خبرنامہ

حیران کن کامیابی کی ایک اور داستان…عامر خاکوانی

چند دن پہلے میں نے انگلش پریمیئر لیگ (فٹ بال) میں ایک غیر نمایاں ٹیم لیسٹر سٹی کی چونکا دینے والی شاندار کامیابی پر کالم لکھا۔ لیسٹر نے انگلش پریمیئر لیگ جیت کر فٹ بال کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ جس دن کالم چھپا، اسی روز انگلینڈ سے بعض دوستوں کی ای میلز اور فیس بک پیغامات آئے، جن میں کہا گیا کہ کامیابی کی ایک اور حیران کن داستان بھی جلد سامنے آنے والی ہے۔
یہ انہونی ہو چکی‘ اور صادق خان الیکشن جیت کر لندن کے پہلے مسلمان میئر کے طور پر حلف اٹھا چکے ہیں۔ مغربی دنیا کی سیاسی تاریخ میں یہ بلا مبالغہ ایک نیا باب ہے۔ اس ویک اینڈ پر صادق خان کی جیت کے حوالے سے مواد اکٹھا کرتا رہا۔ لندن میں مقیم کئی دوستوں سے تفصیلی بات ہوئی۔ معروف موٹی ویٹر سپیکر، این ایل پی کے ایکسپرٹ اور آئی ایم پاسیبل جیسی کتاب کے مصنف عارف انیس ملک پچھلے کئی برسوں سے لندن میں ہیں۔ برادرم عارف انیس ملک صادق خان کی کیمپین میں بطور کنسلٹنٹ شریک رہے، ان کا ایک تجزیہ الیکشن سے پانچ دن پہلے ایک معروف جرمن اخبار نے شائع کیا، جس میں وہ منطقی دلائل دیے گئے تھے، جن کے باعث صادق خان کی جیت یقینی تھی۔ عارف انیس ملک نے ازراہ تلطف واٹس ایپ پر ایک تفصیلی کال کی اور کیمپین کے بعض اہم گوشوں سے آگاہ کیا۔
صادق خان کے بیک گرائونڈ اور بس ڈرائیور کا بیٹا ہونے کے حوالے سے ہمارے ہاں خاصا کچھ شائع ہو چکا ہے۔ یہ بیک گرائونڈ کئی حوالوں سے اہم تھا، اس نے ایک خاص نفسیاتی تاثر بھی پیدا کیا۔ اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کو یاد ہو گا کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے میں کئی دیگر فیکٹرز کے ساتھ ان کے ‘چائے والا‘ ہونے کا بھی حصہ رہا۔ مودی ایک زمانے میں چائے بیچتے رہے، انہوں نے اسے اپنا ”تمغہ امتیاز‘‘ بنا لیا۔ وہ عام آدمی سے تعلق جوڑنے کے لئے فخریہ جلسوں میں کہتے کہ میں ایک چائے والا ہوں۔ صادق خان حکومت کی جانب سے مدد کے طور پر ملنے والے مکان میں پلے، عام سرکاری سکول سے میٹرک کیا، بعد میں بھی انہیں کسی بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ شروع میں سائنس پڑھ رہے تھے کہ ان کی ایک ٹیچر نے وکیل بننے کا مشورہ دیا۔ ٹیچر کے بقول نوعمر صادق خان دلیل سے بات کرتا اور وکالت میں اسے کامیابی مل سکتی ہے۔ یہ صادق خان کی زندگی کا فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ وہ اگر دانتوں کے ڈاکٹر بن جاتے یا کوئی اور شعبہ اختیار کرتے تو ایک خاص سطح سے زیادہ کی کامیابی نہ مل پاتی۔ لگتا ہے کہ قدرت کا لافانی ڈیزائن آف نیچر انہیں وکالت میں لے آیا۔ وکیل کے طور پر انہوں نے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک مشہور وکیل کو جوائن کیا۔
ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کی حیثیت سے ان کے پاس زیادہ تر کیسز پسے ہوئے، مظلوم لوگوں کے آئے۔ صادق خان نے نہایت جوش و خروش سے ان کیسز کو لیا اور بہت سے لوگوں کو ریلیف دلایا۔ لندن پولیس، بلدیہ اور دیگر سرکاری محکموں سے جنہیں شکایات تھیں، جو لوگ پولیس کے رویے سے نالاں تھے یا جنہیں نسل پرستی کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا تھا… ان سب کی پیروی صادق خان نے کی۔ اس حوالے سے ان کے کئی کیسز بڑے مشہور بھی ہوئے۔ پولیس تشدد کا نشانہ والے ایک ہیر ڈریسر ”کینتھ ہسو‘‘ کو خان نے پولیس سے ہرجانہ دلوایا۔ نسلی امتیاز کا نشانہ بننے والے کالوں اور دیگر رنگدار قومیتوں کے اساتذہ کے مقدمے لڑے۔ امریکی سیاہ فاموں کی تنظیم نیشن آف اسلام کے سربراہ لوئیس فرح خان کا کیس بھی صادق خان ہی نے لڑا۔ نائن الیون کے بعد اور خاص طورپر انگلینڈ میں سیون سیون کے بم دھماکوں کی وجہ سے مسلمانوں میں پھیلنے والی دہشت کے دنوں میں صادق خان کا کردار بڑا نمایاں اور بھرپور رہا۔ تب تک وہ جنوبی لندن کے علاقہ ٹوٹنگ سے رکن پارلیمنٹ بن چکے تھے۔ صادق خان نے مختلف مسلمان تنظیموں کے پلیٹ فارم سے بہت سے پروگرام کئے، امید افزا تقاریر کیں، پاکستانی، بھارتی، بنگالی اور دیگر ممالک کے مسلمانوں سے حوصلہ بلند رکھنے کا کہا۔
انہی تقریروں میں سے بعض صادق خان کے لئے مشکلات کا باعث بھی بنیں۔ میئر کے انتخاب میں ان کے حریف زیک گولڈ سمتھ نے ماضی کی ان تقریروں میں سے بعض کے حوالے دیئے کہ صادق خان نے ان میں شدت پسند مسلمان مقررین کے ساتھ تقاریر کیں (یعنی پلیٹ فارم شیئر کیا)۔ ان میں جنوبی لندن کے ایک عالم دن سلمان غنی شامل ہیں۔ سلمان غنی پر شدت پسندوں کو سپورٹ کرنے کے الزامات ہیں۔ 2004ء میں ”سٹاپ پولیٹیکل ٹیرر‘‘ نامی گروپ کے پروگرام میں صادق خان اور سلمان غنی ایک ساتھ شریک ہوئے۔ سلمان غنی مبینہ طور القاعدہ یمن کے رہنما انورالعلاقی کے قریب تھے، یاد رہے کہ انورالعلاقی ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے جا چکے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں بین کی جانے والی ایک تنظیم المہاجرون کے رہنما سجیل ابراہیم اور سزا پانے والے ایک شدت پسند یاسرالسیدی کے ساتھ بھی صادق
خان ایک ہی سٹیج پر بیٹھے۔ ان کے حوالے سے ایک ایسے سیمینار کی ویڈیو بھی موجود ہے، جس میں ہال کے دروازے پر لکھا ہے کہ خواتین دوسرے دروازے سے آئیں اور ہال کی ایک سائیڈ پر ان کی نشستیں مخصوص ہیں۔ یاد رہے کہ انگلینڈ کے قوانین اور ماحول کے حساب سے ایسا کرنا جرم ہے۔ کسی بھی پبلک پروگرام میں خواتین کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی مخصوص دروازے سے آئیں اور ان کی نشستیں الگ ہوں گی۔ برطانوی قوانین اسے خواتین کے ساتھ امتیاز کے زمرے میں لیتے ہیں ۔ زیک گولڈ سمتھ اوربعض دوسرے کنزرویٹو لیڈروں کا کہنا یہ تھا کہ صادق خان کے شدت پسندوں سے تعلقات ہیں اوراس کے لندن کا میئر بننے کے بعد شدت پسند مسلمانوں کو تقویت ملے گی۔ بعض کنزرویٹوز لیڈرز براہ راست صادق خان پر دہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا الزام تو نہیں لگاتے رہے، مگر ان کا کہنا تھا کہ صادق خان مردم شناس نہیں ہیں، ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ جانچ اور پرکھ سکیں کہ کہاں خطاب کرنا ہے، کہاں نہیں؟ صادق خان کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ہر سیمینارز میں مختلف مقررین ہوتے ہیں، جن کی فہرست کوئی ایک مہمان مقرر طے نہیں کر پاتا، پروگرام کرانے والے ہی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ صادق خان کی ایک دلیل مضبوط اور کارگر رہی کہ ان تمام پروگراموں میں انہوں نے کبھی شدت پسندی کی حمایت نہیںکی، ان کے بیانیہ کو سپورٹ کرنے کے بجائے عام مسلمانوں کو مین سٹریم میں رہنے اور شدت پسندی سے دور رہنے کی تلقین کی۔
ہمارے ہاں یہ الیکشن اور نتیجہ عمران خان کی وجہ سے بھی زیر بحث رہا۔ زیک گولڈ سمتھ عمران کے سابقہ سالے اور ان کے بچوں کے ماموں ہیں۔ عمران خان زیک گولڈ سمتھ کے حامی رہے ہیں، انہوں نے ایک آدھ پروگرام ان کی حمایت میں بھی کیا اور پاکستانی ووٹروں سے زیک کو ووٹ ڈالنے کا کہا۔ عمران مخالف پاکستانی سیاسی حلقے اسے ایک یہودی کی حمایت سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ لندن معرکے کو مانیٹر کرنے والے بتاتے ہیں کہ عمران کا صاحبزادہ سلمان خان پچھلے دو ڈھائی ماہ کی انتخابی مہم میں اپنے ماموں کے ساتھ رہا۔ اس نے زیک گولڈ سمتھ کی انتخابی مہم میں پرجوش انداز سے حصہ لیا اور تمام پروگراموں میں نمایاں (Visible) رہا۔ اگرچہ جمائما خان نے آخری دنوں میں زیک کی مہم میں نسل پرستانہ رنگ آجانے کی وجہ سے اس کی حمایت نہیں کیا اور نتیجہ آنے کے بعد برملا اس حوالے سے ٹویٹ بھی کیا۔ عمران خان بھی آخری چند ہفتوں میں خاموش رہے اور لندن جانے سے بھی گریز کیا، اس کی وجہ شاید یہی تھی۔ ویسے دلچسپ بات ہے کہ زیک گولڈ سمتھ کے بارے میں لوگوں کی بہت اچھی رائے تھی۔ ہالی وڈ ہیروز لک اور سٹائل رکھنے والا زیک ایٹن جیسے اشرافیہ سکول سے پڑھا ہے۔ ایک پاکستانی دوست سے ، جس نے شروع میں زیک کی مہم میں کچھ معاونت کی، بات چیت ہوئی تو اس کا کہنا تھا کہ زیک ایک بھولا بھالا سا، گڈ لکنگ، گڈ نیچر شخص ہے، جس کے دامن پر کسی قسم کی مالی، اخلاقی کرپشن کا دھبہ نہیں۔ ماحولیات اس کا خاص موضوع ہے، وہ لندن کے حوالے سے اصلاحات کا حامی اور امریکی نسل پرست صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کاسخت مخالف اور ناقد ہے۔ یہ اور بات کہ اس کی کیمپین چلانے والوں نے آخر میںاسکی انتخابی مہم میں وہ اینٹی مسلم رنگ شامل کر دیا، جس نے فائدہ پہنچانے کے بجائے زیک کو شکست سے دوچار کیا۔
صادق خان 56.8 فی صد ووٹ لے کر میئر بنے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ان سے قبل کسی کو اتنا بڑا مینڈیٹ نہیں ملا۔ یہ غیرمعمولی کامیابی کیسے ملی، صادق خان کی انتخابی مہم سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟… اس پر اگلے کالم میں بات کرتے ہیں۔