انتظار حسین کی مقبولیت پورے ملک میں اس وقت پھیلی جب مشرق کے منیجنگ ایڈیٹر عنایت اللہ اور اقبال زبیری نے انہیں ”لاہور نامہ“ کے عنوان سے ہر روز ایک کالم لکھنے کےلئے کہا۔ زبان و بیان کی اعلیٰ ترین خوبیوں کے علاوہ انتظار صاحب کے اس کالم میں بدلتے ہوئے موسموں کا تذکرہ کچھ اس مہارت سے ہوتا تھا کہ ایک ایک جملے پر انسان جھوم جھوم اٹھتا تھا۔ بہار آتی تو یوں لگتا جیسے ان کے جملوں کے الفاظ کاغذ پر لکھی ہوئی تحریریں سبز شاخوں پر اگنے والے رنگ برنگے پھول ہیں۔ برسات کی طوفانی جھڑیوں میں ان کا ”لاہور نامہ“ پڑھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے آسمان سے موسلا دھار بارش ہو رہی ہو پھر بارش تھمنے کے بعد پیدا ہونے والے حبس کا ذکر ہوتا۔ انتظار حسین کے ”لاہور نامہ“ میں ادب بھی ہوتا، کلچر بھی، شہری زندگی کے مختلف اسلوب بھی لیکن یہ سارے موسم کی چادر اوڑھ کر باری باری سامنے آتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے لکھنے والوں نے میری طرح ان کے کالم پڑھ کر لکھنے کی کوشش کی لیکن زبان و بیان پر انتظار حسین کی جو گرفت تھی ہم ان کی سطح پر پہنچنے میں ناکام رہے۔ اخبار کے ذریعے انتظار حسین نے ہمیں جو دھنک (قوس قزح) دکھائی اس کے رنگ اتنے خوبصورت تھے کہ جب موسم سے لطف اندوز ہونے کا خیال آتا تو ہم ”مشرق“ منگوا کے انتظار صاحب کا کالم پڑھنے لگتے۔ معلوم نہیں انتظار صاحب نے منتخب کالموں کا مجموعہ کیوں نہیں چھاپا لیکن ایک دن جب سجاد باقر رضوی کے ہاں مجلس جاری تھی تو طالب علم ہونے کے باوجود میں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر مجھے ”مشرق“ کے دفتر میں بیٹھ کر کالموں کے انتخاب کا موقع دیا جائے تو میں نہایت اعلیٰ کتاب مرتب کر سکتا ہوں۔ پھر رسکن کے اس مضمون پر بحث کا اختتام ہوا کہ دو قسم کی کتابیں ہوتی ہیں ”بک آف آور“ اور ”بک آف آل ٹائم“۔ انتظار صاحب کا خیال تھا کہ روزانہ کالم بک آف آور ہوتے ہیں۔ لاہور میں اس دن جو محسوس کیا لکھ ڈالا۔ وہ مستقل نوعیت کے موضوع نہیں ہوتے جنہیں کتابی شکل میں چھاپا جائے۔ میں طالب علم تھا اس لئے اصرار نہ کر سکا تاہم میں آج بھی کہتا ہوں کہ ا دبی اور معاشرتی تقاریب کے احوال نہ سہی کم از کم موسم کے حوالے سے لکھے ہوئے ”لاہور ناموں“ کو ایک جگہ ضرور جمع کرنا چاہیے تھا۔
حکومت پاکستان کی طرف سے انتظار حسین صاحب کو ستارہ امتیاز بھی ملا اور اکادمی ادبیات پاکستان نے سب سے بڑے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا۔ حکومت فرانس نے 2014میں انہیں ”افیئر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز“ کے نام سے خصوصی ایوارڈ بھی دیا۔ آخری برسوں میں انتظار صاحب سے کم ہی ملاقاتیں رہیں۔ وہ ایک انگریزی اخبار سے منسلک تھے اور انگریزی میں ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ جب انہیں فرانس کی حکومت کی طرف سے ایوارڈ ملا تو لاہور کے ایک ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ فرانس کے سفیر فلپ تھیوڈ نے انہیں یہ ایوارڈ دیا۔ انتظار صاحب نے اپنی مخصوص منکسر المزاجی سے یہ کہا کہ میں نے ادب کی اگر کوئی خدمت کی ہے تو اس میں منٹو صاحب، میرا جی اور محمد حسن عسکری جیسی شخصیات کا ہاتھ ہے لہٰذا میں اس ایوارڈ کو ان کے نام معنون کرتا ہوں۔ تقریب میں کشور ناہید مسعود اشعر، اصغر ندیم سید شاہد محمود ندیم، خالد احمد اور ڈاکٹر آصف فرخی کے علاوہ دیگر اہل قلم افراد نے بھی شرکت کی۔ اس تقریب سے کچھ دن کے بعد ان سے ایک کھانے میں ملاقات ہوئی تو کچھ دیر تک ہم پرانی باتیں یاد کرتے رہے۔ میں نے پوچھا انتظار صاحب کیا آپ لکشمی چوک سے اچھرہ موڑ تک چار آنے دے کر سفر طے کرنا بھول گئے یا اب تک یاد ہے۔ انہوں نے کہا میں کبھی نہیں بھولتا۔ میں نے انہیں اردو میں کالم نگاری شروع کرنے کی درخواست کی اور کہا روزانہ نہ سہی ہفتے میں ایک کالم ہی لکھ دیا کریں۔ انہوں نے کہا کوشش کروں گا لیکن یہ وعدہ کبھی ایفا نہ ہو سکا۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں میرے ایک عزیز دوست اور پرانے کلاس فیلو سکرپٹ سیکشن میں آئے تو میں نے ان کے دفتر سے ہی انتظار صاحب کو فون کیا۔ جوانی کے زمانے سے ہی میں انتظار حسین کے افسانے ”آخری موم بتی“ کا عاشق تھا۔ میں نے انتظار صاحب کو فون پر بتایا کہ پی ٹی وی میں بیٹھا ہوں اور سکرپٹ سیکشن میں اپنے کچھ دوستوں سے بحث کر رہا ہوں کہ انتظار صاحب کی کہانی آخری موم بتی پر ایک ڈرامہ بنائیں، انتظار صاحب نے فون پر کہا کہ وہ کہانی ماحول اور انسان کے اپنے اندر اٹھنے والے احساسات کی آئینہ دار ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں اتنے Events ہیںکہ اس کا منظر نامہ لکھا جا سکے۔ یہ تو پڑھنے اور محسوس کرنے والی بات ہے۔ ان کی بات میں وزن تھا اور میں سمجھتا تھا کہ وہ سحر جو انتظار صاحب نے اپنے قلم سے احاطہ کیا شاید واقعات کی شکل میں پیش نہ ہو سکے ”چاندنی راتوں“ میں کسی پرانی عمارت کے سحرزدہ ماحول کی طرح آپ اسے الفاظ میں تو بیان کر سکتے ہیں منظر نامے میں پیش نہیں کرسکتے۔
انتظار صاحب کے افسانوں میںجو الفاظ، تشبیہیں، محاورے استعمال ہوتے تھے میں اپنے زمانہ طالب علمی میں انہیں ٹوٹ کر چاہنے والوں میں سے ایک تھا۔ سجاد باقر رضوی کے ” خلیفہ اول“ ولید میر ہوتے تھے۔ میرا نمبر دوسرا تھا۔ ایک دن کالج کی سیڑھیوں پر ولید میر کے منہ سے بے اختیار نکلا ” روتا جائے مرے کی خبر لائے“ میں نے فوراً کہا یہ انتظار صاحب کا جملہ کیسے یاد آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ حزن، یاس، پچھتاوے اور منظر نگاری کو گوندھ کر انتظار حسین نے جو کہانیاں لکھی ہیں ان کی برابری اور کوئی افسانہ نگار نہیں کر سکتا اور ”لاہور نامہ“ جیسا کالم لکھنے والا اب شاید پاکستان بھر میں اور کوئی قلمکار نہ ہو۔
٭٭٭