تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بالآخر احتجاجی سیاست میں بھی تنہا ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل انہیں ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ حاصل تھا لیکن اب انہوں نے بھی واشگاف الفاظ میں رائے ونڈ جانے سے انکار کر دیا ہے۔ تین ستمبر کے لاہور کے احتجاج میں قادری صاحب راولپنڈی اور عمران خان لاہور میں قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔ اس وقت تک قادری صاحب کا پروگرام یہی تھا کہ وہ اسلام آباد یا رائے ونڈ دونوں میں سے کسی ایک مقام کا انتخاب کریں گے تاکہ اپنی احتجاجی سیاست میں وہ رنگ بھر سکیں جو دو سال سے پھیکے پڑے ہوئے تھے۔اسلام آباد جانے کی اس مرتبہ نہ تو ہمت قادری میں ہے اور نہ ہی عمران خان میں کیونکہ دو سال قبل دھرنے میں تماشا لگانے کے باوجود جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو اب دوبارہ وہاں کی خاک بھلا یہ کیوں چھانیں گے۔ پیپلزپارٹی نے بھی اس سلسلے میں واضح موقف اپنایا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں احتجاج کرنا اور رائے ونڈجانا عمران خان کا اپنا فیصلہ ہے اور وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ چودھری شجاعت اور پرویز الہی بھی عمرانی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ آ جا کے شیخ رشید بچتے ہیں لیکن ان کی نہ کوئی پارٹی ہے نہ کوئی سیاسی قد کاٹھ۔ اس صورتحال میں اگر شیخ رشید عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو بھی جاتے ہیں تو اس کا فائدہ شیخ رشید کو تو ہو سکتا ہے عمران خان کو البتہ نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے جب سے ان کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا ہے، اس دن سے عمران خان کے بھی طوطے اڑچکے ہیں۔ ان کی کیفیت اس پرندے کی سی ہے جو اڑنا چاہتا ہے لیکن اس کے پر کاٹ دئیے گئے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتیں اگر عمران خان کا ساتھ نہ دیں تب بھی کوئی بات نہ تھی لیکن خود ان کی اپنی پارٹی کے اندر سے بھی انہیں اس طرح کی حمایت حاصل نہیں رہی جو پہلے تھی۔ عمران خان کے بارے میں یہ گمان ہی نہیں بلکہ تیقن سے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتے اور جو من میں آتا ہے کراٹھتے ہیں۔ ایسا بندہ سیاست میں ہمیشہ ان فٹ ہوتا ہے۔ سیاست مشاورت کا نام ہے۔ نوابزادہ نصراللہ جیسے سیاستدانوں سے اگر وہ کچھ سیکھ سکتے تو اس وقت دیوار سے لگے نظر نہ آتے۔ان کی اسی جلدبازی نے آج انہیں یہ دن دکھایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف احتجاج کی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے۔پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ وزیراعظم کے گھر کا گھیراؤ کریں گے۔ اس کے جواب میں جب مسلم لیگ ن نے عمران خان کے بنی گالا کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی دی تو اب کہا جا رہا ہے ہم نے تو کبھی ایسی بات نہیں کی۔
گزشتہ روز تحریک انصاف لاہور کے صدر عبدالعلیم خان نے دیگر قیادت کے ہمراہ جاتی عمرہ رائے ونڈ پر اڈا پلاٹ کا دورہ کیا۔ علیم خان کا کہنا تھا کہ احتجاج کی جگہ میاں صاحب کے گھر سے چار کلومیٹر دور ہے۔جہاں بھی جلسہ کریں گے امن سے کریں گے اور توڑ پھوڑ نہ کرنے کی گارنٹی دیتے ہیں۔ علیم خان کا شمار عمران خان کے قریب ترین ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک سلجھے ہوئے اور میچور طبیعت رکھنے والے رہنما ہیں۔ انہیں چاہیے کہ عمران خان کو سمجھائیں کہ جس طرح ایک بزنس ایمپائر کو بڑی محنت کے ساتھ کھڑا کیا جاتا ہے، اسی طرح اگر وہ اپنے صوبے کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کی کوشش کریں اور وہاں کے عوام نے انہیں جو مینڈیٹ دیا ہے اگر وہ اس کا مان رکھیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام انہیں اگلے انتخابات میں ووٹ نہ دیں۔ آخر خان صاحب کو احتجاج کی پالیسی سے اتنی محبت کیوں ہے۔ ان کی طبیعت کی بے چینی انہیں ان کے مقاصد حاصل کرنے سے باز رکھتی ہے۔ احتجاج کی سیاست میں تھوڑا بہت دباؤ تو مخالف پر ڈالا جا سکتا ہے لیکن مینڈیٹ نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے عوام کے دل جیتنے پڑتے ہیں۔ ان کے مسائل سن کر انہیں حل کرنا پڑتا ہے۔ صرف نعرے لگانے، دلاسے دینے یا سڑکوں پر آ کر مخالفین کو للکارنے سے عوام کے دل جیتنا اب ممکن نہیں۔ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست اب ماضی کاقصہ بن چکی۔ عوام بھی اب سیانے ہو چکے ہیں۔ ایک لمحے میں سیاستدان کی نیت تک پہچان لیتے ہیں۔ عمران خان اگر تین سو کنال کے گھر میں مقیم ہیں تو عام آدمی انہیں سپر ایلیٹ کلاس کا ایک ایسا مہرہ سمجھتے ہیں جس کے مقاصد اور جس کے اہداف کبھی بھی ایک عام آدمی کی خواہشات کے مطابق نہیں ہو سکتے۔
اس وقت بہت سے قومی منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ سب سے اہم منصوبہ سی پیک ہے۔ یہ منصوبہ کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی ایک شہر یا صوبے کے لئے نہیں بلکہ پاکستان سمیت پورے خطے کی تقدیر بدلنے کے لئے کافی ہے۔ابتدا میں خیبر پی کے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اس کی بھی مخالفت کی۔ پھر انہیں بھی سمجھ آ گئی کہ اس طرح کے قومی منصوبے پر اگر انہوں نے تنقید کی تو عوام سمجھ جائیں گے کہ وہ عوامی مفاد کے منصوبوں کے بھی خلاف ہیں۔ عمران خان کو بھی اس طرح کے منصوبوں کی تائید میں مثبت بیانات دینا پڑیں گے اور اپنے صوبے کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنا پڑے گا۔ آئے روز شہر بند کرنے اور لوگوں کو اذیت میں مبتلا کرنے سے عوام میں ان کے کے خلاف نفرت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی نہیں۔ جلسے جلوس اگر لازمی کرنے ہیں تو پھر اس کے لئے جلسہ گاہ اور بڑے میدان موجود ہیں۔ احتجاج کرنا ہی جمہوریت کا حق نہیں ہوتا بلکہ جمہوریت کے کچھ اور تقاضے بھی ہوتے ہیں ۔ جب تک خان صاحب و ہ تقاضے پورے نہیں کرتے وہ جمہوریت کا حق ادا نہیں کر سکے۔
عمران کو گلہ ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملتا، یہ گلہ ہر پاکستانی کو ہے، ایک نسل کا مقدمہ تیسری نسل میں فیصلے کے قریب پہنچتا ہے، عمران کو بہر حال ا س سلسلے میں صبر کرنا پڑے گا، تنہا ان کے لئے انصاف دہلیز پر فراہم نہیں کیا جا سکتا اور سیاستدان کا انصاف تو الیکشن میں میں عوام کرتے ہیں۔ اس کے لئے تھوڑا سانتظار! بس ٹھوڑا سا انتظار