خبرنامہ

فرانس میں مذہبی اور نسلی ہم آہنگی…اسداللہ غالب

فرانس میں مذہبی اور نسلی ہم آہنگی…اسداللہ غالب

اپنے روز مرہ کے جھگڑوںمیںگ ہمیںنہ بھول جائیں۔ یہ سن کر میرا دل ہل گیا، فون کے دوسری طرف پیرس کے شہزاد اختر صاحب تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ایک طرف ہم خون پسینے کی کمائی سے قیمتی زرمبادلہ اہل وطن کی نذر کر رہے ہیں، دوسری طرف دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے ہمیں پریشانیاں لاحق ہیں، شہزاد اختر کا تعلق منڈی بہاﺅالدین کے علاقے ڈھوک جوڑا سے ہے، وہ کئی برسوں سے فرانس میں مقیم ہیں اور پاکستانی کمیونٹی کے سا تھ ان کا گہرا رابطہ ہے، وہ سماجی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی لیتے ہیںمگر ان کا اصل طرہ امتیا ز یہ ہے کہ وہ مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو بہتر بنانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔
فرانس میں پچھلے چند برسوں میں خونریزی کے کئی سانحے رونما ہوئے۔ شہزاد اختر نے حوصلہ افزا نکتہ یہ بتایا کہ فرانسیسی قوم بڑی فراخدل اور معاملہ فہم ہے، وہ تعصب کے مرض کا شکار نہیں اور کسی ڈاڑھی والے یا مسلمان نام کے شخص کو فرانس میں شک و شبہے کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، نہ فرانس کے ایئرپورٹوں پر وہ سختی ہے جو نیویارک یا واشنگٹن میں دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فرانسیسی قوم صدق دل سے سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے تارکین وطن کا سرے سے ہاتھ نہیں، یہ انتہا پسندی کی وارداتیں ہیں اور دہشت گرد کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔ فرانس وہ پہلا ملک ہے جس نے مسلم اسپین سے علمی، تحقیقی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں استفادہ کیا، فرانسیسی قوم نے مسلم سائنس دانوں، مفکروں اور فلسفیوں کو فراموش نہیں کیا۔ شہزاد اختر بتا رہے تھے کہ پیرس میں آپ کو ابن سینا ہسپتال بھی ملے گا جو کہ اپنی مثال آپ ہے اور جدید ترین مشینری سے لیس ہے، پھر آپ کو ابن سینا ایونیو پر بھی چہل قدمی کا موقع ملے گا۔
عجب باتیں ہیں شہزاد اختر کی کہ آج کے پاکستان کی نئی نسل ابن سینا کے بارے میں کچھ نہیں جانتی اور پاکستان کی شاید ہی کوئی شاہراہ ابن سینا، یا ابن خلدون، یا ابن رشد سے منسوب ہو۔
برطانیہ میں مجھے جانے کا کئی بار موقع ملا، وہاں پاکستانی فخر سے بتاتے ہیں کہ برطانیہ نے سوشل سیکورٹی کا نظام اسلام سے اخذ کیا، میں نے شہزاد اختر صاحب سے پوچھا کہ کیا فرانس کا سوشل سیکورٹی نظام بھی اسلام کے قریب ہے ، انہوںنے بتایا کہ صرف فرانس نہیں، پورا یورپ اس سلسلے میں اسلام سے مستفید ہوا، خاص طور پر خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ نے سوشل سیکٹر میں جو اصلاحات کیں ، وہ ہوبہو یورپ میں نافذ ہیں بلکہ کہیں کہیں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ سب اسلام کا چربہ ہے۔
شہزاد اختر چونکہ مذہبی ہم آہنگی کی فضا بہتر بنانے کے حق میں ہیں ،اس لئے انہوںنے اپیل کی ہے کہ پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ اگر فرانس آئے تو وہ یہاں کے دانش وروں، صحافیوں، سیاستدانوں سے ڈائیلاگ کرے اور ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر رکھے، فرانس میں اس امر کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام تو امن وسلامتی کا مذہب ہے۔ اس کا انتہا پسندانہ کوئی رخ نہیں۔ دہشت گرد ی ا ور خودکش دھماکہ خیزی کی تو اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔ دنیا میں اسلام کے فروغ میں تاجروں، سیاحوں اور مبلغوں اور صوفیا کا زیادہ عمل دخل ہے۔ انڈیا میں تو ہندوﺅںنے محمد بن قاسم کے بت تراشے ا ور ان کی پوجا شروع کر دی تھی، بغداد ، غرناطہ اور قاہرہ کی یونیورسٹیوں میں مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر طلبہ کو داخلہ ملتا تھا اور بین المذاہب مذاکروں اور ڈائیلاگ کو ترجیح دی جاتی تھی۔
فرانس میں جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے، ان کا اثر مسلم تارکین وطن پر کیا پڑا۔ اس سوال کے جواب میں شہزاد اختر نے کہا کہ ہم اپنے طور پر تو خوفزدہ تھے مگر ہمیں یہ یقین ضرور تھا کہ فرانس میں کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ محض مسلمان ہونے کو یہاں جرم تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے فرانسیسی معاشرے ا ور حکومت نے قانون اور آئین سے باہر قدم نہیں رکھا، اس سے ہمیں اور حوصلہ ملا اور ہم اپنے کاموں میں حسب معمول مشغول ہو گئے۔ دوسری طرف بہر حال عالمی میڈیا اسلام پر حملہ آور ضرور ہو رہا ہے، اس صورتحال کا مقابلہ ہمیں اجتماعی طور پر کرنا چاہئے، میری تجویز ہے کہ پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کے صحافی، وکلائ، سیاستدان اور دانشور امریکی اور برطانوی میڈیا سے انٹر ایکشن کریں اور ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں۔ اور انہیں تعصب سے بالاتر رہنے کی طرف راغب کریں جیسے کہ یورپی ممالک میں زیادہ بہتر فضا ہے۔ لندن، مانچسٹر، برسلز، پیرس، میڈرڈ وغیرہ میں اکا دکا سانحے ضرور ہوئے مگر یورپی معاشرہ امریکہ کے مقابلے میں سیکولر اور فراخدل واقع ہوا ہے اور عام لوگوں کی سطح تک نفرت اور تعصب نے جڑ نہیں پکڑی۔ یورپی یونین میں مسلمانوں کی تعداد ویسے بھی تھوڑی ہے ا ور ان میں زیادہ تعداد محنت کشوں کی ہے جنہیں اپنے کام سے ہی فرصت نصیب نہیں ہوتی ا ور وہ انتہا پسندانہ نظریات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔
فرانس کی مستحکم جمہوریت کی وجہ سے بھی مسلم تارکین وطن کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ شہزاد اختر پرامید ہیں کہ یہاں زہریلا پروپیگنڈہ اثر نہیں کرسکتا، فرانسیسی میڈیا نے جو رد عمل دکھایا ہے، وہ بھی اسلام اور مسلم روایات اور تہذیب سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، ویسے انتہا پسند تو ہر معاشرے میںہوتے ہیں لیکن فرانس میں بہت جلد میڈیا کو احساس ہو گیا کہ مسلمانوں کی حساسیت کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔
فون کال طویل ہو رہی تھی۔ مگر یہ واٹس ایپ کا دور ہے اور فری کال کے مزے ہی مزے ہیں۔
میں نے آخر میں یہ معلوم کرنے کی ضرور کوشش کی کہ کیا فرانس میں موجود مسلم تارکین وطن یا پاکستانی کمیونٹی اپنے طور پر انٹر فیتھ ہارمونی کے لئے کوئی باقاعدہ پلیٹ فارم تشکیل نہیں دے سکتی۔ جواب ملا کہ ہم لوگ اس قدر وسائل نہیں رکھتے، ہمیں اپنے روزگار کے جھمیلوں سے ہی چھٹکارہ نہیں ملتا، ہماری کیا مجال، کیا اوقات کہ ہم اس ملک کے میڈیا کے سامنے دلیل سے اپنا موقف پیش کر سکیں ، یا یہاں کی پولیس، وزارت داخلہ ا ور خارجہ سے مکالمہ کر سکیں، یہاں تو پاکستان کے چوٹی کے وکلائ، علماءاور صحافیوں کے وفود آنے چاہیئں جو دو طرفہ ڈائیلاگ میں حصہ لیں مگر ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مادر وطن میں برسوں سے ایک ہی بحث چھڑی ہوئی ہے، اس کے سوا کسی کو اور کوئی ہوش نہیں، ان کی بلا سے کوئی مرے، یا قیدی بنے یا لعن طعن سنے۔ خدا کے لئے پاکستانی انٹیلیکچوئلز کو اپنی یہ بے حسی ختم کرنی چاہئے اور ملک اور بیرون ملک دیگر درجنوں حوادث پر بھی غور کرنا چاہئے، ہم تو ان کی راہنمائی کو ترس رہے ہیں۔
شہزاد اختر کے دل سے نکلی ہوئی بات میرے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئی، میں تو صرف اس کے پیغام کو آگے پہنچانے کا فرض ادا کر سکتا ہوں ،میں دیگر اوورسیز پاکستانیوں سے بھی استدعا کروں گا کہ وہ اپنے تفکرات اور پریشانیوں سے مجھے آگاہ کریں تاکہ میں انہیں پاکستان کے اس موقر اخبار کے قارئین تک پہنچاتا رہوں، ہماری کوشش انشااللہ رائیگاںنہیں جائے گی۔کسی کا تو ضمیر جاگے گا، کوئی تو اپنا فرض ادا کرنے کے لئے آگے بڑھے گا۔
کالم جاوید چودھری
کالم روف کلاسرا