سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق یقینی طور پر ایک متنازعہ شخصیت ہیں وہ لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا ملنے کے باوجود انہیں آج تک شہید کہتے ہیں، جنرل ضیاء الحق سے شدید نفرت کرتے ہیں انہیں ضیاء الحق صاحب کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی۔ ضیاء الحق کا نام سن کر ان کا خون کھولنے لگتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر لاہور کے اردو بازار میں ایک غریب جیالے نے خود پر مٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگائی اوکاڑہ میں تصور نامی نوجوان بھی خود پر تیل پھینک کر جل مرا۔ بھٹو صاحب کے یہ جیالے ان پر قربان ہو گئے لیکن بڑے لیڈر، عہدیداران، سنیٹرز، ایم این ایز اور ایم پی ایز گھروں سے نہیں نکلے۔ البتہ وہ آج تک بھٹو صاحب کے نام پر سیاست کرتے ہیں اور ہر سال چار اپریل کو ان کی برسی کے موقع پر نوڈیرو ضلع لاڑکانہ ضرور جاتے ہیں، دوسری طرف جن لوگوں نے بھٹو صاحب کی حکومت کے تحت الیکشن 1977ء میں دھاندلی کے سبب گلیوں، سڑکوں میں اینٹی بھٹو مظاہرے کئے تھے ان کی اکثریت نو پارٹیوں میں سے کسی نہ کسی پارٹی کے ہمدرد ہونے کے باوجود ضیاء الحق کو اپنا لیڈر مانتے ہیں جنہوں نے بھٹو صاحب کو حکومت سے اتارا تھا اور ان کے خلاف دوسری مختلف کارروائیوں کے علاوہ احمد رضا خان قصوری ایم این اے کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں بھٹو صاحب پر مقدمہ چلایا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق حسین نے انہیں پھانسی کی سزا دی اور سپریم کورٹ میں جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں ان کی سزا تین ججوں کے مقابلے میں چار ججوں کی رائے سے بحال رکھی جس کے خلاف بھٹو صاحب کی پہلی بیوی امیر بیگم نے صدر مملکت کے پاس رحم کی اپیل کی جسے ضیاء الحق نے مسترد کر دیا اور بھٹو صاحب کو جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اس سے بہت پہلے تین ماہ بعد الیکشن کروانے کے دعوے کے خلاف ضیاء الحق نے قومی اتحاد کی اکثر جماعتوں سے تین وزیر فی جماعت اپنی حکومت میں شامل کئے۔ جاوید ہاشمی صاحب براہِ راست نامزد ہوئے۔ اس طرح قومی اتحاد کا نعرہ کہ ہم نظام مصطفےٰؐ لائیں گے ضیاء الحق نے چھین لیا۔ بھٹو صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی پورا ملک دو مکاتب فکر میں تقسیم ہو گیا۔ پرو بھٹوز جس میں پیپلز پارٹی اور دوسرے بہت سے عام لوگ شامل تھے دوسرا اینٹی بھٹو جن کی نمائندگی قومی اتحاد کی جماعتوں سے چھین کر ضیاء الحق اس کلاس کے لیڈر بن گئے اور انہوں نے کم و بیش 11سال ڈٹ کر حکومت کی۔
قارئین واضح رہے کہ اگر 17اگست 1988ء کو بہاولپور کے علاقے بستی لال کمال میں جنرل ضیاء کا طیارہ کریش نہ ہوتا تو شاید وہ مزید کئی برسوں تک حکومت کی جان نہ چھوڑتے، میں ضیاء الحق کی سوانح عمری نہیں لکھنا چاہتا نہ دو چار کالموں میں یہ کام مکمل ہو سکتا ہے۔ میں نے موجودہ سلسلہ ہائے مضامین کی بنیاد کسی نہ کسی شخصیت سے اپنے انٹرایکشن پر رکھی ہے یعنی ضیاء الحق جیسا کہ میں نے دیکھا جو مجھے لگا یا جیسا کہ مجھ سے بات چیت ہوئی۔ ضیاء الحق فوج میں تھے تو میری کبھی ان سے ملاقات نہ ہوئی البتہ مجھے معلوم ہے کہ جب انہیں کئی ایک جرنیلوں سے سپر سیڈ کر کے فوج کا سربراہ بنایا گیا تو سیاسی حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ بھٹو صاحب کو اطمینان تھا کہ یہ مولوی زیادہ نمازی اور بظاہر اسلام کا نام لیوا لگتا ہے۔ لہٰذا اس سے میرے اقتدار کو کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ ان دنوں اسلام آباد میں یہ واقعہ مشہور تھا کہ بھٹو سے ان کے کسی لیڈر نے کہا کہ ضیاء الحق سے بچ کر رہنا۔ بھٹو صاحب ہنسے اور بولے کس سے بچ کر رہوں۔’’ کیا اس مونکی سے۔‘‘ یوں قدرت نے دیکھا کہ جسے بھٹو صاحب بندر سمجھتے تھے۔اس کے ہاتھوں غیرطبعی موت سے ہمکنار ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بات انہوں نے ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی سے کہی تھی جو اپنی بیگم فرح پہلوی کے ساتھ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ انہیں بھٹو صاحب نے ضیاء الحق سے ملوایا تو اچانک رضا شاہ پہلوی نے ان کے جانے کے بعد بھٹو صاحب کو خبردار کیا کہ اس شخص سے بچ کر رہنا۔
ضیاء الحق کی شکل و صورت معمولی تھی مونچھیں لمبی تھیں۔ ایک آنکھ دوسری سے تھوڑی چھوٹی تھی مخالف لوگ اسے ’’کانی سرکار‘‘ بھی کہا کرتے تھے، یونیفارم میں جنرل ضیاء الحق کی تصویر دیکھ کر بعض لوگ انہیں بینڈ ماسٹر کا خطاب بھی دیتے تھے۔ ملتان میں جہاں وہ کور کمانڈر رہے تھے بہت لوگ ان سے واقف تھے۔ انہیں پڑھنے کا شوق تھا اور واقفان حال جانتے ہیں کہ مذہبی کتابوں میں سے وہ بطور خاص سید مودودی کی تصانیف پڑھتے تھے اور یہ بھی مشہور تھا کہ وہ ہر صبح اخبارات کو پڑھتے نہیں بلکہ چاٹتے ہیں اور صدر بننے کے بعد بھی مذاق میں کہا کرتے تھے کہ میں سب اخبارات اور تمام رسائل و جرائد کا مطالعہ کرتا ہوں۔ ملتان ہی سے ان کے ایک قریبی ملنے والے نے بہت پہلے مجھے بتایا تھا کہ وہ پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار ہیں اور ہر صبح قرآن پاک بالخصوص مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہیں۔
میری جنرل ضیاء الحق سے پہلی ملاقات راولپنڈی میں اس وقت ہوئی جب میں سیاسی ہفت روزہ’’ صحافت ‘‘کا ایڈیٹر تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک دن ڈیلی اخبارات کے ایڈیٹروں کو بلایا جن کی تعداد پندرہ سولہ کے لگ بھگ تھی۔ اگلے دن ہفت روزہ اخبارات کی باری آئی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے علاوہ مجیب الرحمن شامی، ’’اخبار جہاں‘‘ کے ایڈیٹر، نثار احمد زبیری ’’افریشیا‘‘ کے ایڈیٹر عبدالقادر حسن، ’’زندگی‘‘ کے ایڈیٹر الطاف حسن قریشی اور ’’تکبیر‘‘ کے صلاح الدین کے علاوہ کراچی کے اخبار نویس میجر(ر) ابنِ حسن بھی تھے۔ یہ ملاقات ان کی رہائش گاہ پر ہوئی تھی جو آرمی سربراہ کی سرکاری قیام گاہ تھی۔
لاہور سے جی ٹی روڈ کے ذریعے جائیں تو پرانے آرمی ہاؤس کی عمارت ابھی تک دائیں ہاتھ نظر آتی ہے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہی تھے کہ ضیاء الحق آگئے۔ وہ تیز قدموں سے چل رہے تھے اور ان کے ہاتھ میں دو تین رنگوں کے مارکر تھے جن کی وجہ سے ان کی انگلیوں پر مختلف رنگ لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے باری باری ہم سے ہاتھ ملایا اور پھر بات چیت شروع ہو گئی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک ملاقات جاری رہی۔
(جاری ہے)