بڑی مشکل سے میں نے صورتحال پر قابو پایا اور عظیم احمد طارق صاحب کو گفتگو جاری رکھنے کے لئے کہا۔ میں نے کہا یہ ہمارے مہمان ہیں اور ہمیں مہمان کی بات عزت و احترام سے سننی چاہیے۔ فورم کے اختتام پر عظیم احمد طارق اوپر میرے ساتھ کمرے تک آئے اور وہیں سے انہوں نے جنگ کراچی میں فون کر کے میر خلیل الرحمن صاحب سے بات کی۔ ان کا موقف تھا کہ پلان بنا کر سازش کے تحت ان پر مخالفانہ سوال کروائے گئے ہیں۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ اب آپ میر صاحب کو فون کریں۔ میرے محترم میر خلیل الرحمن صاحب سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ جنگ میں ملازمت سے پہلے بھی میں پانچ سال نوائے وقت کراچی کا ایڈیٹر رہا تھا اور ان سے آئے دن مختلف تقریبات میں ملاقات رہتی تھی۔ وہ مجھ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ میں نے پوری ذمہ داری سے اپنا فرض ادا کیا ہے البتہ ہمارے ایک رپورٹر نے ضرور ا ن سے دو تین تیز سوال کئے تھے جو سامعین میں بیٹھے تھے۔ دوسرے لوگوں نے بھی مہاجر کون ہے اس مسئلے پر بحث کی تھی۔ ہم اپنے کسی مہمان کے خلاف کوئی سازش کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے بہرحال بعد میں خاموشی چھا گئی تھی اور طارق صاحب نے اپنی بات اطمینان سے مکمل کی۔ میر صاحب نے میری بات سن کر مجھ سے کہا بہرحال آپ لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آپ کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے اور اس شہر کے حالات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ میں نے عظیم احمد طارق صاحب کو اپنے کمرے میں چائے پلائی اور ان کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ سیاستدان بہرحال سیاستدان ہوتے ہیں انہوں نے کراچی پہنچنے کے بعد بھی اس مسئلے کو بہت اٹھایا میں بخوبی سمجھ سکتا تھا کہ میر صاحب پر اس سلسلے میں بہت دباﺅ ہو گا لیکن خدا جانتا ہے کہ یہ صورت حال غیردانستہ تھی ۔ اس وقت کراچی کا جو مزاج اور ماحول تھا اب وہ بڑی حد تک بدل گیا ہے ورنہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں اخبارات کو بری طرح سے دباتی تھیں اور اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہی کام جو کراچی میں ایم کیو ایم اور بعض دوسری جماعتوں کے پاس تھا اس سے ملتا جلتا طرز عمل پنجاب میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کے سپرد رہا ہے اور اخبارات کے ایڈیٹروں پر ان کی طرف سے میڈیا پر پریشر بہت برسوں تک قائم رہا جو طالبان اور دہشتگردوں کے خلاف مہم کے بعد تھوڑا سا کم ہوا ہے۔
اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے میں ایک بار پھر میر خلیل الرحمن کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتا ہوں کہ وہ کراچی میں بیٹھتے تھے اور مجھے وہ واقعہ بھی یاد ہے جب میری موجودگی میں چندریگر روڈ سے ایک بڑے جلوس نے جنگ کے دفتر کا گھیراﺅ کیا اور خود میر صاحب کے خلاف بینر اٹھا کر نعرے لگائے اور گالیوں کی حد تک بات پہنچ گئی۔ میر صاحب نے فون پر ہدایت کی کہ فوٹو گرافر اور رپورٹر نیچے جائیں اور جو یہ کہتے ہیں وہ لکھیں اور ان کی تصویریں بنائیں۔ میرے پوچھنے پر میر صاحب نے کہا یہ کراچی ہے یہاں آئے دن یہی ہوتا ہے۔ جو لوگ مجھے گالیاں دے رہے ہیں بہرحال ان کا بھی جنگ پر حق ہے۔ ہمیں ان کی بات سننا پڑے گی اور ان کا نقطہ نظر چھاپنا ہوگا۔ میر صاحب نے اپنی ساری زندگی ہر قسم کا پریشر برداشت کیا۔ صدر ضیاءالحق کے ابتدائی دور میں انگریزی ہفت روزہ ”میگ“ میں ایک فحش گالی چھپ گئی۔ راجہ ظفرالحق صاحب وزیر اطلاعات اور جنرل محب الرحمن سیکرٹری اطلاعات تھے لیکن ”انصاف“ کا یہ عالم تھا کہ صرف” میگ “پر نہیں بلکہ ساری افتاد جنگ گروپ پر آن پڑی۔ جنگ کا بزنس بند کر دیا گیا اور ہر طرف سے گھیراﺅ شروع ہو گیا۔ کئی ہفتے یہ صورت حال جاری رہی میں اس وقت کراچی نوائے وقت سے منسلک تھا لیکن مجھے ایک ایک دن کی صورتحال ا چھی طرح یاد ہے ہو سکتا ہے کسی سرکاری ایجنسی نے ہی میگ میں یہ جملہ چھپوا دیا ہو۔ میر صاحب نے بڑی حکمت عملی، مستقل مزاجی سے ہر مشکل کا مقابلہ کیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے بارے میں ان کا ایک متعین پیمانہ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ حکومت کو 60 سے 70 فیصد تک نمائندگی ملنی چاہیے اور اپوزیشن کو 30 سے 40 فیصد تک۔ جب اپوزیشن اور حکومتی پارٹی آمنے سامنے آ جائیں تو آپ اپوزیشن کا کوٹہ بڑھا دیں۔ اخبار سب جماعتوں کو یکساں اہمیت دیتا ہے لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ عوام کس طرف ہیں کیونکہ آپ کو عوام میں رہنا ہے جس طرح مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی اسی طرح آپ اخبار والے عوامی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے ساتھ چلتے ہیں۔
مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا، میں ٹیپ ریکارڈر لے کر گیا اور ڈاکٹر مبشر حسن کا کسی مسئلے پر انٹرویو کیا۔ واپس آ کر میں نے ایک ایک لفظ اسی طرح لکھا جس طرح ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا۔ وہ سینئر سیاستدان اور بزرگ دانشور ہیں۔ میں ویسے بھی ان کی بہت عزت کرتا تھا لیکن اگلے دن وہ جنگ کے دفتر آئے۔ میر شکیل الرحمن کا کمرہ ابھی اوپر نہیں بنا تھا اور وہ سیڑھیوں کے درمیان بنے ہوئے کمرے میں بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی آمد پر شکیل صاحب نے مجھے بلایا۔ مجھے پتا چل گیا تھا کہ ڈاکٹر مبشر صاحب میری شکایت لے کر آئے ہیں۔ میں ٹیپ ریکارڈر ساتھ لے کر گیا اور ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ آپ خود سن لیں جو کچھ آپ نے کہا میں نے وہی چھاپا ہے۔ اتفاق سے اسی وقت دروازہ کھلا اور بڑے میر صاحب جو کراچی سے آئے ہوئے تھے اندر آ گئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کی بات بڑی دلچسپ تھی انہوں نے کہا ضیا! میں مانتا ہوں کہ میں نے یہ کہا لیکن یہ میرا حق ہے کہ میں آج کہوں کہ میں نے یہ نہیںکہا تھا۔ تم میرے اس حق کو ختم نہیں کر سکتے۔ میں کہتا ہوں جو تم نے لکھا وہ میں نے نہیں کہا۔شکیل صاحب خاموش بیٹھے رہے۔ میر صاحب نے ساری بات سن کر فیصلہ ڈاکٹر صاحب کے حق میں دے دیا۔ میں نے بڑی بحث کی کہ آپ یہ ٹیپ سن لیں ڈاکٹر صاحب بولے ٹیپ ریکارڈر کی عدالت میں بھی کوئی گواہی تسلیم نہیں کرتا۔ میں نے کہا میری زندگی میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی نے میری تحریر کو چیلنج کیا ہے۔ میں انتہائی محتاط آدمی ہوں اور حتیٰ المقدور ایک لفظ بھی تبدیل نہیں کرتا۔ میر صاحب کا فیصلہ میرے خلاف آیا۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ٹیپ ریکارڈر کی گواہی ایک طرف۔ لیکن اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ بات نہیں کہی تو اس کا حق ہے کہ اس کی تردید چھاپی جائے لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے بولنا شروع کیا اور میں نے لکھنا جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے یہ نہیں یہ کہا ہے۔
میر صاحب دوسروں کے حقوق کی پاسداری میں انتہا تک چلے جاتے تھے لیکن وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے۔ جب یہ نشست ختم ہوئی تو وہ میرے کمرے میں آئے میں بہت غصے میں تھا وہ مجھ سے بڑے تھے اور میں ان کا بہت احترام کرتا تھا لیکن وہ دو اڑھائی گھنٹے تک میرے پاس بیٹھے رہے اور مجھے حوصلہ دیتے رہے۔ انہوں نے کہا دیکھیں کسی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بیان کی وضاحت یا تردید کر سکے۔ مجھے پتا ہے کہ آپ سچ بول رہے ہو جس کی گواہی بھی آپ کے پاس کیسٹ کی شکل میں موجود ہے لیکن دیکھو یہ ڈاکٹر صاحب کا حق ہے اور ہمیں اسے تسلیم کرنا ہوگا۔
(جاری ہے)