وقت نیو ز پر سلیم بخاری بڑے تیکھے سوال کرہے تھے، میں نے محسوس کیا کہ جنرل محمد جاوید کے جوابات بڑے واضح ہیں اور وہ ہر ممکن صاف گوئی سے کام لے رہے ہیں۔ مذاکرے میں دیگر شرکا کی موجودگی میں شاید وہ بات مکمل نہ کر پائے، میں نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور انہوں نے کسی تامل کے بغیر ہاں کر دی۔
اب میں کوشش کروں گا کہ ان سے گفتگو کااحوال سوال جواب کی شکل میں کروں۔
سعودی عرب کی سربراہی میں جو چونتیس ملکی اتحاد بنا ہے، عالمی میڈیانے اسے سنی اتحاد کہا ہے۔
کوئی اسے جو مرضی نام دیتا رہے، مگر اسے سنی اتحاد نظر آنا نہیں چاہئے۔
توآپ کی خواہش ہے کہ یہ اسلامی اتحاد کی شکل اختیار کرے۔
باکل یہی ہونا چاہئے اورا س کے لئے اس میں ایران کی شمولیت ہر حالت میں ضروری ہے۔
اسے تو کسی نے دعوت دی نہیں۔
یہ کام پاکستان کر سکتا ہے، ایران کے صدر ہمارے ہاں دورے پر آ رہے ہیں، پاکستان کو سعودی عرب ا ورا س کے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر اور ان کی منظوری سے یہ پیش کش کر دینی چاہئے، میرا خیال ہے، ایران انکار نہیں کر سکے گا۔
پاکستان کس حیثیت سے اس ثالثی کی پوزیشن میں ہے۔
ہم ایک کوشش پہلے کر چکے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ پاکستان براہ راست مڈل ایسٹ کے کسی تنازعے میں ملوث نہیں۔ویسے بھی عالم عرب کی سیادت ایک زمانے میں مصر کے ہاتھ میں تھی، اب وہ خود بحرانوں کا شکارہے اور مختلف تنازعات میں ایک مخصوص پوزیشن لے چکا ہے، اس لئے قیادت کا ایک ایسا خلا ہے جسے پاکستان ہی پر کرسکتا ہے ،یہ ایک سنہری موقع ہے جو قدرت نے سونے کی طشتری میں رکھ کر ہمیں پیش کر دیا ہے۔
مگر ایران نے تو سعودی عرب میں پھانسی والے عالم دین کے نام پر اپنی ایک شاہراہ کا نام بھی رکھ دیا ہے، وہ کیسے آسانی سے مانے گا۔
ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا، اصل میں ہر اسلامی ملک جانتا ہے کہ ان کاا تحاد وقت کی ضرورت ہے اور ایک عرصے تک عالمی طاقتیں انہیں استعمال کرتی رہی ہیں۔
تو کیا عالمی طاقتیں اب ایسا نہیں کر پائیں گی۔
میرے خیال میں روس اور امریکہ ا ور نیٹو پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ جہاں بھی دخل دیتے ہیں ، ایک دلدل میں دھنس جاتے ہیں، سوویت روس تو افغانستان کی لڑائی کی وجہ سے ٹوٹ گیا، امریکہ ویت نام اور صومالیہ میں شکست کھا گیا، اب تو وہ زمینی فوج کو کہیں اتارنے کی حماقت بھی نہیں کرتے، بس بحری اور فضائی طاقت سے تباہی کا کھیل کھیلتے ہیں اور یہ کھیل بھی انہیں مہنگا پڑا ہے، روس شام سے نکل رہا ہے۔ امریکہ بھی ہاتھ اٹھا رہا ہے۔
آپ ببات کرتے ہیں امریکہ، روس اور نیٹو کی کہ وہ زمینی فوج کو کہیں جھومکنے کی حماقت نہیں کرتے مگر سننے میں آ رہا ہے کہ بھارت افغانستان میں فوج لا رہا ہے۔
یہ بات سننے تک ہی محدود ہے، دعا کریں کہ بھارت اپنی فوج افغانستان میں لائے ا ور پھرا س کا حشر دیکھنے وا لا ہو گا۔ویسے وہ سری لنکا میں مداخلت کا مزہ چکھ چکا ہے۔
کیا سعودی اتحاد کا کوئی مستقل ڈھانچہ بنے گا۔
ابھی تو ا سکی کوئی شکل سامنے نہیں آئی، لیکن اگر کوئی مستقل ڈھانچہ نہ بنا تو یہ ایک عارضی فینو مینا ثابت ہو گا،اسے وقتی ابال کہا جا ئے گا۔ اس اتحادمیں سفارت کاری کا عنصر مفقود ہے۔اس کے لئے با لآخر او آئی سی کو زندہ اور متحرک کرنا پڑے گا، یہ ایک مستقل ادارہ ہے، اس کاہر سطح پر ڈھانچہ موجود ہے۔
سعودی اتحاد پر بہت اعتراضات وارد ہو رہے ہیں مگر عر ب لیگ بنی، گلف کو آپریشن کونسل بنی تو ان پر تو کسی نے انگلی نہیں اٹھائی، نہ یہ کہا گیا کہ یہ فلاں کے خلاف ہے ا ور فلاں کے حق میں ہے۔
تب حالات مختلف تھے، اب یمن اور شام کی وجہ سے جوہری تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔
سعودی اتحاد کی کامیابی کے لئے آپ کے ذہن میں کوئی ا ور تجویز۔
اسے ماضی کے اتحادوں سے سبق سیکھنا چاہئے۔یہ کسی دوسرے خود مختار، آزادا ور ہمہ مقتدر ملک میں عملی مداخلت نہ کرے، صرف ایک اخلاقی، سفارتی طاقت کی حیثیت سے تنازعات کو حل کروانے کی کوشش کرے۔ نیٹو اور امریکی سربراہی میں جو اتحاد اس وقت سرگرم عمل ہیں، وہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گئے۔
اس اتحاد کا کم ا ز کم مقصد کیا ہونا چاہئے کہ یہ متنازع نہ بننے پائے۔
اس نے خود اعلان کیا ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف ہے،ساری دنیا کو یہ خطرہ درپیش ہے مگر عرب ممالک کچھ زیادہ ہی اس کی زد میں ہیں، داعش ایک مشترکہ خطرہ ہے اور ایک حقیقی خطرہ ہے، سنگین خطرہ ہے۔ یہیں تک محدود رہیں تو ساری دنیا ا س اتحاد کے پیچھے کھڑی ہو گی۔
اس اتحاد کو چلانے کے لئے اخراجات کہاں سے آئیں گے۔
یہ ایک اہم سوال ہے جس پر ضرور غور ہونا چاہئے۔ اب چاڈ جیسا ملک تو ایک دھیلا بھی خرچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔اردن نے بھی کہہ دیا ہے کہ اسے یو این ا و سے منظور کروایا جائے تاکہ اس کی حیثیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔رہا اخراجات کا بوجھ تو یہ جی سی سی کے ممالک کو برداشت کرنا ہو گا۔
مگر جناب ! خود سعودی عرب کی مالی حالت اس قدر پتلی ہے کہ صدی میں پہلی مرتبہ اسے بھاری قرضہ لینا پڑا ہے۔
یہ تیل کی قیمتیں گرنے کا اثر ہے ، مگر سعودی معیشت مستحکم ہے، قرضے تو امریکہ پر اتنے ہیں کہ حساب لگانے لگیں تو سر چکرا جاتا ہے۔
ہماری بحث کی تان ایران پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے، اسے مرکزی دھارے میں کیسے لایا جائے۔
یہ کام پاکستان کے لئے کوئی مشکل نہیں۔جب تک ایران پر عالمی پابندیاں رہیں ، پاکستان نے کئی ممالک میں ایران کے مفادات کا تحفظ کیا، دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور یہ ایکدوسرے کو ناراض نہیں کر سکتے، میری تو تجویز ہے کہ چین نے ایک سی پیک پاکستان کے ساتھ کیا ہے، دوسرا ایران کے ساتھ، دونوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل بننے کے بجائے ایک دوسرے سے مربوط کیا جاناچاہئے۔ گوادرا ور چاہ بہار کا 270 کلو میٹر کا فاصلہ ہے جوسرحد سے صرف ایک سومیل بنتا ہے، دونوں بندرگاہوں کو ریل کے ذریعے ملادیا جائے۔ اور پھرا سے بندر عباس تک توسیع دی جائے۔
کیا پاکستان کے ساتھ کوئی اورا سلامی ملک غیر جانبدار ہو کر سنی شیعہ والی بحث ختم کرا سکتا ہے۔
کیوں نہیں۔انڈونیشیا،مراکش،الجزائر،ملائیشیااورپاکستان ہم آواز ہو جائیں تو یہ فروعی بحث از خود ختم ہو جائے گی۔
جنرل جاوید کو عرب دنیا کا جغرافیہ زبانی حفظ ہے، حلب، انطاکیہ، لطاکیہ، ہاتے کا نام یوں لیتے ہیں جیسے بھائی پھیرو کے نواح میں واقع ہوں۔
شاید میں سب کچھ تو یاد نہیں کر پایا، اپنی کمزور یادادشت پر انحصار کیا ہے مگر جنرل جاوید نے اور بھی بہت کچھ کہا یا یوں کہہ لیجئے کہ دریا کوکوزے میں بند کر دیا، اب میں دریا کو کوزے سے نکال کر سمندر بنانے کی سعی ناکام کیوں کروں