اور قائد کے ادھار کو اتارنے میں پاک فوج کو مزید دیر نہیں کرنی چاہئے۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران حافظ محمدسعید ہر بار کوئی نیا اور نادر نکتہ پیش کرتے ہیں۔ہفتے کی صبح اواری ہوٹل کے مغل بورڈ روم میں صبح کے گیارہ بجے کوئی پچاس ایک صحافیوں کے ساتھ انہوں نے بات چیت شروع کی تو میں سانس روکے اس انتظار میں تھا کہ کب وہ اپنی ندرت خیالی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
تمہیدی خطاب کے بعد انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے تجاویز پیش کرنا شروع کیں تو ان کی پہلی تجویز ہی یہ تھی کہ آزادی کشمیر کے لئے بانی پاکستان نے پاک فوج کو جو حکم جاری کیا تھاوہ آج بھی عملدر آمد کا منتظر ہے ۔ اس وقت کے آرمی چیف نے قائد کی حکم عدولی کی مگر قائد کا حکم آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے ا ور موجودہ فوج اورا س کے سربراہ اس حکم کی تکمیل اور اور اس کو بجا لانے کے پوری طرح سے پابند ہیں۔
حافظ صاحب کے پہلو میں تشریف فرما ایک سینیئر تریں جرنیل غلام مصطفی نے رائے دی کی ٹیکنیکل طور پر قائد نے یہ حکم اپنے دور کے آرمی چیف کو جاری کیا تھا، اس لئے آج یہ حکم ساقط ہو چکامگر میں مانتا ہوں کہ اس کی جذباتی اور نظریاتی اہمیت ایک مسلمہ امر ہے۔
حافظ سعید عام طور پر اپنی بات کرتے ہیں اور اگلی بات کی طرف بڑھ جاتے ہیں، مگر انہوں نے جوابی سوال ا ٹھایا کہ قائد کاکوئی حکم یا فرمان یا قول کیسے ساقط ہو سکتاہے ۔انہوں دلیل دی کہ آج سرکاری دفاتر جن میں فوجی دفاتر بھی شامل ہیں، میں قائد اعظم کا پورٹریٹ لازمی آویزاں کیا جاتا ہے، ان کے ا قوال ہر روز اخبارات کے صفحہ اول پر دہرائے جاتے ہیں،تو اس کامطلب یہ ہے کہ قوم اپنے قائد کا احترام ملحوظ رکھتی ہے ا ور ان کے ملفوظات کو حرز جاں بناتی ہے۔ حافظ محمد سعید یہیں پر نہیں رکے، انہوں نے کہا کہ آزادی کشمیر کے بارے قائد کا قول ساقظ سمجھ لیا جائے تو پھر کشمیر کے بارے میں انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ یہ پاکستان کی شہہ رگ ہے، کیا ہم اسے بھی بھول جائیں اور قائد نے ہر شعبہ حیات کے بارے میں رہنما اصول و ضع کئے اور ان پر چلنے کی تاکید فرمائی تو کیاا نہیں پس پشت ڈالا جا سکتا ہے۔
حافظ محمد سعید کا سوال بڑا تگڑا ہے،ا س کا جواب ناں میں ہو ہی نہیں سکتا۔
اب اس حوالے سے کچھ معروضات میں بھی پیش کرتا ہوں۔
قائد اعظم نے بہت کچھ کہا، اسے میں یہاں دہرانانہیں چاہتا مگر دفاع کے حوالے سے قائد کا یہ اصول اگر ہم نے مقدم نہ سمجھا تو ہم اپنی آزادی، سلامتی ا ور اقتدارا علی کے تحفظ میں ناکام رہیں گے، قائد نے فرمایا تھا کہ ہم جارحیت کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف پہاڑوں پر لڑیں گے، دریاؤں میں لڑیں گے،جنگلوں میں لڑیں گے،وادیوں میں لڑیں گے،میدانوں میں لڑیں گے، صحراؤں میں لڑیں گے اوراسوقت تک لڑتے رہیں گے جب تک ہمارادشمن ہمیں اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہیں پھینک دیتا۔
قائد نے کسی فوجی اکیڈیمی میں دفاعی حکمت عملی کا درس نہیں لیا تھا لیکن دیکھئے کہ آج ہم اپنے دشمنوں کے خلاف پہاڑوں سے لے کر ہر جگہ لڑ رہے ہیں ا ور ہمارا عزم ہے کہ ا سے شکست دینے تک لڑتے رہیں گے۔
تو یہ قائد کے حکم کی اطاعت ہی تو ہے، ا سلئے کشمیر کے سلسلے میں بھی قائد اعظم کا حکم اپنی جگہ پر موجود ہے اور جس طرح تقسیم ہند کا ایجنڈہ ادھورا ہے،ا سی طرح آزادی کشمیر کے لئے قائد کا حکم بھی ابھی تک اپنی اطاعت کامنتظر ہے۔
قائد کے حکم کو کیسے پس پشت ڈالا جاسکتا ہے، اگرا سے ہم فراموش کر دیں تو ہمارے ہاں یہ اصول رائج ہو جائے گا کہ دفاع وطن کے لئے صرف آرمی چیف کا حکم ہی واجب الاطاعت ہے، جس طرح پینسٹھ میں ایوب خان نے فیلڈمارشل کے طور پر حکم دیا تھا کہ ہم دشمن کی توپیں خاموش کرانے تک لڑیں گیا ور لاالہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑیں گے، اکہترمیں تین دسمبر کی سہہ پہر پانچ بجے جنرل یحی خان کے حکم پر فوج نے حسینی والہ کے محاذ سے دفاعی یلغار کی، یہ اس اصول کے تحت تھی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان میں مضمر ہے، یہ الگ بات پے کہ حملے سے سات گھنٹے بعد مزید پیش قدمی کے احکا مات جنرل یحی خاں نے جاری نہیں کئے ا ور مشرقی محاذ کی فوج دشمن کے رحم وکرم پر چلی گئی اور اسے چند روز بعدسرنڈر کرنا پڑا۔
ایوب خان ا ور یحی خان دونوں فوجی حکمران تھے،ا سلئے ان کے آرڈرز کی تکمیل تو کر دی گئی مگر قائد اعظم جو ایک سول حکمران تھے ان کے احکامات کو فوج کے سربراہ نے ہوا میں اڑا دیا۔
میں مطالبہ کرتا ہوں کہ قائد کے احکامات سے سرتابی کرنے والے آرمی چیف پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے اور اس کاجرم ثابت ہونے پر اسے علامتی طور پر پھانسی دی جائے۔
قائد کے حکم کی سرتابی کیوں کی گئی،ا سوقت کے آرمی چیف کے پاس یہ عذر تھا کہ ایک تو وہ خود مختار نہیں بلکہ بر صغیر کے مشترکہ کمانڈر ان چیف کی کمان میں ہے، دوسرے فوج کو حرکت میں لانے کا مطلب یہ تھا کہ ایک ایسا تصادم شروع ہو جائے جس میں دونوں طرف سے انگریز فوجی بھی مارے جائیں۔
مشترکہ کمان والی بات منطق سے عاری ہے، کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ بھارتی فوج اس مشترکہ کمان کے تحت اگر کشمیر، جوناگڑھ، حیدرآباد پر قبضہ جما سکتی ہے تو وہ پاکستان پر بھی جارحیت کے لئے آزاد ہے اور ایک نو آزاد مملکت کو فتح کر کے اسے دنیا کے نقشے سے نعوذ باللہ ملیا میٹ کر سکتی ے۔حاشا وکلا میں اس دلیل کو نہیں مانتا اور عقل سلیم کامالک کوئی بھی پاکستانی اس دلیل کو نہیں مانتا۔اسی لئے انگریز آرمی چیف کے انکار کے باوجود مجاہدین کا لشکر حرکت میں آیا اورا س نے تیز رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے سری نگر کے ہوائی اڈے پر قدم رکھ لیئے۔ یہی و ہ و قت ہے جب جارح فوج کا وزیرا عظم پنڈت نہروبھاگم بھاگ سلامتی کونسل جا پہنچا اور وہاں سے سیز فائر کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا۔
اب آیئے دونوں طرف سے انگریز فوجیوں کے مارے جانے کے اندیشے پر غور کرتے ہیں۔اگرا س اندیشے میں رتی بھر حقیقت ہوتی تو بر صغیر کے مشترکہ کمانڈر انچیف نے بھارتی فوج کو کشمیر میں مداخلت سے کیوں نہ روکا۔کیا انہیں کشمیر میں جارحیت کرنے والے انگریز فوجیوں کی جان پیاری نہیں تھی۔
یہ اندیشہ بھی ایک ڈھکوسلہ ہے۔
سیدھی بات یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے اپنے چیف ایگزیکٹو کی حکم عدولی کی تھی،ا س لئے ایک تو وہ غداری کا مرتکب ہوا جس کی سزا اسے دی جانی چاہئے، دوسرے قائد کے حکم کا اپنی جگہ پر اسی طرح موجود ہے، اس کی اطاعت کرنا آج کی پاک فوج پر واجب ہے۔
یہ ایک قرض ہے جسے پاک فوج کی ہائی کمان کو اتارنا ہے۔
اور اب میں واپس حافظ سعید کی محفل کی طر ف آتاہوں ۔ انہوں نے کہا کہ قائد کے حکم کی اطاعت میں ضروری نہیں کہ پاک فوج خود کشمیر مں داخل ہو کیونکہ آج کی دنیا میں لڑائی کے طور طریقے تبدیل ہو چکے ہیں، افغانستان پر سووئت روس نے جارحیت کی تو اس کے دفاع کے لئے پاک فوج کی بجائے مجاہدین کے لشکروں نے سرگرم کردار ادا کیا، آج بھی پوری دنیا میں جنگیں جاری ہیں اور یہ سب پراکسی وار ز ہیں۔بھارت پاکستان کے اندر پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔
حافظ سعید نے کہا کہ ہمیں کشمیر میں کسی پراکسی جنگ کی ضرورت نہیں، وہاں تو خود کشمیری میدان عمل میں ہیں ، ہمیں تو اخلاقی طور پر انہی کو تقویت پہنچانی چاہئے۔
یہ دوسرا نکتہ تھاجو حافظ محمدسعید نے بیان کیا۔