خالد حسن نے لکھا ہے کہ میں نے نورجہاں کے بارے میں بہت سی باتیں سنی اچھی بھی اور بری بھی لیکن میں ان کی گلوکاری کا اس قدر معترف ہوں کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے اس کے سکینڈلز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں نے گلوکارہ نورجہاں کو ساری عمر پسند کیا ہے۔ پہلے ان کے تین فلمی گیتوں کے بول سنیئے:
لٹ اُلجھی سلجھا جا رہے بالم یہ فلم سوال کا گیت، میرے ہاتھوں میں مہندی تھی، جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سوجا، ان گانوں کے موسیقار حسن لطیف تھے۔ نورجہاں سے ان کے اتنے دوستانہ تعلقات تھے کہ میڈم ان کے بارے میں ہمیشہ کہتی تھیں کہ ”وہ میرے گینگ کا آدمی ہے“۔ ان کے ایک دوست کا نام راجہ تجمل حسین تھا۔ نورجہاں نے ان کے بارے میں پنجابی زبان میں بتایا ”ناں ناں کردا وی او بڑا سوہنا لگدا اے“۔
نورجہاں کے یحییٰ خان سے تعلقات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ایک واقعہ سن لیجئے۔ بھٹو صاحب کی حکومت بنی تو پیپلز پارٹی کے اخبار مساوات نے اس کےخلاف خبروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نورجہاں کا خیال تھا کہ بھٹو اس کے پیچھے ہیں۔ جن سے ایک بار یحییٰ خان کی مجلس میں نورجہاں سے تلخی ہو گئی تھی۔ نورجہاں نے بار بار مسٹر بھٹو سے ملنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ بھٹو صاحب نے وقت دینے سے انکار کر دیا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ قسطوں میں میں نے یہ واقعہ لکھا تھا کہ یحییٰ خان کی مجلس میں نورجہاں ان کے سامنے بیٹھی تھی اور جنرل گل حسن بھٹو صاحب کے ساتھ اونچی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ نورجہاں نے کہا چپ کرو تسیں کی ٹر ٹر لائی ہوئی اے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ بھٹو صاحب اس کے بارے میں شدید غصہ رکھتے تھے اور ان کے دور میں نورجہاں کے خلاف ٹیکس کے مقدمات بھی کھولے گئے۔ مساوات میں نورجہاں کے خلاف خبریں چھپیں تو بھٹو صاحب کے اپنے سٹاف میں سے کچھ لوگوں نے ان سے شکایت کی۔ بھٹو صاحب کا خادم خاص نور محمد مغل تھا جسے عرف عام میں نورا کہتے تھے۔ ایک دن اس نے مساوات اخبار اٹھایا جس میں نورجہاں کے خلاف خبر کے ساتھ اس کی تصویریں بھی چھپی ہوئی تھیں۔ نور محمد مغل نے بھٹو صاحب سے کہا صاحب جی! یہ حنیف رامے (ایڈیٹر مساوات) کو نورجہاں سے کیا دشمنی ہے۔ ہم تو ان کے گانے کے شیدائی ہیں۔ آپ یہ خبریں بند کروائیں۔ بھٹو صاحب نے رامے کو فون کیا اور کہا کافی ہو گیا اب بس کر دیں۔ اس طرح یہ سلسلہ بند ہوا۔
قارئین! خالد حسن کی کتاب میں وہ تمام واقعات جو شوکت رضوی کی کتاب اور سعادت حسن منٹو کی کتاب میں درج ہیں میں اس لئے نہیں دہرا رہا کہ قارئین انہیں ایک بار پڑھ چکے ہیں۔ خالد حسن کی کتاب آج کل مارکیٹ میں موجود نہیں لیکن انٹرنیٹ پر آپ اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اور 21صفحات پر مشتمل انگریزی میں لکھی جانے والی اس کتاب کو دیکھ سکتے ہیں۔ نورجہاں کے بارے میں مزید دو حوالے ضرور دوں گا۔ سب سے اہم شوکت حسین رضوی صاحب کے الزامات کے جواب میں نورجہاں نے کراچی کے ہفت روزہ ”پیمان“ کو ایک طویل انٹرویو دیا یہ انٹرویو ہفت روزہ ”پیمان“ کراچی میں 22 اقساط میں چھپا اور اس میں نورجہاں نے اپنے خلاف الزامات کا جواب دیا۔ ”پیمان“ اخبار جہاں کے سائز کا ہفت روزہ تھا اسے پی پی آئی نیوز ایجنسی کے مالک معظم علی نے شروع کیا تھا۔ معظم صاحب کے چھوٹے بھائی اسلم علی اس کے ایڈیٹر تھے اور روزنامہ ”خبریں“ کراچی کے موجودہ انچارج وحید جمال بھی ”پیمان“ کے عملے میں شامل تھے۔ یہ ہفت روزہ کب سے بند ہو چکا ہے تاہم ان اقساط پر مشتمل پرچوں کی تلاش جاری ہے۔ کامیابی ہوئی تو نورجہاں کی زبانی شوکت حسین رضوی اور دیگر افراد پر تابڑ توڑ حملوں کی تفصیل اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔ ایک اور حوالہ بھی بازار میں میسر نہیں ہے۔ یہ فلم آس اور آبرو کے ڈائریکٹر فلم شکوہ کے مصنف اور معروف صحافی علی سفیان آفاقی مرحوم کے قلم سے نورجہاں پر سلسلہ مضامین ہے جو کراچی کے ماہنامہ ”سرگزشت“ میں شائع ہوئے۔ یہ ڈائجسٹ سائز پر ایک دلچسپ ماہنامہ ہے جس میں فرسٹ پرسن میں مضامین چھاپے جاتے ہیں۔ علی سفیان آفاقی آخری عمر میں نوائے وقت گروپ کے ویکلی ”فیملی“ کے ایڈیٹر تھے۔ ان اقساط کے چھپنے پر نورجہاں نے جی بھر کے آفاقی کو گالیاں دیں۔ یہ بھی پرانا واقعہ ہے اور ہم ادارہ سرگزشت کے سربراہان سے رابطہ کر رہے ہیں۔ اگر سرگزشت کے پرانے پرچے مل گئے تو ہم ان مضامین سے بھی اخذ کردہ معلومات اپنے قارئین کے سامنے رکھیں گے۔ ”لاسٹ بٹ ناٹ دی لیسٹ“ لاہور ہی میں ایک ایسی شخصیت ماشااللہ حیات ہے لیکن عملاً گوشہ نشین ہو چکی ہے۔ یہ فلم ایکٹر اعجاز ہیں جو برسوں نورجہاں کے شوہر رہے۔ میڈم کی تین بیٹیوں کے والد ہیں۔ انہوں نے بے شمار فلموں میں کام کرنے کے علاوہ اپنی ذاتی فلمیں بھی بنائیں اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ اپنی کامیاب فلم ”دوستی“ کے پرنٹس والے ڈبوں میں ہیروئن چھپا کر لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ برطانیہ کی عدالتیں اصول و قوانین کے اعتبار سے بہت سخت ہیں۔ اعجاز صاحب کو کئی برس کی سزا ملی جو انہوں نے برطانوی جیل میں کاٹی اس دوران نورجہاں جو اگرچہ برسوں پہلے اعجاز سے الگ ہو چکی تھیں کیونکہ اعجاز اداکارہ فردوس کی زلفوں کے اسیر بن چکے تھے یا دوسرے معنوں میں فردوس اعجاز کو لے اڑی تھیں اس کے باوجود نورجہاں برطانیہ اعجاز سے جیل میں ملنے بھی گئیں۔ میں نے کئی بار اپنے فلم رپورٹر اشفاق حسین سے کہا کہ اعجاز صاحب سے رابطہ کریں لیکن وہ نورجہاں کے موضوع پر بات کرنے کےلئے تیار نہیں۔ اگر ہمارے رپورٹروں کی کوشش کامیاب ہو گئی تو ہم اعجاز صاحب سے بھی ان کی سابقہ بیگم کے حوالے سے یادداشتیں قلمبند کروائیں گے۔ اداکار اعجاز نے فردوس سے منہ موڑ کر ہدایتکار شریف نیئر کی بیٹی سے شادی کی جو تاحال ان کی بیگم ہیں۔ یہ خوبرو اداکار نورجہاں کی وجہ سے بہت آسودہ زندگی گزار کر خود بھی مال دار بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پریس والوں کے علاوہ عام لوگوں حتیٰ کہ فلمی حلقوں سے بھی الگ رہتے ہیں۔ ہیروئن کی سمگلنگ کا جو الزام ان کے ماتھے پر لگا شایداس کے باعث انہوں نے طویل چپ سادھ رکھی ہے