اگر 62 ون ایف میں نااہلی تاحیات نہیں تو الیکشن لڑنا ہر کسی کا حق ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد:(ملت آن لائن) چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر آئین کے آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت نااہلی تاحیات نہیں تو الیکشن لڑنا ہر کسی کا حق ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کررہا ہے جس میں11 بجے کے بعد دوپہر 2 بجے تک وقفہ کیا گیا ہے۔
نوازشریف پیش نہیں ہوئے
آج سماعت کے سلسلے میں نوازشریف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم کو کل پیش ہونے کے لیے دوبارہ نوٹس جاری کردیا، نوازشریف کو عدالت میں اپنے وکیل کے ذریعے بھی حاضری یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے منیر اے ملک ایڈووکیٹ اور بیرسٹر علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کیا ہے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب کیس کی سماعت کا سوچا تو نواز شریف اور جہانگیر ترین کا نام ذہن میں آیا، اسی لیے دونوں کو نوٹس جاری کیا۔
نوازشریف کی طرف سے کوئی نہ آیا تو یکطرفہ فیصلہ دیں گے: چیف جسٹس
انہوں نے کہا کہ ہمارے فیصلے سے جہانگیر ترین متاثر ہوئے وہ آگئے ہیں، نوازشریف کو نوٹس جاری کیا وہ نہیں آئے، کوئی آتاہے تو آئے نہیں آتا تو نہ آئے، اگر نواز شریف کی طرف سے کوئی نہیں آیا تو یکطرفہ فیصلہ دیں گے اور میرٹ پر دیں گے، ہم سب کو سننا اور سب کا مؤقف لینا چاہتے ہیں۔ سماعت کے موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا 62 ون ایف کے 5 اصول غیر مسلم پر بھی لاگو ہوتے ہیں؟ اس پر بابر اعوان نے کہا کہ نہیں یہ اسلامی اصول ہیں اسی لیے صرف مسلمانوں پر لاگو ہوں گے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ یہ کوالٹیز سب میں ہونی چاہئیں، یہ اسلامی اصول یونیورسل ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اقلیتی ممبران قومی اسمبلی میں بھی یہ خصوصیات ہونی چاہئیں۔ اگر عدالت نے نااہل کیا تو آئینی راستے سے جان چھڑا سکتے ہیں: جسٹس عظمت بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس فیصلے سے آنے والے وقت میں سب نے متاثر ہونا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات نہیں تو الیکشن لڑنا ہر کسی کاحق ہے۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو عدالت نے نااہل کیا ہے تو آئینی راستے سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں 28 جولائی کے فیصلے میں میاں نوازشریف کو نااہل قرار دیا جس کے بعد وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوگئے۔ جب کہ عدالت عظمیٰ نے جہانگیر ترین نااہلی کیس میں تحریک انصاف کے رہنما کو نااہل قرار دیا ہے۔