جھے شام کو اسلام آباد جانا تھا۔ اگلے روز جنگ پنڈی کے دفتر میں جو مری روڈ کے شروع میں واقع ہے میں نے میگزین ایڈیشن دیکھا جس کی کاپی لاہور سے آتی تھی تو یہ ساری خرافات اس میں موجود تھیں اور حسن رضوی صاحب نے ایک نقطہ بھی نہیں کاٹا تھا دوسرے دن لاہور واپس آ کر میں نے شعبہ اشتہارات سے حساب لگوایا اور 92 ہزار روپے جرمانہ کر دیا کیونکہ ایک صفحے کا ریٹ ان دنوں ایک لاکھ روپے ہوتا تھا اور کتابوں پر تبصرہ پالیسی کے مطابق چھپتا اور اس جگہ کا آٹھ ہزار روپے بنتا تھا۔ وہ نکال کر باقی 92 ہزار بچا جو حسن رضوی صاحب کو جرمانہ تھا۔ معاملہ شکیل صاحب کے پاس گیا جو ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے لیکن میں نے کہا کہ میں نے چیف ایڈیٹر صاحب کو بعینہ چھپنے سے پہلے روداد سنائی تھی اور حسن رضوی صاحب کو روکا بھی تھی انہوں نے میرے منع کرنے کے باوجود ایسا کیا۔ شکیل صاحب نے کہا اگر چیف ایڈیٹر صاحب کو آپ نے سب کچھ بتایا تھا تو وہی آخری فیصلہ کریں گے۔ حسن رضوی صاحب رات کی فلائٹ سے کراچی چلے گئے۔ اگلے روز وہ میر خلیل الرحمن کے سامنے بیٹھے تھے کہ میر صاحب نے مجھے فون کیا۔ میں نے سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ حسن رضوی میرے دوست ہیں اور کلاس فیلو بھی لیکن یہ اصولی بات ہے۔ ان کے ادبی صفحے پر سب سے زیادہ انہی کی تصویریں اور انہی کی کاوشیں ہوتی ہیں آپ چیف ایڈیٹر ہیں آپ چاہیں تو جرمانہ معاف کر دیں لیکن میں اپنی رائے پر قائم ہوں میں نے جرمانہ ٹھیک ہی کیا ہے۔ میر صاحب بولے میں اپنے جوائنٹ ایڈیٹر کی دی ہوئی سزا کو ختم نہیں کر سکتا، میں نے ان سے کہا ہے کہ یہ آپ ہی سے رجوع کریں۔ میں نے کہا میر صاحب میرے پاس نہ بھیجیں میں اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا۔ پھر میں نے کہا جناب آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے آپ اپنے پرانے کارکن کی جگہ 92 ہزار روپے ادا کر دیں۔ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ وہ بولے میںکیوں دوں حسن رضوی ناکام واپس لوٹے البتہ میر صاحب نے ان کی درخواست پر 92 ہزار روپے کے جرمانے کی قسطیں کر دیں اور ہر ماہ انہیں دو ہزار روپے کٹوانے کی ہدایت کی۔ حسن رضوی سے ذاتی طور پر میری بے تکلفی بھی تھی۔ وہ ہنس مکھ انسان تھے دفتر میں کسی گیلری میں یا سیڑھیوں پر مل جاتے تو ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگتے کہ یا اللہ! آپ مر جائیں یا میں مر جاﺅں، ان کی اچانک وفات کی خبر سنی تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میر خلیل الرحمن بلا کے ذہین تھے۔ عوامی نفسیات کو ان سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا تھا۔ ایک بار لاہو میں ایک اخباری تنظیم کا اجلاس ہوا رات کے کھانے کے بعد بڑی دیر سے وہ میرے ساتھ دفتر پہنچے۔ میں اصرار کرتارہا کہ آپ گھر جائیں اور آرام کریں کیونکہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن وہ مُصر تھے کہ فوٹو گرافر تصویریں لے آئے تو میں ان کے کیپشن لکھوا کر گھر جاﺅں گا۔ پھر انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ جب آپ کسی گروپ فوٹو کے نیچے چند نام لکھ کر باقی ناموں کے بجائے یہ جملہ لکھتے ہو کہ فلاں فلاں فلاں اور دیگر حضرات کا گروپ فوٹو تو وہ شخص جس کا نام نہیں چھپتا دل میں آپ کو انتہائی برا بھلا کہتا ہے۔ اس کا سوال ہوتا ہے کہ میں الف ب ج کوئی بھی نام رکھتا ہوں اور قابل عزت انسان ہوں میں ”دیگر“ نہیں ہوں۔ رات پونے بارہ بجے کے قریب فوٹو گرافروں نے ساری تصویریں فراہم کیں اس وقت کلر پرنٹ نسبت روڈ کی ایک لیبارٹری سے بنوائے جاتے تھے اور ڈیجیٹل کیمرے کا رواج نہ تھا۔ میر صاحب بولے مجھے چائے کے ساتھ سادا رسک منگوا دو۔ جنرل منیجر نے بار بار کہا کہ شکیل صاحب کے گھر سے کھانا منگواتا ہوں۔ میر صاحب نے کہا اس کی ضرورت نہیں۔ گرم چائے میں دو رسک ڈبو کر میر صاحب نے چمچ سے کھائے اور ساتھ چائے پی لی۔ پھر انہوں نے تصویروں پر اتنی محنت کی کہ دو تین لوگوں کے نام انہیں یاد نہ تھے۔ انہوں نے ایک فون کوئٹہ کیا اور دوسرا پشاور اور متعلقہ اخباروں کے دفاتر میں نیوز ایڈیٹروں سے فون کیا کہ ان کی نمائندگی کرنے والے صاحب کا کیا نام ہے۔ پھر تصویر سے شکل صورت اور لباس کا بتایا اور ان سے تصدیق کروائی کہ متعلقہ شخص کا یہی نام ہے۔ بارہ بج کر کچھ منٹ پر وہ بیسیوں تصویروں میں سے آخری انتخاب کر کے گھر رخصت ہوئے اور کہا کہ ایک نام بھی غلط نہیں چھپنا چاہیے۔ چلتے وقت دوبارہ انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ میں نے سختی سے منع کر رکھا ہے کہ خبر ہو یا تصویر کسی کا نام چھپنے سے رہ نہ جائے ورنہ وہ ہمارے اخبار کا مخالف ہو جائے گا۔
اس طرح کا ایک اور واقعہ کراچی کا ہے۔ یونس ریاض جو آج کل بیوپار اخبار نکالتے ہیں جنگ کے نیوز ایڈیٹر تھے میں رات گئے لاہور سے کراچی پہنچا تو میر صاحب اگلے روز کی تقریب کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ میرے سامنے انہیں ایک فون آیا۔ ایم کیو ایم والے ان دنوں بڑے ”زور آور“ ہوتے تھے نائن زیرو سے کسی نے کہا میر صاحب! ہماری خبر پانچ کالمی چھپنی چاہیے میر صاحب نے انہیں تسلی دی کہ ایسا ہی ہوگا۔ تھوڑی دیر بعد ایک کارکن دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے کہا میں نیوز ڈیسک پر کام کرتا ہوں جناب ایم کیو ایم والوں کا بار بار فون آ رہا ہے کہ اگر ہماری خبر پانچ کالمی سے کم چھپی تو تمہاری خیریت نہیں۔ میر صاحب نے اسے کہا جاﺅ اپنا کام کرو۔ چند منٹ بعد میرصاحب کے فون پر کال آئی، میر صاحب نے فون اٹھا کربات کی ۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات رونما ہوئے۔ پھر انہوں نے ریسیور رکھ کر بے اختیار کہا بہت ہو گیا بھائی پھر مجھ سے بولے ایم کیو ایم کے ہیڈ آفس سے فون آیا ہے کہ میر صاحب ہم سے غلط بیانی نہ کریں۔ ہم نے جس خبر کا کہا تھا اس کی سرخی چار کالم ریورس میں بنی ہے اسے دوبارہ بنوائیں اور پانچ کالم کریں۔ پھر میر صاحب نے کہا سیاسی جماعتیں آزادی صحافت کا مطلب یہ سمجھتی ہیں کہ اپنے مطلب کی اپنے سائز میں خبر چھپوائی جائے خدا ہم پر رحم کرے۔ یہ جمہوریت ہے یا فاشزم۔ یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ چند سال بعد ایسا واقعہ بھی پیش آیا کہ جنگ اخبار چھپا ضرور لیکن ایم کیو ا یم والوں نے یہ حکم جاری کر دیا کہ پرچہ پریس سے باہر نہیں آئے گا۔اگلے روز کراچی میں اخبار تقسیم ہوا نہ حیدر آباد یا دوسرے شہروں میں جا سکا۔ بعد ازاں ”صلح صفائی“ کے لئے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر اگلے روز جنگ کی ترسیل کراچی میں اور باہر کے شہروں تک ممکن ہو سکی۔ اللہ معاف کرے میں کسی سیاسی جماعت کا حامی ہوں نہ مخالف لیکن مجھے ایک بات کا یقین ہے کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں سیاسی اور مذہبی جماعتیں سب سے بڑے اخبار کو ا پنی مرضی سے چلانا چاہتی تھیں میر صاحب کتنا ذہنی دباﺅ برداشت کرتے تھے اور مجھے یقین ہے کہ ان کی طبیعت کی ناسازی پر بلکہ دل کے عارضے کا بڑا سبب وہ ذہنی دباﺅ تھا جسے بڑے میر صاحب کو مسلسل برسوں تک برداشت کرنا پڑا۔ انہوں نے کبھی جتلایا نہیں لیکن میں چونکہ خود ایڈیٹر، پرنٹر، پبلشر رہا ہوں اور مجھے احساس ہے کہ وہ کس کرب سے گزرے ہوں گے۔
مجھے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے جنگ لاہور میں جنگ فورم کے نام سے ایک اور شعبہ بھی میرے پاس تھا جس میں لاہور میں باہر سے آنے والے معزز مہمانوں کو دعوت دی جاتی تھی۔ ایم کیو ایم کے ا یک رہنما عظیم احمد طارق لاہور آئے تو میں نے حسب معمول انہیں دعوت دی۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے اہم لوگوں کو بلایا اور کہا کہ آپ ہمارے مہمان سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو پوچھیں عظیم چودھری جنگ اخبار سے منسلک ایک رپورٹر تھے جنہوں نے ایک بہت بڑی خبر بریک کی تھی کہ ضیاءالحق صاحب عوامی ریفرنڈم کروائیںگے وہ بھی ہال میں موجود تھے۔ وہ لاہور کارپوریشن کے کونسلر بھی رہے تھے۔ انہوں نے عظیم احمد طارق سے سوال کیا کہ ایم کیو ایم کے لیڈر کراچی میں موجود پنجابیوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ کیا آپ لوگ پنجابیوں کو کراچی سے نکالنا چاہتے ہیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لاہور والے یہاںآباد اردو سپیکنگ حضرات کو کراچی بھیجنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ سوال کو صاف کر سکوں لیکن عظیم چودھری صاحب کچھ زیادہ ہی جوش میں آ چکے تھے اور ایم کیو ایم لیڈروں کی زبانی کچھ ایسے جملے سنا رہے تھے جن میں کراچی میں موجود پنجابیوں کے بارے میں کچھ جارحانہ انداز اختیار کیا گیا تھا۔ عظیم احمد طارق نے کہا پنجاب میں مہاجروں کا کوئی مسئلہ نہیں یہ لوگ مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں۔ عظیم چودھری نے اٹھ کر کہا کہ پنجابی بھی برسوں سے کراچی میں آباد ہیں اور وہاں کے لوگوں سے گھل مل چکے ہیں۔ پھر مہاجر کی تعریف پر جھگڑا شروع ہو گیا۔ کچھ اور لوگوں نے بھی ایم کیو ایم کے اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا کہ مہاجر وہ ہے جو اردو سپیکنگ ہو اور کراچی اور سندھ میں آباد ہوا ہو۔ مشرقی پنجاب سے پنجابی جو پاکستان آئے تھے انہیں ہم مہاجر نہیں مانتے۔ اس پر شور شرابا شروع ہو گیا۔
(جاری ہے)