مجھے یاد نہیں کہ نوابزادہ نصر اللہ خان نے کب سیاست شروع کی کیونکہ جب میں نے ہوش سنبھالا نوابزادہ صاحب سیاست میں تھے اور اس وقت کی حکومت کے خلاف جنگ کر رہے تھے۔ حکومتیں بدلیں، سیاسی ادوار تبدیل ہوتے رہے مگر نوابزادہ جوں کے توں رہے۔ وہ پاکستانی سیاست کی ڈکشنری تھے کسی کو کسی دور کے بارے میں کچھ جاننا ہوتا تو وہ نوابزادہ سے رجوع کرتا۔ نکلسن روڈ پر ایک چھوٹے سے گھر میں جمہوریت بارے سبق دینے والے نوابزادہ نے کم وبیش 50 برس تک جمہوریت پر لیکچرز دیئے اور طالب علموں اور سیاسی کارکنوں کی رہنمائی کی۔ ان کا انداز بہت سادہ اور دلنشین ہوتا تھا۔ وہ نثر کی بجائے گویا نظم میں گفتگو کرتے تھے اور اردو کی کلاسیکل شاعری میں بار بار شعر پڑھتے ان کے انداز تکلم میں احراری لیڈروں کی سی شان بان تھی اور معلومات کا جو خزانہ خدا نے ان کو بخشا تھا وہ اسے زندگی بھر لٹاتے رہے۔
گھر بہت سادہ تھا انکا بیڈ روم میں سٹینگ روم تھا اور بیڈ کے علاوہ اس میں صوفے رکھے ہوئے تھے۔ نوابزادہ صاحب سے ملنے کیلئے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ دن ہو یا رات یارلوگ بغیر وقت مقرر کیے اس یونیورسٹی میں جب چاہے آ سکتے تھے ماضی کی سیاست ہو یا حال کے مسئلے نوابزادہ صاحب کی گرفت ماضی اور حال پر بڑی مضبوط تھی۔ کبھی کبھار جوش میں آ جاتے تو ماضی اور حال پر یہ دسترس مستقبل کیلئے پیشگوئی بھی بن جاتی۔ ہم نے انہیں جب بھی دیکھا حکومت وقت کی دھجیاں اڑاتے دیکھا۔ وہ پارلیمانی جمہوریت کے دلدادہ تھے اور آئین وقانون کے عاشق تھے۔
ملتان سے میٹرک کرنے کے بعد میں نے لاہور میں داخلہ لیا تو دوستوں نے آثار قدیمہ دکھانے کے بعد علم و فکر اور حکمت و دانائی کی یونیورسٹی میں داخلے کا راستہ بھی بتایا۔ نواب زادہ صاحب اتنی محبت سے ملے جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔ ایوب خان کا زمانہ تھا اور نواب زادہ صاحب ایوب خان پر برس رہے تھے غضب خدا کا وہ بولے مارشل لا کا نفاذ تو ایسا ہے جیسے آپ اپنے گھر کے لئے تنخواہ پر چوکیدار رکھیں اور وہ پورے گھر پر قبضہ کر لے اور بندوق کے زور پر آپ کی حفاظت کرنے کی بجائے گھر کے مال و اسباب کا مالک بن جائے۔ کیا آپ اسے ڈاکو نہیں کہیں گے۔ انہوں نے عوام کے ایک بڑے حصے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ صاحبو! کچھ بیوقوف اس بات پر خوش ہیں کہ گوشت بیچنے والوں نے گوشت کے گرد جالیاں لگا دی ہیں۔ سارے ادارے ختم کر دیئے گئے۔ عوام سے ان کے حقوق چھین لئے گئے۔ مارشل لا کا مطلب ہے (No Law) یہ آمریت کی بدترین شکل ہے۔ پھر وہ دیر تک اپنے ہی ملک پر قبضہ کرنے والی فوج کو یاد دلاتے رہے کہ اسے کس لئے اور کس نوکری پر رکھا گیا تھا۔
وقت گزرتا چلا گیا اور نواب زادہ صاحب جن کی اپنی پارٹی ایک ننھی منی جماعت تھی لیکن نواب زادہ صاحب قدآور سیاستدان تھے اور حکومت کے خلاف کوئی تحریک ان کے بغیر چلتی نہیں تھی۔ نہ جانے کتنی بار متحدہ اپوزیشن کی قیادت کا فریضہ نواب زادہ صاحب نے ادا کیا اور نہ جانے کس کس دور میں وہ نئے قائم ہونے والے اتحاد کے سربراہ بنے۔ اس کی تفصیل ہم لوگ انہی سے پوچھا کرتے تھے۔ جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور سیاست کی تاریخ میں وہ پی ایچ ڈی تھے۔ کسی دور کا ذکر کریں جہاں سے آپ چاہیں وہ وہیں سے روداد سنانا شروع کر سکتے تھے۔ ہر واقعے کے پیچھے جو محرک ہوتا تھا وہ تفصیل سے سناتے اور ایک بات سے دوسری بات نکلتی چلی جاتی۔ ان کی یونیورسٹی میں وقت کی کوئی قید نہ تھی اور ٹائم ٹیبل بھی نہ تھا۔ آپ دن کے کسی حصے میں بھی جائیں گفتگو شروع ہوتی تھی آپ بھی موضوع زیر بحث پر کوئی سوال کر کے ان کے کبھی نہ ختم ہونے والے لیکچر میں شامل ہو سکتے تھے۔ ان کا انداز بیان انتہائی دلفریب اور دلنشیں ہوتا تھا۔ ایک اتحاد پھر دوسرا پھر تیسرا اتحاد بنانے میں وہ مہارت رکھتے تھے۔ اگر وہ اتحاد کے نمبر ون نہیں تو نمبر ٹو ضرور ہوتے۔ گفتگو کے دوران چائے چلتی رہتی اور اگرچہ نواب زادہ صاحب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ صرف نام کے نواب تھے اور ان کی مالی حالت اپر مڈل کلاس کے زمیندار سے زیادہ نہ تھی لیکن کھلانے پلانے میں اور حاضرین کی مہمان نوازی میں انہیں خوشی ہوتی۔ سادہ چائے اور زیادہ سے زیادہ بسکٹ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے شاگرد مخصوص تھے۔ کچھ سیاسی کارکن، کچھ فارغ التحصیل نوجوان اور زیادہ تر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سینئر کلاسوں کے طلباء، مجلس عمل ہو یا تحریک بحالی جمہوریت یا پھر آخری بڑا اتحاد جو بھٹو صاحب کے خلاف بنا اور جسے پاکستان قومی اتحاد کہا جاتا ہے وہ ہر اتحاد کے مرکزی رہنما ہوتے اور اس کی وجہ ایک تو ان کی فل ٹائم ’’موجودگی‘‘ ہوتی تھی تو دوسری طرف بہترین ترجمان ہونے کی صلاحیت۔ یوں بھی دیگر بڑی جماعتوں کی قیادتیں ایک دوسرے کے پیچھے کھڑی ہونے پر تیار نہ ہوتی تھیں جبکہ نوابزادہ صاحب کی اپنی سیاسی جماعت بہت مختصر تھی اور اتحاد میں لیڈر شپ حاصل کرنے کے باوجود اس پر قبضہ نہیں کر سکتے تھے اس لئے ان کی قیادت پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔
کبھی کبھار نواب زادہ صاحب سیاسی نظم یا غزل بھی کہتے تھے جو ہاتھوں ہاتھ اخبار والے لے جاتے اور نیوز کے صفحے پر بڑی نمایاں انداز میں چھاپتے اور پھر کئی کئی روز تک اس کے اشعار ایک دوسرے کو سنائے جاتے اور ان کے منظوم خیالات پورے ملک میں پھیل جاتے۔ نواب زادہ صاحب کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز پر تو پانچ سو صفحات کی سوانح عمری بھی کم ہو گی اس مختصر مضمون میں ان کی بھرپور زندگی کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ایک بات واضح ہے کہ ان کی کوئی تحریک یا اتحاد حکومت وقت کے حق میں نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ وہ ازلی اور ابدی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ پاکستان قومی اتحاد یعنی پی این اے جو بھٹو صاحب کی انتخابات میں دھاندلی کے نتیجے میں بنا مشہور ہے کہ مال روڈ پر ہائیکورٹ کے دروازے کے سامنے پولیس نے ان پر لاٹھیاں برسائیں تو چودھری ظہور الٰہی کی بیٹی قیصرہ نے جو خواتین کا الگ جلوس لے کر آ رہی تھیں انہیں گھیر لیا اور پُرجوش خواتین نے انہیں بچانے کے لئے خود پر لاٹھیاں کھائیں۔ قیصرہ بعد میں چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ بنیں۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دنوں میں انہوں نے بڑی بہادری سے بھٹو صاحب کی پولیس کا مقابلہ کیا الیکشن کے بعد ایک موقع پر راولپنڈی کے پرل کانٹی نینٹل میں متحدہ اپوزیشن نے بھٹو صاحب کے خلاف مخالفانہ پریس کانفرنس کی تو اتفاق سے میں بھی راولپنڈی میں تھا اور میں نے قریب سے اس لیڈر شپ کو سنا اور سوالات کئے۔ نواب زادہ صاحب کے علاوہ سیدہ عابدہ حسین نے بھی بڑی تفصیل سے بھٹو صاحب کے ظلم و ستم کی کارروائیاں بیان کیں۔ پریس کانفرنس میں لاڑکانہ کے بھٹو مخالف گلزار انہڑ بھی شامل تھے اور سیدہ عابدہ حسین نے بتایا تھا کہ کس طرح ان کی ٹانگ پر بم باندھ کر ان سے پیسے طلب کئے تھے۔ آخر میں نواب زادہ نصراللہ خان نے کہا مجھے جُملے تک یاد ہیں وہ بولے دیکھیں جی! حد ہو گئی اور ثابت ہو گیا کہ پاکستان اور بھٹو ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پھر اپنے الفاظ پر زور دے کر اور انہیں دہراتے ہوئے گویا ہوئے نہیں رہ سکتے جی۔ پاکستان کو آگے چلنا ہے تو بھٹو صاحب سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ وہ فاشسٹ ہیں اور جہاں تک وہ پہنچ چکے ہیں وہاں سے واپسی ناممکن ہے۔
پھر یوں ہوا کہ اچانک نواب زادہ صاحب بدل گئے۔ چند برس بعد نوازشریف صاحب کی حکومت تھی کہ نواب زادہ صاحب کی اگلی پریس کانفرنس میں بھی اتفاق سے میں موجود تھا۔ ساری عمر کی اپوزیشن کے باوجود یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے دھڑا تبدیل کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا نہیں جی! یہ ثابت ہو گیا کہ نوازشریف اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے، نہیں چل سکتے جناب! کچھ عرصہ بعد یہ وقت بھی آیا کہ نواب زادہ صاحب کے لئے پیپلزپارٹی کی حمائت کے دروازے کھل گئے۔ ان کے بیٹے نواب منصور کو پنجاب میں وزیر مال بنایا گیا اور چند ہی ماہ بعد ان کی رشوت ستانی کے بہت سے قصے مشہور ہوئے جو ان کے مخالفین بیان کرتے تھے۔ الزامات تھے یا حقیقت میں نے اس کی تحقیق کی نہ اس کی کبھی ضرورت پیش آئی ۔ نواب زادہ صاحب کو بینظیر بھٹو نے کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا دیا حالانکہ دنیا بھر میں کشمیر کمیٹی کے لئے مختلف ملکوں کی پارلیمنٹوں سے نوابزادہ صاحب کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ انہی دنوں میں آخری مرتبہ نکلسن روڈ والے دفتر اور گھر گیا۔ میں پوچھنا چاہتا تھا کہ عمر بھر بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلانے والے نواب زادہ نصراللہ خان پیپلزپارٹی کے حق میں کیسے ہو گئے اور اسلام آباد کیوں جا بسے۔ ان کا دفتر اور گھر یکسر بدل چکا تھا اور پہچانا نہیں جاتا تھا۔ دفتر سے پلنگ اٹھ چکا تھا اور نئے بیش قیمت صوفہ سیٹس کے باعث ظاہری حالت تبدیل ہو چکی تھی۔ پی اے کے کمرے سے چارپائی بھی اٹھ چکی تھی۔ گھر نئے رنگ وروغن سے مزین تھا۔ ہر چیز نئی تھی اور نواب زادہ صاحب دو نوجوانوں کو بتا رہے تھے کہ بینظیر بھٹو صحیح معنوں میں جمہوریت پسند ہیں۔ جبکہ نوازشریف کی آمریت پسندی کے ساتھ پاکستان نہیں چل سکتا۔ جی ہاں نہیں چل سکتا۔ مجھے دھچکا سا لگا۔ نواب زادہ صاحب کے کپڑے بھی نئے تھے اور ان کے جسم پر پھب نہیں رہے تھے۔ میں نے برسوں کی شناسائی کے باوجود ان کے لئے دل میں جو محبت تھی اس کے باعث کچھ کہنے کی ہمت نہ کی شاید اقتدار کی روشنیوں نے سدا بہار اپوزیشن لیڈر کو گہنا دیا تھا۔ میں خاموشی سے اٹھا اور باہر چلا آیا جہاں ایک بوڑھا کچھ لوگوں کو جمع کر کے فریاد کر رہا تھا کہ برسوں سے نہ نواب زادہ صاحب کرایہ دیتے ہیں اور نہ میرا مکان خالی کرتے ہیں۔ میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر اور انہیں بند کر کے اپنی گاڑی تک پہنچا۔ میرے دل و دماغ میں بنا ہوا ایک بُت ٹوٹ رہا تھا۔