خبرنامہ

اوورسیز پاکستانیوں کے دکھوں کامداوا۔…۔اسدللہ غالب

سیانے کہتے ہیں، دل بدست آور کہ حج اکبرا ست۔پنجاب کے خادم اعلی اپنے تئیں بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں، ان کی وجہ سے انہیں ووٹ ملتے ہیں اور اگلی حکومت ملتی ہے مگر اوور سیزپاکستانیز کمیشن کے قیام سے انہوں نے دکھی دلوں کا مداوا کرنے کا جو عمل شروع کیا ہے،ا س سے دنیا میں انہیں نیک نامی کے سوا شاید کچھ اور نہ ملے کیونکہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ابھی نہیں ملا، لیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک دکھی ماں کے آنسو پونچھنے سے خادم اعلی جنت کے اعلی مرتبے ضرور کما رہے ہیں۔
کسی ایک اوور سیز پاکستانی کے دل کے تاروں کو چھیڑ دو، آپ کو ایک نیا دکھڑا سننے کو ملے گا، جتنے لاکھ پاکستانی بیرون ملک کام کر رہے ہیں ، اگر ان سب کو کوئی دکھ لاحق نہیں تو ہزاروں کو ضرور لاحق ہے۔ پنجاب کے کمیشن کو ڈیڑھ برس کے عرصے میں تین ہزار سے زاید شکایات موصول ہو چکی ہیں ، اور ہم بیڈ گوورننس کا رونا روتے ہیں مگر آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ ساٹھ فیصد شکایات کا ازالہ ہوچکا ہے۔
اس کمیشن کے چیئر مین خود وزیر اعلی ہیں ا ور وائس چیئر مین کیپٹن شاہین بٹ جو نیویارک کے پوش علاقے مین ہیٹن میں ایک ریستوران چلاتے رہے، یہ ریستوران دراصل پاکستانی سیاست کا چوپال تھا، جہاں ہر ایک کو اظہار ارئے کی آزادی حاصل تھی، شاہین بٹ نے اپنی سیاسی یا ذاتی وابستگی کی وجہ سے کسی پر اس ریستوران کے دروازے بند نہیں کئے اور یہی ریستوران میاں شہباز شریف کے طرز سیاست ا ور حکومت کو بدلنے کا باعث بھی بنا۔ ہوا یوں کہ میاں صاحب جلاوطنی گزارنے ا ور علاج معالجے کے لئے نیویارک پہنچے تو انہوں نے شاہین بٹ سے پوچھا کہ نیویارک امن کا گہوارہ کیسے بن گیا، اس شہر پر تو مافیا کا راج تھا اور دن دیہاڑے ڈکیتیاں ہوتی تھیں اور عزتیں لٹتی تھیں۔شاہین بٹ نے میاں صاحب کی ملاقات شہر کے انقلابی میئر جولیانی سے کرائی، جس نے بتایا کہ وہ خود اسی مافیا کا حصہ تھا مگر شہر کو چلانے کی ذمہ داری سنبھالی تو پتہ چلا کہ مافیا کو ختم کئے بغیر چارہ نہیں، اس نے مافیا کے سرغنوں کومیٹنگ کے لئے بلایا اور واضح کیا کہ آج سے ان کادور ختم، وہ اپنی عادتیں چھوڑ دیں یااس شہر کو چھوڑ دیں۔بس پھر کیا تھا، مافیا کے غنڈوں کی شامت آ گئی، پولیس ان کو بے دھڑک گرفتار کرتی، عدالتیں انہیں ریلیف دینے سے انکار کرتیں کیونکہ وہ خود ان کے ہاتھوں نالاں تھی۔
میئر جولیانی کی ا س گوورننس نے میاں شہباز شریف کی سوچ یکسر تبدیل کر دی، سختی توان کی طبیعت میں پہلے بھی تھی مگر اب انہوں نے انقلابی بننے کی ٹھان لی۔بدلاہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان کا نعرہ ان کی اسی سوچ کے بھنور کا عکاس تھا۔
جلاوطنی ہی کے دنوں میں شہباز میاں نے اوور سیز پاکستانیوں کی دکھ بھری کہانیاں سنیں، دکھیارے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ان کا دل بھی خون کے آنسو روتا تھا، اب انہوں نے پنجاب میں اوور سیز پاکستانیز کمیشن بنایا ہے تو انہی دکھوں کا مدوا کرنے کے لئے ، وہ خود اس کے چیئر مین ہیں اور کپیٹن شاہین بٹ اس کے وائس چیئر مین،نمبر ون کلب روڈ لاہور میں اس کا دفتر ہے، اورسارا دن یہاں بیرون ملک پاکستانی اپنی شکائتوں کے انبار لگا دیتے ہیں، سب کی کہانی ایک سی ہے، بس چہرے بدلتے ہیں ورنہ ظلم کی داستان یکساں ہے، جائیداد پر قبضہ، امانت میں خیانت۔یا پھر پولیس اور افسر شاہی کی چیرہ دستی،ایئر پورٹ سے گھر پہنچنے تک ان کی لوٹ مار۔
اس کمیشن کی تشکیل کے لئے پنجاب اسمبلی نے باقاعدہ قانون سازی کی ہے، کوئی ڈیڑھ برس سے یہ کمیشن کام کر رہا ہے اور چار ہزار شکایات کا باقاعدہ ا ندراج ہو چکا ہے، ہم اٹھتے بیٹھتے بیڈ گوورننس کا رونا روتے ہیں مگرا س کمیشن نے ساٹھ فیصد شکایات کا ازالہ کر دیا ہے۔
کمیشن کا خرچہ کہاں سے چلتا ہے، اس کا بجٹ کہاں سے آتا ہے،کیپٹن شاہین بٹ کا کہنا ہے کہ انہیں قیادت نے ہدائت کی ہے کہ اوور سیزپاکستانی اپناپیٹ کاٹ کر اربوں روپے زر مبادلہ کی شکل میں پاکستان کے خزانے کی نذر کرتے ہیں، اگراس کا ایک فی صد بھی ہم ان پر خرچ کر دیں اور ان کی آسودگی کی صورت نکل آئے تو اس سے بڑی نیکی اور سعادت اور کیا ہو سکتی ہے۔
کوئی بڑا مسئلہ جو آپ نے حل کیا ہو، شاہین بٹ نے کہا، نام لینا مناسب نہیں مگر ایک یتیم بچہ اپنی ماں کے ساتھ برطانیہ سے آیا ،ا سنے اپنے امیر کبیر چچا سے پوچھا کہ کوئی ا سکی جائیداد، چچا نے بلا تامل اسے ڈیڑھ کروڑ کا چیک دے دیا، بچہ بے حد خوش ہوا، مگراس کی خوشی عارضی تھی، یہ چیک باؤنس ہو گیا اور وہ پھر سے بے یارو ومددگار پھرنے لگا، کسی وکیل سے ا س نے رجوع کیا مگر فیس کی ادائیگی کی سکت نہ ہونے کی صورت میں وکیل نے کیس لڑنے سے معذرت کر لی ، کسی نے اسے کمیشن کے بارے میں بتایا ۔ وہ یہاں چلا آیا، اس کے ہاتھ میں باؤنس چیک تھا اورکرائے کے مکان کے بقایا جات کے مطالبات۔وہ کہہ رہا تھا،انکل، مجھے چند ہزار ہی دلوا دیں،میں کرایہ مکان ادا کر دوں اورا س ملک سے چلا جاؤں۔ ہم نے اسے تسلی دی کہ اب تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے اس امیر کبیر چچا صاحب کے خلاف پرچہ درج کرانے کی کوشش کی مگرا سکے ہاتھ لمبے تھے ا ور پرچہ درج نہ ہو سکا، ہم نے ا سے دفتر بلایا اورو اضح کیا کہ یتیم کا مال ہر حالت میں واپس کرنا پڑے گا،ا س نے نیا چیک دینے کا وعدہ کیا، ہم نے سختی کی کہ یہیں بیٹھو اور دفتر والوں سے کہہ کر بینک ڈرافت منگواؤ ۔ چندگھنٹوں کے اندر یتیم بچے کے ہاتھ میں ڈیڑھ کروڑ کا بینک ڈرافٹ تھا ، مارے خوشی کے وہ چیخنے لگا، اب وہ پاکستان میں سیٹل ہو چکا ہے، اس نے اپنی مزید جائیداد کا سراغ لگا لیا ہے، ہم بھی ا س کی مدد کر رہے ہیں ا ور وہ بھی وکیلوں کے ذریعے اپنے حق کی بازیابی کی قانونی جنگ لڑ رہا ہے۔
برطانیہ ہی کی ایک خاتون نے اپنے کسی عزیز کو کروڑوں روپے سرمایہ کاری کے لئے دیئے،ا س سے وعدہ کیا گیا کہ اسے کم از کم پندرہ لاکھ روپے منافع ہر ماہ ملے گا، یہ چند ماہ دے بھی دیا گیا، پھر وہی کہانیاں کہ نقصان ہو گیا، لٹ گئے، مارے گئے۔اس عورت کے پاس کوئی تحریری معاہدہ بھی نہ تھا،وزیراعظم یا وزیر اعلی لند ن جاتے تو وہ ان کاراستہ روک کر کھڑئی ہو جاتی، کیپٹن شاہین کو حکم ملا کہ ا س خاتون کی داد رسی کی کوشش کریں۔اس خاتون کو بھی ا سکا حق لوٹا دیا گیا۔
بھائیوں میں تنازعہ تھا کہ ان کے ایک بھائی نے ان کی ماں کو مکان سے نکال دیا ہے، مکان تو سب کا مشترکہ ہے، ماں بے چاری ضیعف العمری کا شکار، کوئی پوچھنے والا تک نہ تھا، آج وہ اپنے مکان میں واپس رہائش پذیر ہے۔
اوورسیزپاکستانی سب سے زیادہ ہاؤسنگ کمپنیوں کے ہاتھوں لٹتے ہیں، ایک بہت بڑے ہاؤسنگ ادارے سے اب تک پینتالیس مکانوں کا قبضہ دلوایا جا چکا ہے، دس مکانوں کا ایک مرتبہ اور پینتیس مکانوں کا دوسری مرتبہ، باقی مکانوں کی ملکیت دینے کے ٹھوس وعدے لئے جا چکے ہیں، اس ا دارے سے ایک مکان کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
کیپٹن شاہین اس دور کا فرہاد ہے جو سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹ کر جوئے شیر لانے کے معجزے دکھا رہا ہے۔خادم اعلی کا بھر پور اعتماد اسے حاصل ہے ا ور وہی پولیس اور وہی افسر شاہی جو اوو رسیز پاکستانیوں کو رسواکرنے کی عادت میں مبتلا تھی، اب پنجاب کے ہر ضلع میں ڈی سی او کے ساتھ تین رکنی کمیٹی کام کر رہی ہے اور اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل کا تیزی سے حل نکالا جا رہا ہے۔
Where there is a well , there is way