چند ماہ پہلے اخبارات میں ایک چھوٹی سے خبر نے مجھے بے چین کر دیا۔ یہ خبر معروف ادیب، افسانہ نویس اور کالم نگار انتظار حسین کے انتقال کے بارے میں تھی۔ وہ مجھ سے عمر میں خاصے بڑے تھے اس کے باوجود مجھے ہمیشہ یہ دعویٰ رہا کہ وہ میرے سینئر ہونے کے باوجود اچھے دوست اور مشفق ساتھی تھے، بہت برس پہلے میں یونیورسٹی میں بی اے آنرز کا طالب علم تھا اور معروف اخبار روزنامہ ”کوہستان“ میں ملازمت کرتا تھا۔ میری یہ دوسری یا تیسری ملازمت تھی اور صحافت میں خود کو بہت جونیئر سمجھتا تھا۔ 120روپے ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی تھی لیکن مشکل ہی سے وقت پر ملتی تھی۔ میں نیوز ڈیسک پر اپرنٹس سب ایڈیٹر تھا اور بار بار کوشش کرتا تھا کہ مجھے میگزین سیکشن یا رپورٹنگ میں جگہ مل جائے۔ عنایت اللہ ہمارے منیجنگ ایڈیٹر تھے اور نسیم حجازی ایڈیٹر، براہ راست میرے استاد منہاج الدین اصلاحی تھے جنہوں نے بعدازاں صحافت چھوڑ دی اور نسبت روڈ پر شرکت پریس لگایا۔ کوہستان میں امین راحت چغتائی میگزین ایڈیٹر ہوتے تھے۔ سلمیٰ جبیں لیڈی رپورٹر اور میرے دوست اور کلاس فیلو ارشاد راﺅ سٹوڈنٹس رپورٹر۔ میں انہیں بڑے رشک سے دیکھا کرتا تھا کیونکہ وہ سات آٹھ بجے شام گھر چلے جاتے تھے جبکہ مجھے رات ایک ڈیڑھ بجے چھٹی ملتی تھی۔ میرے پاس کوئی سواری نہ تھی اور مجھے میکلوڈ روڈ سے اچھرہ موڑ جانا پڑتا تھا۔ میں اپنے ایک دوست ذوالفقار کے ساتھ لکشمی چوک میں بیڈن روڈ کے نکڑ پر کھڑا ہو جاتا اور اچھرے کی طرف جانے والے تانگوں کا انتظار کرتا جو فلموں کے سیکنڈ شو کے بعد بے تحاشا سواریاں بٹھا کر بیڈن روڈ، ٹمپل روڈ سے گزر کر مزنگ چونگی پہنچتے اور وہاں سے فیروز پور روڈ سے ہوتے ہوئے اچھرہ اڈے کے بعد اچھرہ موڑ پہنچتے تھے۔
میری انتظار حسین سے پہلی ملاقاتیں انہی دنوں شروع ہوئیں۔ وہ غالباً ”آفاق“ اخبار میں کام کرتے تھے جو نسبتاً چھوٹا اخبار تھا اور انہیں فیروز پور روڈ پر اچھرہ موڑ کے آگے اچھرہ تھانہ پھر رحمان پورہ موڑ اور اس سے بھی آگے مسلم ٹاﺅن چوک میں جانا ہوتا تھا۔ آخری سینما شوز کے تانگے سواریاں لے کر اچھرے موڑ تک جاتے تھے اور وہاں سب سواریاں اتر جاتی تھیں۔ میرے دوست ذوالفقار رحمن پورہ کو جانے والی سڑک سے دائیں ہاتھ مڑ جاتے جبکہ اکیلے انتظار حسین مسلم ٹاﺅن میں واقع اپنے گھر تک اچھرہ موڑ سے پیدل سارا سفر طے کرتے تھے۔ فیروز پور روڈ سے جو سڑک رحمن پورہ کی طرف جاتی تھی اور جہاں ذوالفقار انتظار صاحب سے الگ ہو جاتے وہاں رات بھر آوارہ کتوں کی مجلس جمتی تھی اور میری طرح انتظار صاحب بھی کتوں سے بہت ڈرتے تھے، کسی دن ذوالفقار صاحب دفتر نہ آتے تو لکشمی چوک میںتانگے پر سوار ہوتے ہی انتظار صاحب مجھ سے درخواست کرتے کہ مجھے رحمن پورہ موڑ تک ضرور چھوڑ کر واپس آئیں۔ تانگے والے لکشمی چوک سے اچھرہ موڑ تک چار آنے وصول کرتے تھے اور کسی قیمت پر اس سے آگے جانے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے۔ شاہ جمال روڈ پر چند ہی کوٹھیاں تھیں پھر دائیں ہاتھ مڑ کر شاہ جمال کا مزار آتا تھا جو سرسبز فصلوں میں گھرا ہوا ہوتا تھا یہاں سے نہر کے کنارے فیروز پور روڈ کو جیل سے ملانے والی سڑک کا راستہ کچا تھا۔ تانگے کی وہ سواریاں جنہیں شاہ جمال کے اطراف میں پہنچنا ہوتا تھا وہ بھی دو دو چار چار کی ٹولیوں میں اپنا سفر طے کرتے تھے کیونکہ چاروں طرف گھپ اندھیرا ہوتا اور پورا علاقہ جیل کی دیوار تک سنسان اور ویران ہوتا تھا۔ ہماری یہ روٹین سال سوا سال جاری رہی حتیٰ کہ میں نے کوہستان چھوڑ کر پہلے ذیلدار پارک اچھرہ میں ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ میں نوکری کی اور پھر سمن آباد میں واقع اردو ڈائجسٹ سے منسلک ہو گیا۔ راتوں کی مشقت ختم ہو گئی اور انتظار حسین سے روزانہ کی ملاقاتیں بھی۔ البتہ انتظار صاحب سے جو تعلق قائم ہوا وہ کسی نہ کسی شکل میں عمر بھر برقرار رہا۔ جب میں نے بی اے آنرز کے بعد یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ایم اے کی غرض سے داخلہ لیا تو کالج کے علمی اور ادبی ماحول میں اکثر انتظار حسین سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اردو کے استاد سجاد باقر رضوی سے ہماری بہت نیاز مندی تھی اور ان کا جن ادیبوں سے گہرا رابطہ تھا ان میں الطاف فاطمہ، انتظار حسین اور ناصر کاظمی سرفہرست تھے۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ الطاف فاطمہ روزنامہ خبریں کے موجودہ دفتر -12لارنس روڈ پر عین اس جگہ رہتی تھیں جہاںاب ایک بہت بڑے کینوپی کے اندر چینل۵ کا ایئرکنڈیشنڈ ٹی وی سٹوڈیو ہے۔ ہمارے ٹی وی کے ناظرین کو یاد ہو گا کہ سب سے بڑا پہلا پروگرام رمضان کے مبارک دنوں میں ”مرحبا رمضان“ ہوتا تھا اور آج کل ویک اینڈ سپیشل کی مجلس یہیں جمتی ہے۔ یوں انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی، ا لطاف فاطمہ، افتخار احمد صدیقی وغیرہ سبھی اردو سپیکنگ تھے لیکن سچی بات ہے کہ ان دنوں کم از کم پنجاب میں زبان یا قومیت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ ہمارے یہ استاد اور سینئرز انتہائی محبت اور شفقت سے طلباءاور نوجوانوں کو ہر طرح کی رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ ہم ان کی محفلوں میں بہت مو¿دب ہو کر بیٹھتے۔ سجاد باقر رضوی صاحب ٹمپل روڈ پر ریگل سینما سے متصل بلڈنگ کی بالائی منزل پر بنے ہوئے فلیٹوں میں سے ایک میں آباد تھے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شادی ہوئی لیکن یہ مجلسیں ختم نہ ہوئیں کبھی کبھار ریڈیو پاکستان میں بھی وقت مقرر کر کے سارے دوست جمع ہوتے اور گھنٹوں شاعری کے علاوہ نثر نگاری پر بھی گفتگو ہوتی۔ یہ سبھی انتہائی معیاری شاعری اور افسانہ نگاری کرتے تھے۔ سجاد باقر کی اس غزل کا شعر مجھے اب تک یاد ہے۔
میرا غزال کہ وحشت تھی جس کو سائے سے
لپٹ گیا میرے سینے سے آدمی کی طرح
ناصر کاظمی چھوٹی بہر میں شعر کہتے تھے۔ معروف گلوکار غلام علی نے ان کی غزلیں بڑی محبت سے گائی ہیں۔ ایک تازہ ہوا چلی ہے ابھی اور میں بھی تیرے جیسا ہوں جیسی غزلیں اردو شاعری میں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ انتظار حسین افسانہ نگار تھے اور الطاف فاطمہ بھی کہانیاں لکھتی تھیں کبھی حلقہ ارباب ذوق میں انتظار صاحب کو افسانہ پڑھنا ہوتا تو ہم اس محفل میں ضرور شامل ہوتے۔ انتظار حسین کی کہانیوں کی زبان ہمیں بہت اچھی لگتی تھی لیکن کئی برس تک ہمیں پتا نہ چلا کہ ”بیہنچ“ ایک گالی ہے۔ انتظار حسین کی کتابیں ہم شوق سے پڑھتے۔ آگے سمندر ہے چاند گہن ان کا ناولٹ دن اور افسانوں میں سے آخری آدمی، خیمے سے دور، کچھوے، گلی کوچے، خالی پنجرہ۔ یہ ساری کہانیاں ہم نے بار بار پڑھیں۔ ان کی آپ بیتی دلی تھا جس کا نام بہت مقبول ہوا لیکن ذاتی طور پر مجھے اہل تشیع کی مجالس کی پس منظر میں لکھی ہوئی آخری موم بتی بہت پسند تھی جسے میں نے بیسیوں بار پڑھا ہر بار وہ نیا لطف دیتی۔ وہ ان محبتوں کی کہانی تھی جن کا کبھی اظہار نہیں کیا جاتا۔ ا نتظار حسین کی اکثر تحریریں ایک طلسماتی ماحول کی عکاسی کرتی تھیں۔ کبھی کبھی لگتا وہ ماضی پرست ہیں۔ ان کے افسانوں میں ایسے اسرار ہوتے تھے جو کبھی ظاہر نہ کئے جاتے۔
(جاری ہے)
انتظار حسین کی مقبولیت پورے ملک میں اس وقت پھیلی جب مشرق کے منیجنگ ایڈیٹر عنایت اللہ اور اقبال زبیری نے انہیں ”لاہور نامہ“ کے عنوان سے ہر روز ایک کالم لکھنے کےلئے کہا۔ زبان و بیان کی اعلیٰ ترین خوبیوں کے علاوہ انتظار صاحب کے اس کالم میں بدلتے ہوئے موسموں کا تذکرہ کچھ اس مہارت سے ہوتا تھا کہ ایک ایک جملے پر انسان جھوم جھوم اٹھتا تھا۔ بہار آتی تو یوں لگتا جیسے ان کے جملوں کے الفاظ کاغذ پر لکھی ہوئی تحریریں سبز شاخوں پر اگنے والے رنگ برنگے پھول ہیں۔ برسات کی طوفانی جھڑیوں میں ان کا ”لاہور نامہ“ پڑھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے آسمان سے موسلا دھار بارش ہو رہی ہو پھر بارش تھمنے کے بعد پیدا ہونے والے حبس کا ذکر ہوتا۔ انتظار حسین کے ”لاہور نامہ“ میں ادب بھی ہوتا، کلچر بھی، شہری زندگی کے مختلف اسلوب بھی لیکن یہ سارے موسم کی چادر اوڑھ کر باری باری سامنے آتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے لکھنے والوں نے میری طرح ان کے کالم پڑھ کر لکھنے کی کوشش کی لیکن زبان و بیان پر انتظار حسین کی جو گرفت تھی ہم ان کی سطح پر پہنچنے میں ناکام رہے۔ اخبار کے ذریعے انتظار حسین نے ہمیں جو دھنک (قوس قزح) دکھائی اس کے رنگ اتنے خوبصورت تھے کہ جب موسم سے لطف اندوز ہونے کا خیال آتا تو ہم ”مشرق“ منگوا کے انتظار صاحب کا کالم پڑھنے لگتے۔ معلوم نہیں انتظار صاحب نے منتخب کالموں کا مجموعہ کیوں نہیں چھاپا لیکن ایک دن جب سجاد باقر رضوی کے ہاں مجلس جاری تھی تو طالب علم ہونے کے باوجود میں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر مجھے ”مشرق“ کے دفتر میں بیٹھ کر کالموں کے انتخاب کا موقع دیا جائے تو میں نہایت اعلیٰ کتاب مرتب کر سکتا ہوں۔ پھر رسکن کے اس مضمون پر بحث کا اختتام ہوا کہ دو قسم کی کتابیں ہوتی ہیں ”بک آف آور“ اور ”بک آف آل ٹائم“۔ انتظار صاحب کا خیال تھا کہ روزانہ کالم بک آف آور ہوتے ہیں۔ لاہور میں اس دن جو محسوس کیا لکھ ڈالا۔ وہ مستقل نوعیت کے موضوع نہیں ہوتے جنہیں کتابی شکل میں چھاپا جائے۔ میں طالب علم تھا اس لئے اصرار نہ کر سکا تاہم میں آج بھی کہتا ہوں کہ ا دبی اور معاشرتی تقاریب کے احوال نہ سہی کم از کم موسم کے حوالے سے لکھے ہوئے ”لاہور ناموں“ کو ایک جگہ ضرور جمع کرنا چاہیے تھا۔
حکومت پاکستان کی طرف سے انتظار حسین صاحب کو ستارہ امتیاز بھی ملا اور اکادمی ادبیات پاکستان نے سب سے بڑے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا۔ حکومت فرانس نے 2014میں انہیں ”افیئر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز“ کے نام سے خصوصی ایوارڈ بھی دیا۔ آخری برسوں میں انتظار صاحب سے کم ہی ملاقاتیں رہیں۔ وہ ایک انگریزی اخبار سے منسلک تھے اور انگریزی میں ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ جب انہیں فرانس کی حکومت کی طرف سے ایوارڈ ملا تو لاہور کے ایک ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ فرانس کے سفیر فلپ تھیوڈ نے انہیں یہ ایوارڈ دیا۔ انتظار صاحب نے اپنی مخصوص منکسر المزاجی سے یہ کہا کہ میں نے ادب کی اگر کوئی خدمت کی ہے تو اس میں منٹو صاحب، میرا جی اور محمد حسن عسکری جیسی شخصیات کا ہاتھ ہے لہٰذا میں اس ایوارڈ کو ان کے نام معنون کرتا ہوں۔ تقریب میں کشور ناہید مسعود اشعر، اصغر ندیم سید شاہد محمود ندیم، خالد احمد اور ڈاکٹر آصف فرخی کے علاوہ دیگر اہل قلم افراد نے بھی شرکت کی۔ اس تقریب سے کچھ دن کے بعد ان سے ایک کھانے میں ملاقات ہوئی تو کچھ دیر تک ہم پرانی باتیں یاد کرتے رہے۔ میں نے پوچھا انتظار صاحب کیا آپ لکشمی چوک سے اچھرہ موڑ تک چار آنے دے کر سفر طے کرنا بھول گئے یا اب تک یاد ہے۔ انہوں نے کہا میں کبھی نہیں بھولتا۔ میں نے انہیں اردو میں کالم نگاری شروع کرنے کی درخواست کی اور کہا روزانہ نہ سہی ہفتے میں ایک کالم ہی لکھ دیا کریں۔ انہوں نے کہا کوشش کروں گا لیکن یہ وعدہ کبھی ایفا نہ ہو سکا۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں میرے ایک عزیز دوست اور پرانے کلاس فیلو سکرپٹ سیکشن میں آئے تو میں نے ان کے دفتر سے ہی انتظار صاحب کو فون کیا۔ جوانی کے زمانے سے ہی میں انتظار حسین کے افسانے ”آخری موم بتی“ کا عاشق تھا۔ میں نے انتظار صاحب کو فون پر بتایا کہ پی ٹی وی میں بیٹھا ہوں اور سکرپٹ سیکشن میں اپنے کچھ دوستوں سے بحث کر رہا ہوں کہ انتظار صاحب کی کہانی آخری موم بتی پر ایک ڈرامہ بنائیں، انتظار صاحب نے فون پر کہا کہ وہ کہانی ماحول اور انسان کے اپنے اندر اٹھنے والے احساسات کی آئینہ دار ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں اتنے Events ہیںکہ اس کا منظر نامہ لکھا جا سکے۔ یہ تو پڑھنے اور محسوس کرنے والی بات ہے۔ ان کی بات میں وزن تھا اور میں سمجھتا تھا کہ وہ سحر جو انتظار صاحب نے اپنے قلم سے احاطہ کیا شاید واقعات کی شکل میں پیش نہ ہو سکے ”چاندنی راتوں“ میں کسی پرانی عمارت کے سحرزدہ ماحول کی طرح آپ اسے الفاظ میں تو بیان کر سکتے ہیں منظر نامے میں پیش نہیں کرسکتے۔
انتظار صاحب کے افسانوں میںجو الفاظ، تشبیہیں، محاورے استعمال ہوتے تھے میں اپنے زمانہ طالب علمی میں انہیں ٹوٹ کر چاہنے والوں میں سے ایک تھا۔ سجاد باقر رضوی کے ” خلیفہ اول“ ولید میر ہوتے تھے۔ میرا نمبر دوسرا تھا۔ ایک دن کالج کی سیڑھیوں پر ولید میر کے منہ سے بے اختیار نکلا ” روتا جائے مرے کی خبر لائے“ میں نے فوراً کہا یہ انتظار صاحب کا جملہ کیسے یاد آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ حزن، یاس، پچھتاوے اور منظر نگاری کو گوندھ کر انتظار حسین نے جو کہانیاں لکھی ہیں ان کی برابری اور کوئی افسانہ نگار نہیں کر سکتا اور ”لاہور نامہ“ جیسا کالم لکھنے والا اب شاید پاکستان بھر میں اور کوئی قلمکار نہ ہو۔