پاکستان کو جانے والے پانی کی ایک ایک بوند کو استعمال کریں گے۔ مودی کی دھمکی
بھارت نے کشن گنگاا ور رتلے ڈیم بنا کر سندھ طاس کی خلاف ورزی کی ہے۔
پاکستان کو عالمی فورموں پر بھارتی بد عہدیوں کا پردہ چاک کرتے رہنا چاہئیے ۔ احمر بلال صوفی۔
سندھ طاس کوئی معمولی معاہدہ نہیں، سیمی کما ل۔ واٹر ایکسپرٹ
پاکستان کی بیس کروڑ آبادی کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں
چین نے بھارت کو دھمکی دی ہے کہ وہ سندھ کا پانی رو ک لے گا
بھارت نے ڈھٹائی سے کہا ہے کہ وہ ورلڈ بنک کی ثالثی نہیں چاہتا
ورلڈ بنک کی ثالثی سے بھارت نے انکار کر دیا ہے
سندھ طاس معاہدے کی مدت ختم ہونے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی
لاہور(ملت آن لائن) بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مُودی، نے باقاعدہ یہ اعلان کیا کہ ’’ہم پاکستان کی طرف جانے والے پانی کی ایک ایک بُوند کو اپنے استعمال میں لائیں گے ‘‘ تو پاکستانی عوام گہری تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ماضی میں پاکستان نے اس ضمن میں کاہلی کا ثبوت دیا اور بھارت نے ہماری غفلت کا بھرپور فائدہا اٹھایا۔ قومی حلقے محسوس کرتے ہیں کہ اِس معاملے میں سندھ طاس کے سابق پاکستانی مندوب جماعت علی شاہ ایسے لوگوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری زرخیز زمینیں بنجر بنتی چلی گئیں اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے لئے خوراک کا بد ترین بحران پیدا کرنے کے بھارتی منصوبوں اور عزائم کو مزید شہ ملی ۔مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر پاکستانی حصے کے پانیوں پر بھارت، ڈیم اور آبی بند بنا کر پانچ عشرے پرانے معاہدے، جو ساری دنیا میں ’’سندھ طاس ‘‘ کے نام سے معروف ہے، کی دھجیاں اڑا دینا چاہتا ہے تاکہ اُس کے پاکستان مخالف عزائم کی تکمیل ہو سکے۔ قومی حلقے سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونا اتنا آسان ہے ۔ پاکستان کی زراعت ،جسے ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام حاصل ہے ،کو تباہ کرنے اور پاکستان کی آبی شہ رگ کو دبانے کی غرض سے بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر دو ڈیم بنا لئے ہیں۔ ایک کانام ’’کشن گنگا‘‘ اور دوسرے کا نام ’’رتلے ڈیم‘‘ ہے۔ یہ زورا زوری بھی ہے اور صریح بدمعاشی بھی۔ پہلے تو اسے روکنے کے لئے پاکستان نے براہ راست بھارت سے بات کی تاکہ اِسے عالمی تنازع نہ بنایا جائے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے قطعی باز نہ آیا؛ چنانچہ مدد کے لئے پاکستان نے ورلڈ بینک کے دروازے پر دستک دی کہ اُسی نے سندھ طاس معاہدے پر ہمیشہ دونوں ممالک، پاکستان اور بھارت ، کو عملدرآمد کرتے رہنے کی ضمانت دے رکھی ہے۔ پاکستان کے اس اقدام پر بھارت سخت پریشان ہُوا کہ اُس کے دل میں چور تو تھا ہی؛ چنانچہ بھارتی حکام نے ورلڈ بینک سے درخواست کی کہ وہ اِس معاملے میں مداخلت نہ کرے ۔ بھارت کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے جنوری 2017ء کے پہلے ہفتے دہلی آنے والے ورلڈ بینک کے حکام سے وعدہ کیا کہ بھارت اور پاکستان مل کر یہ تنازع نمٹا لیں گے ۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو کسی ’’نیوٹرل ایکسپرٹ‘‘ کی مشاورت سے یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔
پاکستان نے دباؤ بڑھانے اور بھارت کو راہِ راست پر لانے کے لئے امریکی حکومت سے بھی ساتھ ہی استدعا کر دی تھی کہ وہ آگے بڑھے اور پاکستان کو بھارت کی تازہ ترین آبی جارحیت سے بچائے۔ اِس کے ساتھ ہی پاکستان نے حفظِ ماتقدم کے طور پر چینی حکام سے مل کر یہ بھی طے کر لیا کہ اگر بھارت ’’ سندھ طاس معاہدہ‘‘ یکطرفہ توڑ ڈالتا ہے تو بھارت سے ’’ سی پیک‘‘معاہدے کی نئی شِق کے تحت نمٹا جائے گا ۔ سی پیک کے سائے تلے’’واٹر سیکیورٹی‘‘ فراہم کرنا پاکستان کے لئے از حد ضروری بھی تھا ۔اِسی دوران چین نے جب بھارت کویہ دھمکی دی کہ وہ دریائے سندھ کا پانی روک سکتا ہے تو بھاتی بنئے کے ہوش مزید ٹھکانے آنے لگے۔واضح رہے کہ دریائے سندھ اور دریائے ستلج چین سے نکلتے ہیں اور بھارت سے ہوتے ہُوئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جبکہ دیگر چار دریا،جہلم، چناب، راوی اور بیاس ، مقبوضہ کشمیر سے نکلتے ہیں اور ایک طویل فاصلہ طے کر کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
بھارت اپنی کہہ مکرنیوں میں بے مثال رہا ہے۔ اِس بار بھی وہ اپنے اِس سابقہ کردار پر ’’قائم‘‘ رہا۔ ابھی ورلڈ بینک کے سامنے اُس کے مذکورہ وعدے کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ وہ پاکستان کو اُس کے جائز حصے کا پانی دینے سے پھر مُکر گیا۔ نئی دہلی میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری ، گوپال باگلے، جنوری 2017ء کے دوسرے ہفتے ورلڈ بینک کے متعلقہ افسران ،جو مذکورہ تنازعے کے حل کے لئے متعین کئے گئے ہیں،سے ملے اور اُن کے انچارج، آئن ایچ سولمن، سے کہا کہ بھارت نے ، پاکستان کے پانیوں پر دو ڈیم کھڑے کرکے کسی معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے اور نہ ہی سندھ طاس معاہدے کی کسی شِق کو توڑا ہے۔ آئن سولمن، جو مذکورہ جھگڑے کے کسی متفقہ حل کے لئے دہلی اور اسلام آباد میں شٹل کاک بنے ہوئے تھے، بھارتی عذر سُن کر حیران رہ گئے۔بھارت نے ڈھٹائی سے یہ بھی کہا کہ پاکستان جو اعتراض اٹھا رہا ہے، وہ محض ’’ٹیکنیکل‘‘ ہیں اور ’’اِنہیں ہم کسی نیوٹرل ایکسپرٹ یا کسی ثالث کی مدد سے حل کرلیں گے۔‘‘ آئن سولمن کی مانند ، پاکستان بھی سناٹے میں آگیا۔ اِسی لئے پاکستان نے بھارت کی طرف سے کسی نام نہاد ثالثی یا ’’ نیوٹرل ایکسپرٹ‘‘ کو درمیان میں ڈالنے سے انکار کر دیا۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں کرنے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی اِن خفی اور جلی بھارتی سازشوں اور کوششوں سے امریکہ کو بھی سخت تشویش ہُوئی ۔اِسی لئے رخصت ہونے والے امریکی وزیرخارجہ ، جان کیری، نے مسئلے کی سنگینی کے پیشِ نظر پاکستان کے وزیر خزانہ کو فون کرتے ہوئے کہا کہ مناسب یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت مل بیٹھ کر ، سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں، رتلے ڈیم اور کشن گنگا ڈیم کا تنازع ختم کریں۔
پاکستان تو جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی خاطر اِس آبی تنازعے کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت کے دل میں چونکہ کھوٹ ہے، اس لئے وہ بار بار اپنے کہے سے مُکر بھی رہا ہے اور یوں ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کی روح کو زک بھی پہنچا رہا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اُٹھی آزادی کی طاقتور لہر کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے؛ چنانچہ وہ پاکستان کو سزا دینے اور اس کا بازو مروڑنے کی نیت سے پاکستان کے پانیوں پر زبردستی قبضہ جمانا چاہتا ہے ۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اِس بھارتی دباؤ کو قبول کرنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ بھارت کے بالمقابل کھڑا ہے۔سندھ طاس معاہدے کے خلاف بھارت کی اِنہی بد نیتیوں کی وجہ سے پاکستان نے چین سے مل کر ’’دیامر بھاشا ڈیم‘‘ بنانے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ اِس ڈیم پر پندرہ ارب ڈالر کا سرمایہ خرچ ہو گا۔ پاکستان کے چین کی طرف جھکاؤ کو دیکھ کر ورلڈ بینک اور ایشئن ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کو اِس ڈیم کے لئے قرض دینے سے صاف انکار کر دیا ہے؛چنانچہ بہ امرمجبوری پاکستان کو اپنے دیرینہ دوست، چین، ہی کی مدد لینا پڑی ہے تاکہ وطنِ عزیز کی زراعت اور فوڈ سیکیورٹی کا مستقبل محفوظ کیا جاسکے۔ پاکستان کو مگر بھارت کی کہہ مکرنیوں اور سندھ طاس معاہدے کی روح کو مجروح کرنے کی بھارتی چالوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کی کوششوں سے باز نہیں آنا چاہئیے۔ ملت آن لائن کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں عالمی قوانین کے ممتاز پاکستانی ماہر، احمر بلال صوفی، بھی اصرار کے ساتھ کہا ہے کہ پاکستان کو عالمی فورموں پر بھارتی بد عہدیوں کا پردہ چاک کرتے رہنا چاہئیے تاکہ بھارت کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے عریاں کیا جا سکے۔ ممتاز واٹر ایکسپرٹ، محترمہ سیمی کمال، کا بھی یہی موقف ہے کہ سندھ طاس معاہدہ 74صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کوئی معمولی معاہدہ نہیں ہے۔ پاکستان کی بیس کروڑ آبادی کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں۔ اِس معاہدے کی معیاد اور مدت کا کوئی اختتامی وقت مقرر نہیں ہے۔ اِس کا ضامن ورلڈ بینک ہے اور اِس کا متفقہ حل اِسے ہی نکالنا ہوگا۔ عالمی ادارے بھارت کو من مانیاں کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ پاکستانی حکام کو بھی اپنی آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں۔ بھارت عزائم پاکستان کے لئے وارننگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔