حاصل گفتگو یہ تھا کہ پاکستان کو لینے والی قطار سے نکل کر ہاتھ سے کچھ دینے والی قطار میں بھی شامل ہونا چاہئے۔
ہم نے افغان جہاد لڑا،ا سوقت وزیر خارجہ آغا شاہی تھے،۔۔۔ کوئڈ پرو کو۔۔ کی اصطلاح پہلی بار ان کی زبان سے سنی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کو اس کی قربانیوں کا صلہ بھی تو ملے اور یہ صلہ اربوں کھربوں میں ملا ، ایک دو جرنیل دنیا میں نہ رہے مگر ان کی ا ولادیں دولت سے کھیلنے لگیں۔
دوسری افغان جنگ میں ایک نئی اصطلاح رائج ہوئی، یہ تھی۔۔ ڈو مور۔۔اب امریکہ کا مطالبہ تھا کہ ہمارے ڈالر تو کھاتے ہوِ کچھ کر کے بھی دکھاؤ۔اس مطالبے نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی۔
مگر پارلیمنٹ میں سعودی عرب کی امداد کے بارے میں قرار دادآئی تو ہم نے صاف اور چٹا انکار کر دیا، ابھی تو سعودیہ کے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ڈکار بھی نہ لے پائے تھے۔ سعودی عرب، بحرین، کویت اور خلیج سے ہم نے خوب مال کھایا اور جب ان کو ضرورت پڑی تو ہم۔۔۔ کوئڈ پر کو ۔۔۔بھی بھول گئے اور ڈو مور کے تقاضے کو طھی سنا ان سنا کر دیا، امریکہ نے آنکھیں دکھا کر ہمیں بارہ سال تک مروایا۔ہمارے ستر ہزار فوجی ا فسر، جوان شہری اور معصوم کلیوں جیسے بچے شہید ہوئے تو کیا ہم سعودی عرب کا برسوں سے جو کھا رہے ہیں ، اس کا صلہ یہ ہے کہ اس کو صلواتیں سنائیں۔
پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ جن ملکوں سے ہمارے قریب تریں تعلقات قائم ہیں، ان میں سعودی عرب سر فہرست ہے،ا سنے ہمیشہ دامے درمے سخنے مدد کی اور بے لوث طریقے سے کی، اس نے پینسٹھ ا ور اکہتر کی جنگوں میں ایک درد مند بھائی کی طرح ہمارا ساتھ نبھایا،ا سنے ہمارے ایٹمی پروگرام کی پیش رفت کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ہم نے ایٹمی دھماکے کئے تو سعودی عرب بھی سرخوشی اور سرمستی سے سرشار ہو گیا، ہمارے تارکین وطن کی عزت میں اضافہ ہو اکہ وہ ایک ایٹمی ملک کے شہری ہیں، دنیا نے ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو سعودی عرب نے بعد میں ادائیگی کی سہولت کے ساتھ لاکھوں بیرل پٹرول کی فراہمی شروع کر دی، یہ اصل میں فری سپلائی تھی۔
ساجد میر کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو دیکھے جا سکتے تھے، انہوں نے سقوط ڈھاکہ کا ذکر کیا اور شاہ فیصل کے رد عمل کے بارے میں بتایا کہ کس طرح وہ بلک بلک کرا س سا نحہ پر روئے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ جیسے ان کے اپنے وطن کاایک بازو کٹ گیا ہو۔سعودیہ نے بنگلہ دیش کو پاکستان سے بہت بعد میں تسلیم کیا اور دل پر پتھر رکھ کرتسلیم کیا ۔
سوال یہ تھا کہ ہم یمن میں مداخلت پر ساتھ کیسے دیتے۔
پروفیسر صاحب نے پر سکون انداز میں کہا کہ اگر امریکہ اور روس کو حق حاصل ہے کہ وہ عراق، شام، لیبیا، افغانستان کی حکومتوں کے بارے میں فیصلہ کریں اور یہ کہیں کہ ان ملکوں کے حالات سے ا مریکی سلامتی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، اگر بھارت یہ کہتا ہے کہ سری لنکا، مالدیپ ، بنگلہ دیش، سکم ، نیپال ، بھوٹان کی حکومتوں کا اس نے فیصلہ کرناہے اور اگر پاکستان یہ اصرار کرے کہ افغانستان اس کے لئے اسٹریٹیجک ڈیپتھ ہے اور وہ کابل میں پاکستان دوست حکومت کے قیام کا خواہا ں ہے تو سعودی عرب نے اگر یہ کہہ دیا کہ یمن کی بد امنی سے اس کی سلامتی کوخطرہ درپیش ہے تو ہم ا س سے یہ حق کیسے چھین سکتے ہیں۔امریکہ نے دوبار افغانستان میں مداخلت کی مگرا سے کسی نے اس کی دعوت نہیں دی،روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں تو اسے کسی نے دعوت نہیں دی تھی، سعودی عرب کو تو یمن کے قانونی حکمران نے خود دعوت دی۔اور ایک دلیل ملاحظہ فرمایئے، ہم ے افغانستان کی پہلی جنگ میں چھلانگ لگائی تو ہماری ایک ہی دلیل تھی کہ روس صرف افغانستان تک رکنے ولا نہیں ، وہ آگے بڑھ کر بلوچستان کے گرم ساحلوں پر قبضہ کرے گا اور زار شاہی زمانے کی خواہش کی تکمیل کرے گا تو اس دلیل کی بنیاد پر اگر سعودی عرب نے کہا کہ یمن میں بد امنی کا مقصد در اصل آگے بڑھ کر اس کے قلب میں چھرا گھونپنے کی سازش ہے تو اس میں سعودی عرب کو ہم غلط کیسے کہہ سکتے ہیں۔
ساجد میر نے ہمارے تما م اشکالات، شبھات اور اعتراضات کامنہ بند کر دیا تھا۔
مگریہ تو بتایئے کہ ہم نے سعودیہ کی کوئی مدد کی یا نہیں۔
ساجد میر نے جواب میں کہا کہ وہ تصدیق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن ہماری ہچر مچر کے باوجود کچھ تعاون تولگتا ہے ، ہم نے سعودیہ سے کیا ہے ، خواہ وہ سعودی فوج کی تربیت کے سلسلے میں ہو یا کسی اور شکل میں کیونکہ پہلے پہل یمن کے خلاف سارے فضائی حملے کئے جا رہے تھے ا ور اگر کوئی زمینی کاروائی ہوتی بھی تھی تو پیش رفت نظر نہیں آتی تھی ، بعد میں یہ زمینی حملے کارگر ثابت ہوئے، یہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
ایساکیوں ہے کہ سعودی عرب ایک ٹھنڈے مزاج کا ملک تھا اور کبھی رد عمل شو نہیں کرتا تھامگر اب ہر جگہ وہ مداخلت پرآمادہ ہے۔ بحرین میں تو ٹینک بھجوا دئے، یمن کا تنازعہ پھیل گیا اور شام میں بھی سعودی عرب سرگرم عمل ہے۔کیا سعودی عرب کے نوجوان حکمران تحمل سے کام نہیں لے سکتے۔
مسئلہ نئی اور پرانی نسل کا نہیں ہے، ساجد میر نے کہا۔مصیبت یہ ہے کہ سعودی عرب کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہاں آج کوئی بھی حکمران ہوتا تو اس کا رد عمل یہی ہوتا، کون ہے جو جیتے جی اپنی سلامتی کی فکر نہ کرے۔
آپ کا زیادہ رابطہ سعودی علما سے رہتا ہوگا، سناہے وہ شاہی خاندان پر حاوی ہیں۔
ساجد میر نے کہا، یہ پرانی بات ہے ، اب علما اور مذہبی طبقہ حکومت کی پالیسی کی پابندی کرتا ہے۔
کیا شاہی خاندان سے بھی آپ کے مراسم ہیں۔
جواب ملا۔ موجودہ بادشاہ جب ریاض کے گورنر تھے تو ان سے ملاقاتیں رہی ہیں ، اب ان کاپروٹوکول بہت اوپر چلا گیا ہے، ان سے پہلے ایک شہزادے سے میری بہت قربت تھی اور وہ ملکی ا ور غیر ملکی حالات پر کھل کر تبصرہ کرتے تھے حالانکہ سعودی حکمران خاندان عام طور پر خاموش رہنے کا عادی ہے۔
نواز شریف ا ور راحیل شریف نے سعودیہ کے دورے کئے ، پھر امن مشن کے لئے ایران بھی گئے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان سے برف پگھلنے میں کوئی مد دملی۔
ساجد میر نے نفی میں جواب دیا، وہ قدرے مایوس نظرآ رہے تھے۔
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ بالآخرمسلم امہ کے مسائل کا حل اتفاق اور اتحاد میں مضمر ہے۔ تو ا سکے لیے کیا اقدام تجویز کریں گے۔
پروفیسر صاحب نے پوری سنجیدگی سے کہا کہ بالکل درست بات ہے، اتحاد امت ہی ہماری منزل ہونی چاہئے مگرا سکے لئے شروع کہاں سے کیا جائے ۔ انہوننے جوابی سوال داغ دیا۔
میری تجویز تھی کہ قرآن اور حدیث پر اتفاق تو ہو جانا چا ہئے مگر پھر بھی تفرقہ بازی ہے، ایران والے اقبال ہندی کے پجاری ہیں، ہم کلام ا قبال فارسی بغل میں داب کر تہران جائیں تو شاید بات بن جائے۔ بات تو اقبال نے بھی اتحاد امت ہی کی، کی ہے، سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا،لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔
اس اتفاق رائے پر یہ مکالمہ اختتام پذیر ہوا۔