قارئین! میں نے ملکہ ترنم نورجہاں کے بارے میں گزشتہ اقساط میں معروف صحافی خالد حسن کا ذکر کیا ہے جو پاکستان ٹائمز میں چیف رپورٹر تھے بعدازاں بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری بنے آخر میں واشنگٹن میں اے پی پی کے بیورو چیف بن کر چلے گئے علاوہ ازیں امریکہ میں قیام کے دوران اے پی پی سے الگ ہونے کے بعد وہ لاہور کے انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز کے ساتھ ساتھ ہمارے ادارے روزنامہ ”خبریں“ کے بیورو چیف بھی رہے۔ خالد حسن کے ایچ خورشید کی بیگم ثریا خورشید کے چھوٹے بھائی تھے۔ پاکستان ٹائمز میں سینئر رپورٹر تھے تو نورجہاں پر انہوں نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی ذیل میں اس کتاب سے ماخوذ چند مزید حقائق پیش خدمت ہیں۔
خالد حسن لکھتے ہیں:
”نورجہاں قصور کی رہنے والی تھیں والد کا نام مدد علی اور ماں کا نام فتح بی بی تھا۔ ان کا اپنا نام اللہ وسائی تھا ان کی چھ بہنیں تھیں جن میں عیدن(نغمہ نگار تنویر نقوی کی بیگم)، بی بی گلزار، امینہ بیگم، بہارو، عبدہ مشین (مشین) کا خطاب اسے گانے میں مہارت پر ملا تھا۔ نورجہاں کے سات بھائی تھے، میاں نواب دین، غلام محمد، گھلو، محمد حسین، صدیق، عنایت حسین اور محمد شفیع۔ ان میں سے تین بھائی پاگل ہو کر مرے۔ نورجہاں اس پورے خاندان کی دیکھ بھال کرتی تھی اور بچپن ہی سے کما کر دیتی تھی۔ گلوکارہ عذرا جہاں اور سائرہ نسیم بھی نورجہاں کی قریبی رشتہ دار ہیں اور اس کے خاندان سے ہیں۔
نورجہاں کوہ نور یونائیٹڈ آرٹسٹس میں شامل ہوئیں۔ ان کے پہلے ہیرو خلیل تھے بعد ازاں وہ شاردا فلم کمپنی میں چلی گئیں چار سال کی عمر میں پہلی فلم میں کام کیا۔ خالد حسن لکھتے ہیں کہ میری 1967ءمیں نورجہاں سے طویل ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ اپنی شرائط پر کام کرتی تھیں۔ انہوں نے شوکت رضوی کے بعد اداکار اعجاز درانی سے شادی کی اور اس کی بے پناہ مالی مدد کی لیکن اعجاز نے بیوفائی کی اس کے باوجود نورجہاں نے سمگلنگ کے الزام میں گرفتار اور برطانیہ میں قید اعجاز درانی سے ملاقات کی اور امداد کا یقین دلایا۔ نورجہاں کا دل کا آپریشن بھی ہوا، وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ آواز خدا کی دین ہے۔ انہیں ڈر تھا کہ آپریشن کے بعد شاید وہ گا نہ سکیں گی چنانچہ وہ خود کو ٹیسٹ کرنے کے لئے 40منٹ تک گاتی رہیں بعد میں دیر تک خدا کا شکر ادا کرتی رہیں۔
خالد حسن نے یہ بھی لکھا ہے کہ نورجہاں نے مجھے بتایا کہ پندرہ سال کی عمر میں وہ ماں بن گئی تھیں لیکن میںنے تاریخوں سے حساب لگایا کہ یہ واقعہ 17 سال کی عمر میں پیش آیا۔ 1943ءمیں انہوں نے شوکت رضوی سے شادی کی۔ رضوی نے ان کی تعلیم کے لئے ریاض نامی ایک استاد رکھا جو روزانہ لکھنا پڑھنا سکھانے آتا تھا۔ نورجہاں کہتی ہیں کہ مجھے لکھائی پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہ تھی جس پر میری ماں نے پہلی بار مجھے مارا اور کہا نوری! تمہیں پڑھنا پڑے گا۔ نورجہاں نے بابا غلام محمد چشتی کی موسیقی میں لاہور میں سٹیج پر گانے کا آغاز کیا۔ پہلی نعت پڑھی جس کے الفاظ یہ تھے ”ہنستے ہیں ستارے یا شاہِ مدینہ“ پھر نورجہاں اپنے گھر والوں کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں اور گونگی فلم (بغیر آواز کے) ہند کے ستارے میں کام کیا۔ پھر وہ بمبئی چلی گئیں اور خاموش فلموں میں اداکاری کرتی رہیں ان میں گڈبائی کنگ، جنگ دولت، میجک آف لو، نیکلس، پرتھوی راج، شالی واں، مسنگ اوون، عالم آرا (پہلی بولتی ہوئی فلم) پنڈ دی کڑی، مسنگ ایکسپریس، سسی پنوں اور انڈیا میں ان کی آخری فلم مرزا صاحباں مشہور ہوئیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آب حیات، انتقام، بلیک ٹائیگر، غریب کا پیار، قسمت، مان اوتار، دانی سمراٹ، ویر بھارت، شیرہند، علاﺅ الدین دوئم، آج کا علاﺅالدین، گھر جوائی، جان عالم، انجمن آرا، پریم پریتما، کالا سوار، کاروانِ حُسن، مصر کا ستار، رنگیلا، دھرم، رومانٹک انڈیا، توپ کا گولہ، مسٹر اینڈ مسز بمبئی، آدرش مہلا، بسمل کی آرزو، چابک سوار، فخر اسلام، جواہر ہند، پرکھ، مسز 420، سروجنی، ترن ہار، دھرم چاری، ہیر سیال، پریتما، کمانڈر، شریف ڈاکو، نہ ہونے والی بات وغیرہ میں کام کیا۔ خاموش اور بولتی ہوئی 127 انڈین فلموں میں نورجہاں نے گانے گائے اور 1932 سے 1947 تک 69 فلموں میں کام کیا۔ ان میں سے 55 فلمیں بمبئی میں ایک کلکتہ میں پانچ لاہور میں ایک رنگون(برما) میں بنی۔ پاکستان آنے کے بعد 1951ءمیں انہوں نے چن وے، دوست، گلنار، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار، نورجہاں، چھو منتر، انارکلی، پروین، کوئل اور آخر میں مرزا غالب میں بطور اداکارہ اور گلوکارہ کام کیا۔ پاکستان میں وہ چار پنجابی اور نو اردو فلموں میں جلوہ گر ہوئیں۔ اکبر اور اصغر دو بیٹے اور ظل ہما ایک بیٹی تھی۔ اعجاز سے ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
خالد حسن لکھتے ہیں کہ 1965ءکی جنگ میں انہوں نے صوفی تبسم کے لکھے ہوئے گیت گائے جن میں کرنیل نی جرنیل نی، میرا سوہنا شہر قصور اور ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، تینوں گیت صوفی تبسم کے لکھے ہوئے تھے۔ ان دنوں کا ایک واقعہ خالد حسن یوں لکھتے ہیں کہ ایک دن صوفی تبسم نے مذاق میں ان سے کہا، آپ میرے ساتھ قصور چلیں اور وہاں گانا گائیں۔ نورجہاں نے ہنستے ہوئے جواب دیا صوفی جی! آج کل کرفیو لگا ہوا ہے اور سرحدوں پر بم پھٹ رہے ہیں۔ پھر پنجابی میں بولیں۔ جے تہاڈے اُتے، تے میرے تے بم ڈگ پیا تے تسیں تے میں ملبے تھلے دبے لبھے تے میرا تہاڈے نال سکینڈل بن جائے گا تے میں کسے نوں منہ وکھان جوگی نیں رہواں گی۔
خالد حسن کے بقول نورجہاں نے ان تین گیتوں کے علاوہ بھی جنگ کے دوران بہت سے گانے گائے۔ خالد حسن نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا جسے نورجہاں نے خود انہیں بتایا تھا۔ یحییٰ خان سے ان کی بہت بے تکلفی تھی اور یحییٰ خان ان کی محفل کو بہت پسند کرتے تھے۔ ایک دن یحییٰ خان نے جنرل حامد سے کہا۔ حام! اگر میں نوری کو چیف آف سٹاف بنا دوں تو وہ تم سب سے بہتر کام دکھائے گی۔ 1970ءمیں ایک مولانا صاحب نے نورجہاں کےخلاف فتویٰ بھی دیا۔
خالد حسن نے نورجہاں کی باقاعدہ شادیوں کے علاوہ طویل دوستیوں پر بھی قلم اٹھایا۔ پنجابی فلموں کے معروف ولن مظہر شاہ سے ان کی گہری قرابت رہی۔ میوزک ڈائریکٹر نذیر علی بھی برسوں نور کی زلفوں کے اسیر رہے۔ دھنی رام روڈ لاہور کے ایک کراکری مرچنٹ کے ساتھ اس نے رات بھی گزاری۔ کئی سال اداکار یوسف خان کے ساتھ بھی بسر کئے۔ پی آئی اے کے پائلٹ اعجاز عالم سے بھی طویل رفاقت رہی، خالد حسن نے نورجہاں کے گہرے اور بے تکلف دوست حسن امین کا ذکر بھی کیا ہے جو ان کے زمانہ طالب علمی ہی سے عاشق تھے۔ حسن امین نے خالد حسن کو بتایا کہ پہلی بار نور کو میں نے گورنمنٹ کالج لاہور کے سٹیج پر دیکھا تھا جہاں انہوں نے گانا سنایا اور پرفارم بھی کیا۔ مجھے ان سے پیار ہو گیا۔ بعدازاں زندگی میں بار بار ان سے ملاقات ہوئی (حسن امین سے ان ملاقاتوں کا تذکرہ شوکت رضوی اور سعادت حسن منٹو کی کتابوں کے خلاصے میں درج ہے۔ خالد حسن کے بقول نورجہاں کی گہری دوستیوں میں چن وے کے ہیرو جہانگیر خان فلمی کیمرہ مین رضا میر (آصف رضا میر کے والد) اور ایم نسیم پاپولر پکچرز والے شامل ہیں۔ نسیم (پاپولر) بعد ازاں فلم ایکٹریس لیلیٰ کے شوہر بھی رہے۔ نسیم کے ساتھ نورجہاں کے کئی برس تک تعلقات رہے۔ نورجہاں فلمی میلے پر تاشقند گئیں تو وہاں سے انہوں نے چھ خطوط نسیم کو لکھے، ہر خط کے آخر میں ”آپ کی نورجہاں“،” آپ کی نورجہاں“، ”آپ کی نور“ لکھا بعد ازاں نسیم نے یہی خطوط شوکت رضوی کو دے دئیے اور شوکت صاحب کے طویل انٹرویو پر مشتمل کتاب نورجہاں کی کہانی شوکت حسین رضوی کی زبانی میں ان خطوط کے عکس بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
خالد حسن نے لکھا ہے کہ میں نے نورجہاں کے بارے میں بہت سی باتیں سنی اچھی بھی اور بری بھی لیکن میں ان کی گلوکاری کا اس قدر معترف ہوں کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے اس کے سکینڈلز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں نے گلوکارہ نورجہاں کو ساری عمر پسند کیا ہے۔ پہلے ان کے تین فلمی گیتوں کے بول سنیئے:
لٹ اُلجھی سلجھا جا رہے بالم یہ فلم سوال کا گیت، میرے ہاتھوں میں مہندی تھی، جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سوجا، ان گانوں کے موسیقار حسن لطیف تھے۔ نورجہاں سے ان کے اتنے دوستانہ تعلقات تھے کہ میڈم ان کے بارے میں ہمیشہ کہتی تھیں کہ ”وہ میرے گینگ کا آدمی ہے“۔ ان کے ایک دوست کا نام راجہ تجمل حسین تھا۔ نورجہاں نے ان کے بارے میں پنجابی زبان میں بتایا ”ناں ناں کردا وی او بڑا سوہنا لگدا اے“۔
نورجہاں کے یحییٰ خان سے تعلقات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ایک واقعہ سن لیجئے۔ بھٹو صاحب کی حکومت بنی تو پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات نے اس کےخلاف خبروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نورجہاں کا خیال تھا کہ بھٹو اس کے پیچھے ہیں۔ جن سے ایک بار یحییٰ خان کی مجلس میں نورجہاں سے تلخی ہو گئی تھی۔ نورجہاں نے بار بار مسٹر بھٹو سے ملنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ بھٹو صاحب نے وقت دینے سے انکار کر دیا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ قسطوں میں میں نے یہ واقعہ لکھا تھا کہ یحییٰ خان کی مجلس میں نورجہاں ان کے سامنے بیٹھی تھی اور جنرل گل حسن بھٹو صاحب کے ساتھ اونچی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ نورجہاں نے کہا چپ کرو تسیں کی ٹر ٹر لائی ہوئی اے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ بھٹو صاحب اس کے بارے میں شدید غصہ رکھتے تھے اور ان کے دور میں نورجہاں کے خلاف ٹیکس کے مقدمات بھی کھولے گئے۔ مساوات میں نورجہاں کے خلاف خبریں چھپیں تو بھٹو صاحب کے اپنے سٹاف میں سے کچھ لوگوں نے ان سے شکایت کی۔ بھٹو صاحب کا خادم خاص نور محمد مغل تھا جسے عرف عام میں نورا کہتے تھے۔ ایک دن اس نے مساوات اخبار اٹھایا جس میں نورجہاں کے خلاف خبر کے ساتھ اس کی تصویریں بھی چھپی ہوئی تھیں۔ نور محمد مغل نے بھٹو صاحب سے کہا صاحب جی! یہ حنیف رامے (ایڈیٹر مساوات) کو نورجہاں سے کیا دشمنی ہے۔ ہم تو ان کے گانے کے شیدائی ہیں۔ آپ یہ خبریں بند کروائیں۔ بھٹو صاحب نے رامے کو فون کیا اور کہا کافی ہو گیا اب بس کر دیں۔ اس طرح یہ سلسلہ بند ہوا۔
قارئین! خالد حسن کی کتاب میں وہ تمام واقعات جو شوکت رضوی کی کتاب اور سعادت حسن منٹو کی کتاب میں درج ہیں میں اس لئے نہیں دہرا رہا کہ قارئین انہیں ایک بار پڑھ چکے ہیں۔ خالد حسن کی کتاب آج کل مارکیٹ میں موجود نہیں لیکن انٹرنیٹ پر آپ اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اور 21صفحات پر مشتمل انگریزی میں لکھی جانے والی اس کتاب کو دیکھ سکتے ہیں۔ نورجہاں کے بارے میں مزید دو حوالے ضرور دوں گا۔ سب سے اہم شوکت حسین رضوی صاحب کے الزامات کے جواب میں نورجہاں نے کراچی کے ہفت روزہ ”پیمان“ کو ایک طویل انٹرویو دیا یہ انٹرویو ہفت روزہ ”پیمان“ کراچی میں 22 اقساط میں چھپا اور اس میں نورجہاں نے اپنے خلاف الزامات کا جواب دیا۔ ”پیمان“ اخبار جہاں کے سائز کا ہفت روزہ تھا اسے پی پی آئی نیوز ایجنسی کے مالک معظم علی نے شروع کیا تھا۔ معظم صاحب کے چھوٹے بھائی اسلم علی اس کے ایڈیٹر تھے اور روزنامہ ”خبریں“ کراچی کے موجودہ انچارج وحید جمال بھی ”پیمان“ کے عملے میں شامل تھے۔ یہ ہفت روزہ کب سے بند ہو چکا ہے تاہم ان اقساط پر مشتمل پرچوں کی تلاش جاری ہے۔ کامیابی ہوئی تو نورجہاں کی زبانی شوکت حسین رضوی اور دیگر افراد پر تابڑ توڑ حملوں کی تفصیل اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔ ایک اور حوالہ بھی بازار میں میسر نہیں ہے۔ یہ فلم آس اور آبرو کے ڈائریکٹر فلم شکوہ کے مصنف اور معروف صحافی علی سفیان آفاقی مرحوم کے قلم سے نورجہاں پر سلسلہ مضامین ہے جو کراچی کے ماہنامہ ”سرگزشت“ میں شائع ہوئے۔ یہ ڈائجسٹ سائز پر ایک دلچسپ ماہنامہ ہے جس میں فرسٹ پرسن میں مضامین چھاپے جاتے ہیں۔ علی سفیان آفاقی آخری عمر میں نوائے وقت گروپ کے ویکلی ”فیملی“ کے ایڈیٹر تھے۔ ان اقساط کے چھپنے پر نورجہاں نے جی بھر کے آفاقی کو گالیاں دیں۔ یہ بھی پرانا واقعہ ہے اور ہم ادارہ سرگزشت کے سربراہان سے رابطہ کر رہے ہیں۔ اگر سرگزشت کے پرانے پرچے مل گئے تو ہم ان مضامین سے بھی اخذ کردہ معلومات اپنے قارئین کے سامنے رکھیں گے۔ ”لاسٹ بٹ ناٹ دی لیسٹ“ لاہور ہی میں ایک ایسی شخصیت ماشااللہ حیات ہے لیکن عملاً گوشہ نشین ہو چکی ہے۔ یہ فلم ایکٹر اعجاز ہیں جو برسوں نورجہاں کے شوہر رہے۔ میڈم کی تین بیٹیوں کے والد ہیں۔ انہوں نے بے شمار فلموں میں کام کرنے کے علاوہ اپنی ذاتی فلمیں بھی بنائیں اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ اپنی کامیاب فلم ”دوستی“ کے پرنٹس والے ڈبوں میں ہیروئن چھپا کر لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ برطانیہ کی عدالتیں اصول و قوانین کے اعتبار سے بہت سخت ہیں۔ اعجاز صاحب کو کئی برس کی سزا ملی جو انہوں نے برطانوی جیل میں کاٹی اس دوران نورجہاں جو اگرچہ برسوں پہلے اعجاز سے الگ ہو چکی تھیں کیونکہ اعجاز اداکارہ فردوس کی زلفوں کے اسیر بن چکے تھے یا دوسرے معنوں میں فردوس اعجاز کو لے اڑی تھیں اس کے باوجود نورجہاں برطانیہ اعجاز سے جیل میں ملنے بھی گئیں۔ میں نے کئی بار اپنے فلم رپورٹر اشفاق حسین سے کہا کہ اعجاز صاحب سے رابطہ کریں لیکن وہ نورجہاں کے موضوع پر بات کرنے کےلئے تیار نہیں۔ اگر ہمارے رپورٹروں کی کوشش کامیاب ہو گئی تو ہم اعجاز صاحب سے بھی ان کی سابقہ بیگم کے حوالے سے یادداشتیں قلمبند کروائیں گے۔ اداکار اعجاز نے فردوس سے منہ موڑ کر ہدایتکار شریف نیئر کی بیٹی سے شادی کی جو تاحال ان کی بیگم ہیں۔ یہ خوبرو اداکار نورجہاں کی وجہ سے بہت آسودہ زندگی گزار کر خود بھی مال دار بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پریس والوں کے علاوہ عام لوگوں حتیٰ کہ فلمی حلقوں سے بھی الگ رہتے ہیں۔ ہیروئن کی سمگلنگ کا جو الزام ان کے ماتھے پر لگا شایداس کے باعث انہوں نے طویل چپ سادھ رکھی ہے