ترکی میں فوجی بغاوت کی ابھی ابتدائی خبریں ہی منظر عام پر آ سکی تھیں مگر جنرل غلام مصطفی کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے اتوار کی صبح میرے ساتھ گفتگو کے دوران اس کے ایسے پہلووں کو نمایاں کیا جو اب جا کر سامنے آ رہے ہیں۔
یہ ایک جہاں دیدہ جرنیل کا تجزیہ تھا، یہ تبصرہ عمیق مشاہدے پر مبنی تھا اور حالات کی پیش بینی کی صلاحیت نے تو مجھے حیران کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ بات میں نے یونہی نہیں کہہ دی، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ترکی اورامریکہ کے مابین تعلقات میں تیزی سے کشیدگی پید اہو سکتی ہے۔ حالانکہ جنرل مصطفی نے بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ شام کی لڑائی میں امریکہ نے ترکی کو کس طرح دھوکہ دیا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی کو اندھیں کنویں مں دھکیل دیا ہے۔
آپ بھی اس کی تفصیل سن لیجئے تا کہ وہ سارا پس منظر سامنے آ جائے جس میں ترکی نے امریکہ پر فوجی بغاوت کی اعانت کا الزام دھر دیا ہے۔یہ الزام بازی اس فوجی بغاوت سے بھی بچگانہ ا ور احمقانہ حرکت ہے جو اپنے آغاز کے ساتھ ہی دم توڑ گئی تھی۔
ترکی نے شام کی جنگ کے دوران روس کا ایک لڑاکا جہاز مار گرایا تھا۔اس کا خیال تھا کہ اس دلیرانہ کاروائی پر امریکہ کردستان کے مسئلے کو دبانے کے لئے سرگرم طریقے سے مدد کرے گا۔مگر ترکی اس قدر نادان نکلا کہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ امریکہ تو محض ا سے استعمال کر رہا ہے اور وہ کر دمسئلے کو آزاد اورگریٹر کردستان کی تشکیل کی شکل میں حل کرنا چاہتا ہے۔اس میں ترکی، شام، عراق اور ایران کے کرد علاقے شامل ہوں گے۔ ترکی کو جب اپنی حماقت کا احساس ہوا توا س نے جھٹ روسی جہاز گرانے پر روس سے معافی مانگ لی، مگر اب پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔
ترکی نے امریکہ کی اس دھوکے بازی کا بدلہ لینے کے لیئے اسے اپنی فوجی بغاوت کا ذمے دار ٹھہرا دیا ہے اور بلا تحقیق ا پنسلیوینیا میں مقیم ترک اسکالر فتح اللہ گولن پر الزام عائد کر دیا ہے کہ فوجی بغاوت کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔امریکہ نے عالمی قوانین کے تحت ترکی سے کہا ہے کہ وہ گولن کے خلاف ثبوت مہیا کرے۔ اس لفظی جنگ سے اکتا کر امریکہ نے اب سیدھے سیدھے ترکی کو خبر دار کیا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کی آڑ میں سیاسی مخالفین کوانتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنانے سے باز رہے۔ یہ وارننگ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور یورپی یونین نے مشترکہ طور پر جاری کی ہے۔
ترکی کو دن میں تارے نظرآ گئے ہیں، اب وہ پچھتا رہاہے کہ انہی ملکوں کہ شہہ پرا س نے افغانستان اور شام کے بے گناہ عوام پر بم کیوں برسائے، افغانستان میں تو ا سکی فوج نیٹوکا حصہ بن کر پچھلے کئی برسوں سے افغان عوام کے خلاف جابرانہ کاروائیوں میں مصروف ہے اور صدر اوبامہ نے انخلا کا جو فارمولہ دیا تھا اس کی رو سے امریکی ا ور نیٹو افواج چلی بھی جائیں تو بھی ترک افواج افغانستان میں مقیم رہیں گی اور استعماری کردارا دا کرتی رہیں گی۔
ترکی عالمی شطرنج کی بساط پر بری طرح پھنس چکا ہے۔
ترک صدر کے سر پرگولن کا بھوت اس قدر سوار ہے کہ ا س نے ملک میں عدلیہ کا تو مکمل طور پر صفایا کر دیا ہے اور فوج میں بھی سیاسی مخالفیں کو چن چن کر نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ایک سو تین جنر لز ار ایڈمرلز کو گرفتار کیا گیا ہے، یہ اعلی فوجی افسروں کی ایک تہائی تعداد کے برابر ہے، وزارت داخلہ سے نو ہزار لوگوں کو فارغ کر دیا گیا ہے، آٹھ باغی بھاگ کر یونان جا پہنچے تھے، ترکی ان کی واپسی کا مطالبہ کر رہاہے مگر یونان نے صاف کہہ دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں۔صدر اردوان نے استنبول ایئر پورٹ پر اترتے ہی دھمکی دی تھی کہ باغیوں کو سخت سزاؤں کے لئے تیار رہنا چاہئے، تازہ تریں خبر یہ ہے کہ صدر اردوان سبھی مشتبہ باغی افراد کو پھانسی دینا چاہتاہے۔جبکہ دوسری طرف یورپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ صدر اردوان نے سیاسی مخالفین کو موت کی سزائیں دیں تو ترکی کو کسی بھی حالت میں یورپی یونین کی رکنیت نہیں دی جائے گی۔واضح رہے کہ ترکی نے یورپی یونین کے لئے 1987 میں درخواست دی تھی لیکن 1999 میں اسے سنجیدہ امیدوار کی حیثیت دی گئی۔اب اگرا س نے کسی ایک کو بھی موت کی سزا سنا دی ا ورا س پر عمل بھی کر دیا تو یورپی یونین کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ پھر رکنیت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ترکی اب نہ جائے ماندن ، نہ پائے رفتن کی کیفیت سے دوچار ہے۔کہاں ساری دنیا کا میڈیا ترکی میں عوام اور جمہوریت کی فتح کے گن گا رہا تھا اور کہاں اب ترکی میں انتقامی کاروائیوں کی شہہ سرخیاں جمائی جا رہی ہیں۔
ترک صدر اردوان نے عالمی تشویش کو نظرا نداز کرتے ہوئے پھر کہہ دیا ہے کہ باغیوں کو قرار واقعی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ پیر کے روز ستائیس افراد کو بغاوت کے الزام میں عدالت میں پیش کیا گیا، انہیں قانونی مشاورت کی اجازت نہیں دی گئی۔
جنرل مصطفی کہتے ہیں کہ صدر اردوان کی طرف سے تطہیر کی کوشش اسے ترکی کے اندرا ور باہر ہر جگہ تنہا کر کے رکھ دے گی۔ترک صدر نے اپنی سخت گیر پالیسی پر نظر ثانی نہ کی تو تواسے آنے والے دنوں میں مشکلات ہی مشکلات کا سامنا کرناپڑے گا۔
سولہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت صدر اردوان کے لئے نت نئے مصائب کا آغاز ثابت ہوئی ہے۔
صدر اردوان کے دہرے اور شاطرانہ کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل مصطفی نے کہا کہ پہلے تو یمن کے مسئلے پر ترکی نے سعودی عرب کی پیٹھ ٹھونکی مگر صدرا ردوان نے ایران کا دورہ کیا اور اپنے لئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی سودے بازی کر کے سعودی عرب کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔
گولن اور اردوان کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے جنرل مصطفی نے کہا کہ چند برس پہلے تک گولن اس کا ہیرو تھا،مگر شخصی اقتدار مسلط کرنے پر دونوں کے راستے جد اہو گئے۔گولن نے جلا وطنی اختیار کرلی ، ترکی کے اندر گولن کے وسیع رابطے ہیں ، خاص طور پر عدلیہ کے اندر اس کی پیروی کرنے والوں کی اکثریت ہے،ا س لئے اس ادارے کو اردوان نے بلڈوز کر دیا ہے۔تعلیمی اداروں میں بھی گولن کو اثر و نفوذ حاصل ہے،وکلا کی بھاری تعداد بھی ا س کی پیرو کار ہے۔ اردوان نے ان تمام شعبہ ہائے زندگی میں انتقام جھاڑو پھیرنے کی کوشش کی ہے ۔
جنرل مصطفی کہتے ہیں کہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ بغاوت کی رات کی وڈیوز اور تصویروں تو کہیں موجود نہیں مگر اب سوشل میڈیا اور عالمی ٹی وی چینلز پر ترک قیدیوں کے ہجوم کے ہجوم دکھائے جا رہے ہیں۔اگر اتنی بڑی تعداد نے بغاوت میں حصہ لیا ہوتا تو اس کی ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر یہ بے چارے وہ لوگ ہپں جو گھروں میں سکون کی نیند سوئے ہوئے تھے اور انہیں اردوان کی اسپیشل فورسز نے نیندکی حالت میں جکڑ لیا۔ ان کے جسموں پر قمیصیں نہیں ہیں، ان کے ہاتھ پیچھے سے باندھ دیئے گئے ہیں، ان کے سر جھکے ہوئے ہیں اور عالمی میڈیا کہہ رہا ہے کہ ترکی کو زنجیریں پہنا دی گئی ہیں۔
جنرل مصطفی نے حیرت سے ڈوبے لہجے میں سوال ا ٹھایا ہے کہ کیا یہی وہ جمہوریت ہے جسے بچانے کا دعوی کیا گیا ہے۔ اور جس پر ہمارے ملک میں بھی مبارک سلامت کی صدائیں بلند کی جا رہی ہیں۔