کے ایچ خورشید کی کتاب ”میموریز آف جناح“ پہلے پہل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپی البتہ اس کا دوسرا ایڈیشن سنگ میل پبلیکیشنز نے 2001ءمیں شائع کیا۔ یہ کتاب اردو سے ترجمہ کی گئی اور مترجم کا نام تھا خالد حسن جن کے بارے میں ہم نے پہلے بتایا ہے کہ واشنگٹن میں قیام کے دوران وہ روزنامہ ”خبریں“ کے امریکہ میں بیوروچیف بھی رہے۔ خالد حسن خورشید کی بیگم ثریا کے چھوٹے بھائی تھے۔ انہوں نے کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ خورشید صاحب کی وفات 1988 میں ہوئی تھی اور اس سال ان کے لکھے ہوئے کاغذات کو میری بہن ثریا نے ترتیب دیا۔ میں ان دنوں ویانا میں مقیم تھا میری بیوی کا نام ج و الف ن ت الف تھا۔ میری بیوی جوانتا نے اسے ٹائپ کیا۔ میرے دوست خالد شیخ نے جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک ہیں، انہوں نے اس پر نظرثانی کی اور مسودے کو حتمی شکل دی۔ صحافی انعام عزیز نے جو اب دنیا میں نہیں رہے میری بہت مدد کی اور لندن سے اطہر علی نے بھی مجھے کافی ضروری کاغذات بھجوائے۔ شاہد ملک میرے کزن جو بی بی سی سے منسلک تھے انہوں نے تصاویر تلاش کیں۔ ویانا کے سید فیضی نے بھی اس بارے میں میری مدد کی۔ خورشید صاحب کے صحافی دوست آئی ایچ برنی نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے اسے چھپوانے کا بندوبست کیا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے پڑھا اور بعض غلطیوں کی اصلاح کی۔ سنگ میل کے شیخ نیاز احمد نے دوسرا ایڈیشن چھاپا۔ اس کتاب کے آغاز میں خورشید صاحب کے بارے میں خالد حسن کا اپنا تحریر کردہ مضمون بھی شامل ہے۔ خورشید ایک زندگی کے عنوان سے“ میں خالد حسن نے لکھا ہے کہ خورشید صاحب کا خاندان اگرچہ سری نگر کا رہنے والا تھا لیکن انہوں نے اپنا بچپن گلگت میں گزارہ جہاں ان کے والد مولوی محمد حسن ہیڈ ماسٹر تھے اور ان کی والدہ وزیر اپنے بچوں کے ساتھ وہیں رہتی تھیں۔ خالد حسن یہ بھی لکھتے ہیں کہ سری نگر میں کشمیر سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے خورشید صاحب نے سیاست کا آغاز کیا۔ وہ اورئینٹ پریس کے سری نگر میں نمائندے بھی رہے۔ اکتوبر 1947 میں وہ قائداعظم کے کہنے پر مقبوضہ کشمیر گئے جہاں شیخ عبداللہ کی حکومت نے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ لاہور میںانہوں نے جو اخبار نکالا وہ ہفت روزہ تھا۔ وہ ہفت روزہ بند ہو گیا تو خورشید صاحب کراچی چلے گئے جہاں سے فاطمہ جناح نے انہیں مالی مدد کر کے لندن اسی درسگاہ میں بار ایٹ لاءکرنے کے لئے بھیجا جہاں سے قائداعظم فارغ التحصیل ہوئے تھے اس درسگاہ کا نام لنکنز اِن ہے۔ واپس آ کر 1954 میں پریکٹس شروع کی۔ 1959 میں ایوب خان کے دور میں صدر آزاد کشمیر بنے جس کی اجازت محترمہ فاطمہ جناح نے خود دی تھی۔ 1964 میں شیخ عبداللہ پاکستان آئے لیکن پنڈت نہرو کی اچانک فوتیدگی کے باعث فورا واپس چلے گئے۔ 1964کے انتخابات میں خورشید صاحب جو آزاد کشمیر کی صدارت سے الگ ہو چکے تھے محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے انچارج بنے۔ انہوں نے آپریشن جبرالٹر کے نام سے پاکستانی فوج کی طرف سے آزادی کشمیر کے لئے مسلح جدوجہد کی مخالفت کی۔ 1962 میں جموں و کشمیر لبریشن لیگ قائم کی۔ وزارت امور کشمیر کا جوائنٹ سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر کا اصل حکمران ہوتا تھا کی شکایات کی بنیاد پر پاکستان ٹیلی ویژن نے خورشید صاحب کی تصویر خبر یا گفتگو نشر کرنے پر پابندی لگائی جو 1988 میں ان کی وفات تک جاری رہی۔
ثریا خورشید صاحبہ کا ایک مضمون بھی خورشید صاحب کے بارے میں میموریز آف جناح کے شروع میں شائع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے خورشید صاحب کی ذات کے حوالے سے کچھ باتیں کی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ بہت زیادہ سفر کرتے تھے۔ شاپنگ میں انہیں کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کا بہت شوق تھا۔ اچھا کھانا بہت پسند کرتے تھے خاص طور پر جب مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھایا جائے۔ خود بھی اپنی والدہ کی طرح بہت اچھا کھانا تیار کرتے تھے۔ اپنے بچپن کے واقعات سناتے کہ کس طرح وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گلگت میں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ان کی بیگم کہتی ہیں کہ وہ ڈاکٹروں کے پاس جانے سے بہت گریز کرتے تھے اور انگریزی دوائیوں کی بجائے ہربل دوائیں استعمال کرتے تھے۔ اور عمر بھر وہ گلے کی خرابی کا علاج ہربل قہوے سے کیا کرتے تھے۔ کرنل رشید ان کے بڑے بھائی تھے۔ خورشید صاحب اپنے دوستوں میں KH کے نام سے یاد کئے جاتے تھے اور آزاد کشمیر میں انہیں ”خورشید ملت“ کہا جاتا تھا۔ دوسروں کی رائے کا وہ بہت احترام کرتے تھے اور بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ خوش مزاج خوش طبع اور خوش پوش انسان تھے۔ جمہوریت کی پرستش کرنے والے تھے۔ ہمیشہ عوام کی طاقت میں ان کا بھروسہ ہوتا تھا۔ لندن میں تعلیم کے دوران اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے بی بی سی میں کام بھی کیا۔ صبح سویرے اٹھنا ان کا معمول تھا۔ بیڈ ٹی اپنے لئے خود تیار کرتے تھے۔ ریڈیو سے خبریں سنتے اور اخبار دیکھتے تھے۔ نوجوانوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے اور ہمیشہ ان کی تقریبات میں شرکت کرتے۔ بیگم ثریا خورشید لکھتی ہیں کہ ہم لاہور میںرہتے تھے کیونکہ بچے یہاں پڑھتے تھے لیکن خورشید صاحب زیادہ راولپنڈی اور کشمیر کے دوروں پر اپنا وقت صرف کرتے تھے۔ جن دنوں ان کی وفات ہوئی وہ تین کتابیں لکھنا چاہتے تھے اور پہلی کتاب قائد کے ساتھ گزرے ہوئے چار برسوں کے بارے میں تھی لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ آزاد کشمیر کی صدارت سے استعفی دینے کے بعد انہیں سرکاری نرخوں پر گھر بنانے کے لئے ایک پلاٹ مل رہا تھا لیکن انہوں نے اسی بنیاد پر حکومت کو واپس کر دیا کہ میرے پاس اس کی تعمیر کے لئے رقم نہیں ہے۔ ثریا خورشید نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ سردار عبدالرب نشتر پنجاب کے گورنر تھے۔ خورشید صاحب سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہاں رہتے ہو۔ انہوں نے بتایا کہ کرائے کے ایک فلیٹ میں جو مال روڈ پر ہے۔ نشتر صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اسی ہفتے 19 کوئینز روڈ پر ایک گھر الاٹ کر دیا۔ ہم کچھ ماہ اس میں رہے پھر خورشید صاحب تعلیم کی غرض سے لندن چلے گئے تو کسی اور شخص نے پھر سے اسے الاٹ کروا لیا۔ واپسی پر جب وہ صدر آزاد کشمیر تھے تو میں نے کہا کہ آپ اپنا گھر تو بحال کروائیں انہوں نے کہا کہ میں اپنی سرکاری حیثیت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاﺅں گا۔ بطور صدر بھی وہ دو بیڈ روم کے ایک گھر میں رہتے تھے۔ ایک میں ہمارا قیام تھا اور دوسرا بچوں کو دے رکھا تھا۔ کوئی مہمان آ جاتا تو اسے بچوں کے کمرے میں سلاتے تھے۔ میری بیٹی یاسمین کی عمر پانچ سال تھی جب میں نے پہلی بار اسے سرکاری کار میں سکول بھیج دیا خورشید صاحب کو معلوم ہوا تو خفا ہوئے اور کہا آئندہ ہرگز ایسا نہ کیا جائے۔ بچوں کو انہوں نے ہمیشہ سیاست سے دور رکھا یہاں تک کہ میرے بیٹے خرم کو مظفر آباد آزاد کشمیر میں لوگوں نے اس وقت دیکھا جب خورشید صاحب فوت ہو چکے تھے۔ خرم تعلیم سے فارغ ہو کر راولپنڈی میں لیکچر دیتا حالانکہ میں چاہتی تھی کہ وہ باپ کی طرح وکیل بنے لیکن اسے یہ پسند نہ تھا۔ میں نے زور دینا چاہا تو خورشید صاحب نے خود خرم سے پوچھا اس نے کہا میں ٹیچر بننا چاہتا ہوں۔ خورشید صاحب نے کہا کہ کسی پر اپنی مرضی کو نہیں ٹھونستے جو وہ چاہتا ہے بن جائے۔ میں نے ان کی صدارت کے دوران یہ کہا کہ ہم زیادہ تر لاہور میں رہتے ہیں آپ اس کی تبدیلی راولپنڈی سے لاہور کروا دیں خورشید صاحب نے انکار کیا اور بولے وہ سرکاری ملازم ہے۔ اگر محکمہ اسے ڈیرہ غازی خان بھیجنا چاہتا ہے تو بھی اس کا فرض ہے کہ وہاں جا کر ڈیوٹی ادا کرے۔ بہت برس بعد اس کی تبدیلی محکمہ نے خود ہی لاہور کر دی تو خورشید صاحب بہت خوش ہوئے لیکن پھر بھی نصیحت کی کہ جہاں آپ کو بھیجیں آپ جاﺅ اور محنت سے کام کرو۔ 15 اگست 1964ءکو انہوں نے صدارت سے استعفی دیا تھا۔ صدر ایوب خان کی طرف سے کچھ دن پہلے انہیں اور مجھے کسی دعوت پر بلایا گیا تھا۔ خورشید صاحب نے کہا اب میں صدر نہیں رہا لہٰذا ہم دعوت میں نہیں جائیں گے۔ ہم صرف ایک رات سرکاری گھر میں رہے اگلے روز خورشید صاحب نے کراچی کا رخ کیا اور میں اپنے بچوں کو لے کر اپنے والدین کے پاس سیالکوٹ چلی گئی حالانکہ ہم قواعد کے مطابق تین ماہ تک سرکاری گھر میں رہ سکتے تھے۔ خورشید صاحب نے گھر چھوڑتے وقت سرکاری کار بھی استعمال نہ کی اور ایک ٹیکسی منگوائی۔ ہمارے ڈرائیور اور ملازم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن خورشید صاحب اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ کچھ چیزیں جو رہ گئی تھیں انہیں لانے کے لئے خورشید صاحب نے اپنے بھائی شوکت کو مظفر آباد بھیج دیا۔ امان اللہ خان نیازی نام کے ایک افسر جوائنٹ سیکرٹری ہوتے تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ شام تک گھر کی صفائی کر دی جائے۔ وہ پنڈی سے اسی روز وہاں پہنچ گئے تھے اور انہوں نے خوشی سے کہا کہ میں آج رات اس بستر پر سوﺅں گا جس پر خورشید صاحب سوتے تھے۔ بعد ازاں جب خورشید صاحب کو مظفر آباد سے راولپنڈی آنے والی سڑک پر دریا کے کنارے دلائی کیمپ میں قید کیا گیا تو امان اللہ نیازی مظفر آباد آتے اور جاتے ہوئے وہاں ضرور قیام کرتے۔ طنزیہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہوتی تھی اور وہ کیمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے کہ دیکھو وہ سامنے خورشید کا مکان ہے۔ خورشید صاحب نے کشمیر کی صدارت کے دوران سرکاری سٹاف کو کم کر دیا تھا اور صدر کے ساتھ کام کرنے والے ملازموں کی تعداد نصف کر دی تھی۔ خورشید صاحب اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے تھے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے شوہر ایک ایماندار دیانتدار اور عوام میں مقبول سیاستدان تھے۔ وہ اعلیٰ قدروں پر یقین رکھتے تھے اور ہم اگرچہ تنگی محسوس کرتے لیکن ہمیشہ اس بات پر ہمیں فخر ہوتا تھا کہ خورشید صاحب نے اصولوں کی پاسداری کی اور قائداعظم کے نقش قدم پر چلے۔
قارئین کرام! خورشید صاحب کی کتاب ”میموریز آف جناح“ میں درج واقعات ہم پھر کبھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے کیونکہ ان سے زیادہ قائد کی شخصیت سے متعلق معلومات اور کسی کے پاس نہ تھیں اور نہ ہو سکتی ہیں