(ملت آن لائن)سپریم کورٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کے حوالے سے پیش کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں 895 پاکستانیوں کی جائیدادوں کا سراغ مل گیا ہے اور ان میں سے 200 افراد کو بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے وضاحت کے لیے نوٹسز جاری کردیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا کہ جن کو نوٹس جاری کیا گیا ہے ان سے جائیدادوں کے حوالے سے وضاحت کے لیے حلف نامے بھی طلب کیے جارہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادوں پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی گزشتہ سماعت 19 ستمبر کو ہوئی تھی جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حال ہی میں سامنے آنے والے جائیدادوں کے مالکان سے تفتیش کے لیے مثبت اشارے دیے گئے تھے۔
ایڈووکیٹ جنرل انور منصور خان نے اپنے جواب میں کہا کہ ایف آئی اے کو متحدہ عرب امارات میں مختلف جائیدادوں کے 642 مالکان کے حلف نامے موصول ہوئے ہیں اور دیگر 253 کی جانب سے حلف نامے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
ایف آئی اے عہدیداران نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نوٹسز جاری ہونے والوں میں سے کئی افراد نے فارن ایسٹ ڈیکلریشن اینڈ ریپارٹیشن بل 2018 کا فائدہ اٹھاتےہوئے پہلے ہی اپنی جائیدادیں ظاہر کی ہیں۔
خیال رہے کہ بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے یہ بل سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 26 مارچ 2018 کو نافذ کیا تھا۔
بیرون ملک جائیدادوں کے حوالے سے کئی افراد نے معلومات دینے سے انکار کیا تھا اور ان میں سے چند کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) نے انکوائری بھی شروع کر رکھی ہے۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ حلف ناموں کی موصولی کے بعد پہلے قدم کے طور پر ایف آئی اے ان پر تفتیش شروع کرے گی اور پاکستان سے لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بنائے گئے اثاثوں کی واپسی اگلا قدم ہوگا۔
عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ضبط کی گئی جائیدادوں کی معلومات تک رسائی کے لیے اٹارنی جنرل کی درخواست کو مسترد کردیا جو ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد سے متعلق تھی تاکہ ان کے خلاف تفتیش عمل میں لائی جائے۔
یاد رہے کہ حکومت نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے افراد کے ناموں کو ہمیشہ خفیہ رکھنے کا وعدہ کیا تھا اور عدالت نے بھی کہا کہ اس طرح کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے عدالت کوئی حکم صادر نہیں کرے گی۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے تازہ صورت حال سے آگاہ رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔