(ملت آن لائن )سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے اور عوامی سیاسی، قانونی حلقے اس نکتے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں کہ کیاپارلیمنٹ کی کاروائی پر کوئی عدالتی فیصلہ آ سکتا ہے۔قانونی ماہرین کی اکثریت اس نکتے پر متفق ہے کہ ایوان کی کاروائی کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور اس استحقاق کی بنیاد پر کسی رکن پارلیمنٹ کے خلاف نہ تو کوئی مقدمہ قائم ہو سکتا ہے، نہ کسی عدالت میں ا سکی سماعت ہو سکتی ہے اور نہ اس پر کسی کو سزا دی جاسکتی ہے۔ممتاز وکیل اور سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر نے ملت آن لائن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ا س وقت عام طور پر استنی کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے جبکہ یہ استثنی نہیں ارکان پارلیمنٹ کا استحقاق ہے کہہ وہ کوئی بھی بات ایوان میں کر سکتے ہیں اورا سے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ استحقاق اس لئے دیا گیا ہے کہ قانون سازی کے اعلی تریں ادارے میں کسی بھی سرکاری افسر کے کنڈکٹ پر کھل کر رائے زنی کی جا سکے۔ ایس ایم ظفر کے بقول بعض ارکان پارلیمنٹ تو ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن پر پکڑ دھکڑ کی اجازت دے دی جائے تو اچکزئی جیسے سینییر پارلیمنٹرین روز ،نت نئے مقدمے بھگتتے رہیں گے۔جہاں تک مکمل استثنی کا مسئلہ ہے تو یہ صرف صدر مملکت کو حاصل ہے اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسی کا سہارا لیتے ہوئے صدر زرداری کے خلاف خط لکھنے سے معذوری کااظہار کیا البتہ سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں توہین عدالت کے جرم میں وزارت عظمی کے منصب سے ہٹا دیاا ور آئندہ کے لئے بھی نااہل قراردے دیا۔
ارکان پارلیمنٹ کے استحقاق کے بارے میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کی رائے مختلف ہے، ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے جب یہ نکتہ اٹھاد یا گیا ہے تو اسے ضرور اس کی حدود و قیود طے کر دینی چاہیءں کیونکہ ارکان پارلیمنٹ اس استحقاق کی آڑ میں کسی عام شہری کی بھی درگت بنا دیتے ہیں اور وہ خود ماضی میں رکن پنجاب ا سمبلی حاجی مقصود احمد بٹ کی زبان درازی کا شکار ہو چکے ہیں۔اور جب انہوں نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تو وکلا کی رائے یہی تھی کہ عدالتیں کسی رکن اسمبلی کے ان ریمارکس کے خلاف مقدمہ نہیں سنیں گی جن کا ایوان کے اندر اظہار کیا گیا ہو۔ ملت آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے ضیاشاہد کا کہنا ہے کہ ریاستی مشینری کے خلاف ارکان پارلیمنٹ جو بھی زبان استعمال کرنا چاہیں ، وہ بھی تہذیب کے دائرے میں ہونی چاہئے ۔
اسی طرح عام شہریوں کے خلاف شتر بے مہار گفتگو پر پابندی ہونی چاہئے۔ضیا شاہد نے کہا کہ ایک طرف ہمیں اسلام کی عظیم روایات یادآتی ہیں اور ہم حضرت عمرؓ کے لباس کے احتساب کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے صدر کو مطلق استثنی دے رکھا ہے، یہ طرز عمل آئین کے ابتدایئے میں شامل قرارداد مقاصد کے منافی ہے۔جس کامطلب یہی ہے کہ اسلامی روایات اور اصولوں سے ہمارا دور پار کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ آیا وزیر اعظم کی ایوان میں تقریر کو مروجہ قوانین اور آئینی اصولوں کے مطابق استحقاق حاصل ہے یا نہیں ، ضیا شاہد نے کہا نظر بظاہر وزیر اعظم بھی بنیادی طور پر پہلے تو ایک رکن پارلیمنٹ ہیں،ا سلئے انہیں آئینی استحقاق حاصل ہے اور اسے کسی کورٹ آف لا میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
ممتا زاخبار نویس، ایڈیٹر پاکستان اور سی پی این ای کے سابق صدر مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 کے تحت جو سماعت ہو رہی ہے ، یہ تبھی ممکن ہو ئی جب وزیر اعظم نے حق سماعت کو چیلنج نہیں کیا ورنہ اسی ایک نکتے پر بحث اور فیصلے کے لئے مہینوں لگ جاتے۔مجیب شامی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 184 کے دائرے میں رہ کر ہی اس پر کوئی رائے دے سکتی ہے، وہ نہ تو ٹرائل کورٹ ہے اور نہ کوئی تفتیشی ادارہ،ا س کے لئے ملک میں الگ سے ادارے موجود ہیں،اور سپریم کورٹ انہی اداروں سے رجوع کے لئے بھی کہہ سکتی ہے۔اس وقت تو ایک عوامی دباؤ کہہ لیجئے یا اخلاقی تقاضہ کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت جاری رکھی ہوئی ہے مگر جب یہی سوال ایس ایم ظفر سے کیا گیا کہ کیا اخلاقیات اور عوامی دباؤ میں سپریم کورٹ کو پڑنا چاہئے تو ان کا کہنا تھا کہ ہر گز نہیں، اسی لئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو یہ کیس ادھورا چھوڑنا پڑا۔ لیکن سوشل میڈیا پرا نہیں بر ا بھلاکہا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ طبقے سپریم کورٹ کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں۔مجیب شامی نے ایک سوال کے جواب میںیہ کہا کہ چونکہ سپریم کورٹ بار بار باور کرا رہی ہے کہ وہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے تو اب جو سماعت کا سلسلہ شروع ہے، اسے آپ پریشر کوکر سے تشبیہہ دے سکتے ہیں جس سے لوگوں کے دل کی بھڑاس ضرورنکل جائے گی۔
ملت آن لائن نے پلڈاٹ کے چیئر مین احمد بلا ل محبوب سے بھی رابطہ کیا جن کا ادارہ آئین اور پارلیمانی، جمہوری نظام کی فرمانروائی کے لئے راہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئینی طور پر پارلیمانی کاروائی کو استحقاق کا درجہ حاصل ہے، اور یہ قانون دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ بلا خوف اور بلا جھجک اپنی رائے کاا ظہار کرسکیں اور قانون سازی کا عمل زیادہ سے زیادہ شفاف بنایا جا سکے۔ مگر اس رائے زنی کو پارلیمانی آداب کے منافی نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں جاوید ہاشمی نے کوئی بات کیفے ٹیریا میں کہہ دی جس پر عدلیہ نے قرار دیا کہ کیفے ٹیریا ایوان کا حصہ نہیں اور ان پر غداری کا مقدمہ چلنا شروع ہو گیا،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ ایوان کی چار دیواری میں کسی رکن پارلیمنٹ یا موجودہ کیس میں وزیر اعظم کی تقریر کا مواخذہ نہیں کر سکتی۔اور بالفرض کسی غیر معمولی صورت حال میں کوئی غیر متوقع فیصلہ آ بھی جائے تو اول اسے چیلنج کیا جاسکے گا ، دوسرے ،صدر مملکت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی سزا کو کالعدم قراردے دیں اور معافی کاا علان کر دیں۔احمد بلال محبوب نے کہا کہ وہ دو ہفتے کے امریکی دورے کے بعد ملک واپس آئے ہیں، اس لئے پانامہ کیس پر کوی حتمی بات نہیں کر سکتے مگر ان سے پوچھا گیا کہ آج ہی صدر اوبامہ نے وکی لیکس کیس میں غداری کے جرم میں پینتیس سال کی سزا بھگتنے والی ایک خاتون کومعاف کر دیا ہے اور چند روز پہلے وہ دہشت گردی کے مجرموں کو گوانتا نامو بے کے عقوبت خانے سے رہا کر چکے ہیں تو کیا پانامہ کرپشن، اگر ثابت بھی ہو جائے تو یہ غداری اور دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے، احمد بلا ل محبوب نے برجستہ کہا کہ جن لوگوں کی یہی خواہش ہے تو ممکنہ طور پریہ پوری بھی ہو سکتی ہے۔