وقت گزرتا چلا گیا‘ عمران کی پارٹی کا نام رکھا گیا‘ منشور بنا‘ جھنڈا تیار ہوا‘ میں نے ان کاموں میں نہ کبھی دخل دیا نہ کوئی دلچسپی لی۔ یہ روٹین کے کام تھے اور میں اپنی پیشہ وارانہ مصروفیت میں رہتا تھا۔ اکثر ملاقات ہوتی یا ٹیلی فون پر گپ شپ ہو جاتی۔ عمران ٹیلی فون پر بھی مختصر بات کرنے کا عادی ہے۔ بہرحال وقتی ناکامیوں کے باوجود وہ حوصلہ نہیں ہارا۔ عمران کی پارٹی میں کتنے لوگ آئے اور کتنے گئے‘ اگر ان کی فہرست تیار کی جائے تو ہزاروں نہیں شاید لاکھوں صفحات کی ضرورت ہو۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی تاش کے پتے پھینٹ رہا ہے اور رمی کا کھیل جاری ہے۔ عمران کے دائیں بائیں شاید کوئی پتا ایسا ہو جو اپنی جگہ بنا سکتا ورنہ پتے آتے اور نکل جاتے‘ میں نے برسوں اس کھیل کو بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن عمران کی پارٹی میں منشور سازی سے لے کر ان کے پہلے پارٹی الیکشن تک میں نے قطعی طور پر کبھی مداخلت نہیں کی حتیٰ کہ عمران سے اتنے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اگر کسی نے گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ٹکٹ دلوا دو یا کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لیے میری سفارش کرو تو آپ آج بھی عمران سے پوچھ سکتے ہیں کہ پچھلے 20 برسوں میں پارٹی کے سلسلے میں الیکشن کے سلسلے میں نے تم سے کچھ مانگا ہو یا کسی کی سفارش کی ہو حالانکہ اس کے پاس آنے والوں کے بارے میں پسند یا ناپسند بہرحال اخبار نویس کی حیثیت سے میرے کچھ خیالات تھے‘ مثبت بھی اور منفی بھی‘ لیکن خود عمران اس کی گواہی دے سکتا ہے کہ میں نے پوری زندگی اس کے کسی ساتھی کو اچھا یا برا نہیں کہا‘ کسی کی حمایت نہیں کی‘ کسی کی مخالفت نہیں کی‘ البتہ کیا کرنا ہے کیا کرنے والے ہو‘ اس کے بارے میں بھی کبھی خود جا کر اسے کوئی مشورہ نہیں دیا ہاں اس کی اپنی خواہش پر جب کبھی مجھ سے کسی اصولی مسئلے پر ہاں یا نہ میں کچھ پوچھا گیا تو میں نے اپنی رائے آزادانہ طور پر بیان کر دی۔
ان بہت سارے برسوں میں اس نے اگر کامیابیاں حاصل کی ہیں تو میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ان میں میرا کوئی حصہ ہے یا میں نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے‘ لیکن اسے جو ناکامیاں ملیں ان کی وجہ بھی نہ میں تھا نہ میرا ادارہ نہ میری سوچ نہ میرا مشورہ۔ عمران کی مہربانی ہے کہ وہ پرانے دوستوں کی عزت کرتا ہے بالخصوص وہ مجھے اپنا مخلص دوست خیال کرتا ہے۔ میں نے بھی ہمیشہ نیک نیتی سے جو اس کیلئے‘ سیاست کیلئے اور ملک کیلئے بہتر سمجھا وہی کچھ اسے کہا اور جس بات سے میں متفق نہیں تھا اسے کھل کر منع کیا۔ بیشمار مرتبہ اس نے میری کسی تجویز یا مشورے کو نہیں مانا جو اس کا حق ہے لیکن بہت سے مواقع پر میری بعض تجاویز یا مشوروں پر اس نے صدق دل سے توجہ بھی دی اور ان کے مطابق چلنے کی کوشش بھی کی‘ لیکن میں اس کی سیاست کی تفصیل یا تاریخ میں نہیں جانا چاہتا‘ یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے‘ میں تو صرف اپنے پرانے دوست کی جو آج بہرحال اس ملک کی سیاست کا ایک بڑا نام ہے‘ شخصی اعتبار سے کچھ تاثرات آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
عمران کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ نہیں وہ طبعاً اورمزاجاً ایک تحریک کا قائل ہے‘ پارٹی تسلسل کے ساتھ اپنے نظریات کے مطابق چلتی ہے خواہ اس کی رفتار چیونٹی کی طرح ہو مگر اس کی سمت متعین ہوتی ہے۔ عمران فاسٹ باﺅلر ہے‘ مخالفوں کی وکٹ اڑانے میں اسے مزہ آتا ہے‘ بلے باز کی حیثیت سے چھکے لگا کر وہ شائقین سے تالیوں کا خراج وصول کرتا ہے اگر وہ کوئی تحریک نہ چلا رہا ہو دوسرے لفظوں میں کسی موومنٹ کا لیڈر نہ بنا ہوا ہو تو مہینوں اس کی پارٹی سے آپ کو کوئی نئی خبر نہیں ملے گی کیونکہ کوشش کے باوجود وہ جمہوریت کا نام لینے والے اس معاشرے میں جمہوری اصولوں کے تحت پارٹی الیکشن بھی نہ کروا سکا اور جب کروائے تو وہ ناکام ہو گئے اور پارٹی کا سفر رک گیا جس پر اسے یہ سب کچھ ختم کرنا پڑا۔ اس نے طے کیا تھا کہ مڈل کلاس کے نوجوانوں کو سیاست میں کامیاب کروائے گا اور اسمبلیوں تک پہنچائے گا لیکن اس نام نہاد اور جھوٹی جمہوریت اور بوگس انتخابات میں یہ سارے نوجوان چاروں شانے چت ہو گئے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی اور جہیز میں ہمیں برطانوی جمہوریت مل گئی جسے خدائی قانون سمجھتے ہوئے ہم نے سر پر اٹھا لیا حالانکہ برطانوی جمہوریت کیلئے عوام کی خودکفالت‘ تعلیم کی انتہائی بلند سطح‘ مستحکم ادارے‘ اچھی گورننس ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر معاشی آزادی اور معاشی مساوات لازم ہے۔ انتہائی منصفانہ اور دیانتدارانہ انتخابی نظام مغربی جمہوریت کی بنیادی اور یہ خوبیاں ہمارے معاشرے میں قطعی طور پر موجود نہیں لہٰذا ان انتخابات سے آپ کو کبھی اچھی لیڈرشپ نہیں مل سکتی‘ ہمارے ہاں جمہوریت صرف ووٹ لینے اور اسمبلیوں میں پہنچ کر بادشاہت قائم کرنے کا نام ہے۔ جس ملک میں 43 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں‘ سارے دعوﺅں کے باوجود تعلیم کی شرح انتہائی شرمناک ہو‘ جاگیرداری اور ذمہ داری نظام کے ساتھ سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کا گٹھ جوڑ ہر علاقے اور ہر انتخابی حلقے میں سیاسی اجارہ داریوں کو جنم دے چکا ہو جہاں جاگیردار‘ صنعتکار‘ سرمایہ دار خود یا ان کے گماشتے میدان میں ہوں۔ جہالت کے باعث لوگ سچے جھوٹے پیروں‘ گدی نشینوں‘ مذہبی اجارہ داروں کے چنگل میں پھنسے ہوں‘ جو قرآن گلے میں لٹکا کر ووٹ مانگتے ہوں اور گناہ گار لوگ ڈر کر جس نشان پر چاہتے ہوں دستخط کردیں۔ جہاں سرمایہ کے بل پر سیٹ حاصل کی جاتی ہو اور پھر لوٹ کھسوٹ کرکے اپنا گھر بھرا جاتا ہو اور کمائی کا کچھ حصہ اگلے الیکشن کے لئے مختص کرنے کا رواج ہو‘ جہاں الیکشن کمیشن بوڑھے اور اذکار رفتہ ججوں کو آسان اور بہترین مشاہرے پر چیئرمینی اور ممبریاں ملتی ہوں جہاں پر صوبائی حکومت اپنی مرضی کا ممبر کمیشن میں بھیجتی ہو جہاں قومی احتساب بیورو کی چیئرمینی پر اپوزیشن اور حکومتی پارٹی اتفاق رائے سے بندہ منتخب کرتی ہو‘ جہاں عدالتیں کام تو کرتی ہوں لیکن ان میں انصاف کے حصول کے لئے دولت درکار ہو کہ وکلاءکی بھاری فیسیں ہر شخص ادا نہیں کرسکتا۔ جہاں انصاف کے نام پر بے انصافی عام ہو‘ جہاں اسمبلیوں کے ارکان قانون سازی اور بجٹ سازی میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں بلکہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر فنڈز چاہتے ہوں جن کو خرچ کرتے وقت انہیں مناسب حصہ مل سکے ۔
ہمارے ہاں منتخب ارکان اسمبلیوں میں مسائل پر بات نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں مرضی کا ڈی سی اور ڈی پی او لگوانا چاہتے ہیں‘ وہ صاحبان اقتدار کے لئے قانون سازی میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ مقامی طور پر اپنے اپنے حلقے میں براہ راست اقتدار چاہتے ہیں تاکہ راجہ بن کر اپنی ریاست میں حکمرانی کرسکیں۔جہاں پارلیمنٹ میں کبھی کورم پورا نہ ہوتا ہو لیکن سفر‘ خرچ‘ علاج معالجے کے اخراجات کے ساتھ ساتھ نوکریوں‘ ٹھیکوں کے پس پشت سفارشوں کا نظام رائج ہو اور ہر رکن نوکریوں اور ٹھیکوں میں اپنا کوٹہ چاہتا ہو وہاں مڈل کلاس یا غریب طبقے کا کوئی شخص رکن اسمبلی بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ جہاں اشرافیہ کے بیرون ملک اثاثے ہوں‘ ان کے بچے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہوں‘ ان کے لیڈروں کے بیش قیمت گھر ہوں وہاں تیزی سے بھوک‘ افلاس‘ بیکاری اور تنگدستی کی دلدل میں پھنستے اور گرتے ہوئے لوگوں کا کون مددگار ہوسکتا ہے۔ میرے دوست اور انقلابی شاعر حبیب جالب نے ٹھیک کہا تھا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جان نثار ہے
پر وہاں جو ہے نظام
اس طرف نہ جائیو
ہمارے ہاں جب جمہوریت ہوتی ہے تو لوٹ مار کا شور مچتا ہے ماضی میں مارشل لاء آئے تو جمہوریت کے نعرے لگے‘ جہاں ہر پارٹی حکومت میں آنے کے بعد پچھلی پارٹی کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہو‘ جہاں 70 سال میں کسی نے نہ سوچا ہو کہ ہماری اگلے دس سال کی کیا ضرورتیں ہوں گی‘ جہاں فیملی پلاننگ اور پاپولیشن پلاننگ کا مقصد غریب عوام میں غبارے تقسیم کرنا ہو۔( مجھے بہت مرتبہ چین جانے کا اتفاق ہوا اور کئی بار چینی پالیسی سازوں نے یہ کہا کہ ہمارے ہاں دنیا کی سب سے بڑی آبادی کی پلاننگ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگلے پانچ سال میں ہمیں کتنے سکول‘ کتنے ہسپتال‘ روزگار کے لئے کتنی آسامیاں‘ علاج کے لئے کتنے ڈاکٹرز‘ تعمیراتی کاموں کے لئے کتنے انجینئرز اورمعمار درکار ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں پاپولیشن پلاننگ والے کسی سیمینار میں آتے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں بڑے فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لئے اتنے لاکھ اور اتنے کروڑ غبارے تقسیم کئے۔) وہاں عمران خان نے نوجوانوں کو ٹکٹ دے کر بار بار شکست فاش پائی اور پھر میرا دوست پلٹ کر اس فارمولے پر عمل کرنے لگا کہ جیسا بھی ہے اس سوسائٹی میں سیٹ جیتنے والا تلاش کیا جائے اور اسے اسمبلیوں کے لئے کامیاب کروا کے نظام بدلا جائے اسے انگریزی میں اینٹی تھیسس کہتے ہیں لیکن یہی ہوا اور پھر عمران نے گالیاں کھائیں کہ اس نے بھی استحصالی طبقوں کے مالدار لوگ جمع کرلئے ہیں۔