر میں عوام کا یہ مطالبہ پورا کروں گا۔اتفاق سے مجلس میں کوئی بھی صحافی بھٹو صاحب کا جیالا نہ تھا کچھ اینٹی بھٹو تھے اور کچھ نیوٹرل۔ ضیاء الحق صاحب سابقہ حکومت کی لوٹ مار کے قصے سناتے رہے۔
انہوں نے کہا میں آپ لوگوں کے رسائل خصوصاً سیاسی جریدوں کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ سے واقف نہیں ہوں بالخصوص پیپلز پارٹی کے غیر جمہوری رویوں کے خلاف جنگ لڑنے والے صحافیوں کے لئے میرے دل میں بہت احترام ہے اور میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔
ہم آرمی ہاؤس سے نکلے تو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ ملک میں اینٹی بھٹوز کی کمان کریں گے اور پرو بھٹوز کے لئے مشکل اور ابتلا کے دن شروع ہونے والے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے گپ شپ میں اپنا خیال ظاہر کیا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ الیکشن کروائیں گے البتہ جلد ہی وہ قومی اتحاد کے لیڈروں کو حکومت میں ضرور شامل کر لیں گے۔ باقی دوستوں کا بھی خیال اسی قسم کا تھا کہ جنرل ضیاء نرے مولوی نہیں بہت ذہین انسان ہیں اور قوم کی سیاسی نبض پر ان کے ہاتھ ہیں۔
وقت گزرتا گیا چند ہفتے بعد مجھے ایوان صدر سے ایک پیغام ملا کہ جنرل مجیب الرحمن سیکرٹری اطلاعات جو فوج کے حاضر سروس جرنیل بھی تھے لاہور آ رہے ہیں۔ وہ فین روڈ پر پاک جمہوریت کے دفتر میں فلاں تاریخ کو صبح 11بجے کچھ دوستوں سے ملیں گے آپ کا نام ایوان صدر سے تجویز کیا گیا ہے۔ آپ ضرور ان سے ملاقات کریں، جب میں مقررہ تاریخ اور وقت پر پہنچا تو جنرل مجیب الرحمن سے ملاقات ہوئی، مصطفےٰ صادق صاحب پہلے سے موجود تھے۔ جنرل مجیب باری باری سب سے تنہا مل رہے تھے تاہم ہر ملاقات میں محترم مصطفےٰ صادق کی موجودگی ظاہر کرتی تھی کہ حسب توقع وہ اس حکومت کے بھی سرکاری مشیر ہیں۔ میری باری آئی تو جنرل مجیب الرحمن نے کچھ کاغذات پلٹتے ہوئے کہا ضیاصاحب! پاکستان میں بھٹو دور میں سے سب اخبارات بند ہوئے اور ایڈیٹروں کو جیل جانا پڑا لیکن ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ آپ واحد ایڈیٹر ہیں جو جیل جانے سے پہلے 14 دن لاہور کے شاہی قلعے میں بھی رہے۔ ہم نے ٹیلی ویژن پر ظلم کی داستان کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے آپ چونکہ شاہی قلعے میں جسمانی تعذیب جھیل چکے ہیں لہٰذا ٹی وی اسٹیشن جا کر پروگرام ریکارڈ کروائیں۔ محمد صلاح الدین اور الطاف حسن قریشی صاحب سے پروگرام ریکارڈ ہو چکے ہیں۔
میں یہاں وضاحت کرتا ہوں کہ میں نے بھٹو حکومت کے خلاف بڑی طویل جنگ لڑی ان کے غیر جمہوری رویوں اور صحافتی پابندیوں کا مسلسل مقابلہ کیا لیکن میں ضیاء الحق کے دور میں بھی اپنی ہر بریفنگ ہر ملاقات اور ہر انٹرایکشن میں حکومت پر تنقید کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اینٹی بھٹوز کا سرکردہ صحافی ہونے کے باوجود میں کبھی ضیاء الحق کا پسندیدہ اخبار نویس نہیں رہا حتیٰ کہ میں اپنا ہفت روزہ یا اخبار بھی شروع نہ کرسکا اور دس گیارہ سال تک مسلسل نوائے وقت یا جنگ میں ملازمت کر کے یہ وقت گزارا۔ میں جس واقعے کا ذکر کر رہا ہوں اس سے آپ میری سوچ کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ میں حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتا، اس سے سہولتیں حاصل کرتا تو دوبارہ پریس کا مالک اور ہفت روزہ اخبار کا ایڈیٹر بن سکتا تھا لیکن میں نے اپنا آپ کبھی کسی حکومت کے ہاتھ فروخت نہیں کیا میرے بعض ساتھی اعلیٰ مدارج تک بھی پہنچے بعض امیر کبیر بنے تو بعض نے حکومتی عہدے حاصل کئے مگر میرے جیسا شخص جو پہلی ملاقات ہی میں وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق سے بھی زیادہ پاور فل سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن سے بھڑ گیا وہ حکومتی خوشنودی کیسے حاصل کر سکتا تھا۔ بڑے اطیمنان سے میں نے جنرل مجیب کی فرمائش کا جواب نفی میں دیا اور کہا جناب! ہم بھٹو دور کی خرابیوں کے خلاف لڑ رہے تھے اگر وہی خرابی ضیا دور میں بھی پائی جاتی ہے تو میں بے ضمیر ہو کر آپ کی حمایت کیسے کر سکتا ہوں کیونکہ بھٹو حکومت اپنے مخالفین کو شاہی قلعے بھیج کر ان کی مارپیٹ سے ’’تواضع‘‘ کرتی تھی تو آپ نے آج بھی میری معلومات کے مطابق خاور نعیم ہاشمی سمیت کتنے دوسرے لوگوں کو قید کر کے شاہی قلعے میں رکھا ہوا ہے جو اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا بھٹو شاہی میں مجھے شاہی قلعے میں بند کرنا۔ میں ضرور گزشتہ حکومت کے مظالم ٹیلی ویژن پر بیان کرتا اگر میں یہ کہنے کے قابل ہوتا کہ اب وہ ظلم کا ادارہ بند کیا چکا ہے۔ میری گزارش ہے کہ اب جبکہ تفتیش کے سائنسی طریقے دنیا بھر میں سامنے آ چکے ہیں یہ اٹھارویں صدی کے عقوبت خانے بند کریں، جنرل مجیب الرحمن نے مجھ سے بحث شروع کی۔ میں ان کی ہربات کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا۔ میں نے ان کے زمانے میں شاید آج شاہی قلعے میں موجود پیپلز پارٹی کے جیالوں نے احتجاج نہ کیا ہو لیکن اگر انہوں نے غلطی کی ہے تو میں اس غلطی کا اعادہ کیوں کروں۔ ہماری میٹنگ بہت تلخی کے ماحول میں ختم ہوئی اور اگرچہ کئی بار مجھے مصطفےٰ صادق نے سمجھانے کی کوشش کی مگر میں اپنی بات پر ڈٹا رہا نتیجہ ظاہر ہے کہ جنرل مجیب سے بے شمار اور ضیاء الحق سے سینکڑوں ملاقاتیں ہوئیں مگر میں ان کا چہیتا کبھی نہ بن سکا یوں مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ضیاء الحق کے بعد جنرل مجیب الرحمن بھی میری بہت عزت کرتے تھے۔ ہر بات سن لیتے تھے اور کبھی جواب دینا پڑے تو ہمیشہ یہ کہتے ضیا صاحب! یہ آپ کا نقطہ نظر ہے اب ہمارا نقطہ نظر بھی جانیں۔
(جاری ہے)