چیئر مین واپڈا ظفر محمود کو کالا باغ ڈیم کے حق میںلابی کرنے کی سزا دے دی گئی ہے اور انہیں اپنے منصب سے استعفی دینے پر مجبور کر دیا گیا،چیئر مین واپڈا نے کالا باغ ڈیم کے حق میں چھبیس اقساط میں مضامین لکھے جنہیں سندھی اخبارات نے شائع کرنے سے انکار کر دیا مگر پاکستان کے بڑے اردو اور انگریزی اخبارات نے ان کے مضامین کو شائع کیا،،لت آن لائن پر بھی یہ مضامین پیش کئے جا رہے ہیں ان میں زیادہ ترا س امر پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ دنیا بھر میں آبی تنازعات موجود رہے ہیںمگر مہذب قوموںنے ان کا حل بھی تلاش کیاا ور مل جل کر رہنے کاسلیقہ اختیار کیا.
افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں ایک طاقتور صوبائی لابی کالاباغ ڈیم کے اس لئے خلاف ہے کہ اس منصوبے سے پنجاب کو زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہے.ولی خان نے کہا تھا کہ میں اس ڈیم کو بم مار کر اڑا دوں گا ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ ا س ڈیم کو بلا ٹکٹ بحیرہ عرب میں پھینک دیں گے.سندھ، بلوچستان ا ور کے پی کے میں اس منصوبے کے خلاف کئی بار قراردادیںمنظور کی جا چکی ہیں.
چئیر مین واپڈا نےا س پس منظر میں بھڑوںکے چھتے میں ہاتھ ڈالا، پہلے توسینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی نے انہیں ڈانٹ پلائی، پھر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ان پر تنقید کی، نفیسہ شاہ بھی ان پر برسیں، حیرت ہے کہ یہ سب لوگ آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھا کر منتخب اداروںمیں بیٹھے ہیں مگر پاکستان کے مفاد کے ایک منصوبے کی مخالفت میں پیش ہیں.
عام پاکستانی یہ سمجھتا ہے کہ سندھ طاس منصوبے کو بھارت نے سبو تاژ کیا اور ہمارے حصے کے کشمیری دریائوں پر بند باندھ کر ہمیں جہلم اور چناب کے پانی سے محروم کر دیا، اس صورت حال میں ہمارے لئے دریائےسندھ کے پانی پر انحصار کرنے کے سوا کوئی رستہ نہیں بچتا مگر بھارت نے پیسہ پانی کی طرح بہا کر پاکستان کی نام نہاد لیڈر شپ کو گروی رکھ لیا ہےا ور کالا باغ ڈیم کی مخالفت کا فریضہ ا نہیں سونپ رکھا ہے. جسے وہ فدویانہ انداز میں بجا لارہے ہیں.
یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ ایٹمی دھماکوںکے بعد وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں وعدہ کیا کہ وہ کالا باغ ڈیم بنائیں گے مگر وہ بھی اس مخصوص لابی کے ہاتھوں مجبور محض ہو کر رہ گئے
واپڈا کے چیئر مین نے اہن حصے کا فریضہ نبھایا ، انہیںنوکری سے تو ہاتھ دھوناپڑے، ہم انہیں شہید کالا باغ ڈیم کہیں گے.