جب بارک اوباما صدر بن گئے تو ایک متعصب صحافی نے ریپبلکن وزیر خارجہ سے پوچھا: ملک کے ڈیموکریٹک صدر تو بظاہر مسلمان ہیں۔ کولن پاول نے کندھے جھٹک کر جواب دیا: ”تو… آئین تو اس کی ممانعت نہیں کرتا‘‘۔
بعض سفید فام امریکی بھول جاتے ہیں کہ یہ تارکین وطن کا ملک ہے۔ یہاں گورے‘ کالے‘ سانولے اور زرد رنگ کے لوگ رہتے ہیں اور گھروں میں اکثر اپنی اپنی ثقافتی زبان بولتے ہیں۔ صدر کلنٹن نے ایک بار کہا تھا: نئی صدی شروع ہونے پر یہ سفید فام ملک نہیں ہو گا۔ وہ صدی شروع ہو چکی ہے اور اس کے دوسرے صدارتی الیکشن میں ایک سیاہ فام مرد کے بعد ایک عورت امیدوار ہے۔ مسز کلنٹن کی حیثیت سے وہ آٹھ سال خاتون اول‘ اوراب چار سال وزیر خارجہ رہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں کسی انتخابی مہم میں یہ نعرہ لگانا کہ اس ملک میں مسلمانوںکا داخلہ بند ہو گا کسی امیدوار کو زیب نہیں دیتا۔
کوئنز‘ نیو یارک شہر کی ایک جامعہ مسجد کے امام اخون جی اور ان کے معاون کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ یہ نعرہ رنگ لا رہا ہے۔ 35 سالہ خیرالاسلام نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: ”ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو قصوروارٹھہراتے ہیں… ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں نے اسلاموفوبیا کا یہ ڈراما رچایا ہے‘‘۔ مسجد کے بانی بدرالسلام خان نے کہا: ”ہمیں انصاف چاہیے‘‘۔ یہاں بنگلہ دیشی بکثرت آباد ہے۔ دونوں مقتول تین تین بچوں کے باپ تھے اور نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد گھر جا رہے تھے۔ جب وہ سیاہ فام اور لاطینو کوارٹرز کے قریب سے گزرے تو حملہ آور نے ان کے سروں کو گولی کا نشانہ بنایا اور رفوچکر ہو گیا۔ پولیس نے اس سلسلے میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ لاطینو امریکی ہے۔
مسلمانوں سے خوف کھانے کا رجحان امریکی معاشرے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ کئی امریکی عورتیں جب مسلمان شوہروں سے ناراض ہوتی ہیں تو انہیں دہشت پسند کہتی ہیں۔ نیو یارک شہر کے ایک پاکستانی جوڑے نے اپنے بچے نشوان اوپل کے سکول پر 25 لاکھ ڈالر کا دعوی دائر کر دیا ہے‘ کیونکہ دوسرے بچے اسی گالی سے اسے چھیڑتے تھے۔
لاہور کے وکیل خضر خان نے فلاڈیلفیا میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے دوران غائبانہ طور پر امریکی دستور کی جیبی جلد مطالعے کے لئے مسٹر ٹرمپ کو پیش کرکے ان کی مہم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا‘ جو اب بھی روایتی مالی قدامت پسندوں اور ناراض بلیو کالر ورکروں کی تائید حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں‘ مگر ساتھ ساتھ مسلمانوں سے خوف میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک اداریے میں سختی سے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ 26 جولائی کو ڈیلٹا ایئرلائن نے پیرس میں ایک پاکستانی امریکن جوڑے کو جہاز سے اتار دیا‘ محض اس لئے کہ خاتون نے دوپٹے سے اپنا سر ڈھانپ رکھا تھا‘ اور وہ (نازیہ علی) موبائل فون پر کسی سے باتیں کر رہی تھیں‘ جبکہ پاس کھڑا شوہر (فیصل) پسینے میں شرابور تھا۔ جوڑا اپنی شادی کی دسویں سالگرہ منا کر اوہایو (ریاست) میں اپنے گھر واپس آ رہا تھا۔
فضائی سفر کے دوران مسلمانوںسے بلاوجہ خوف کھانے کے دوسرے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ امریکن ایئرلائنز نے‘ جو نسلی یا مذہبی بنیادوں پر مسافروں کی پہچان (Profiling) کے معاملے میں بدنام ہے‘ شک کی بنا پر ایک ایسے مسافر کو اپنے طیارے سے نکال دیا‘ جو اطالوی اکانومسٹ تھا اور یونیورسٹی آ ف پنسلوینیا سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ کاغذ پر کچھ لکھ رہا تھا۔ ایئرہوسٹس سمجھی کہ وہ عربی میں ہدایات دے رہا ہے جبکہ وہ حساب کا کوئی سوال حل کر رہا تھا۔ ایسا ہی ایک واقعہ مغربی ساحل پر ایک سکھ کے قتل کی صورت میں رونما ہوا تھا‘ جو مشرقی ساحل پر 9/11 کی واردات کے بعد بے جا ردعمل کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی‘ اطالوی امریکن اور لاطینوامریکن بالخصوص میکسیکن سے ملتے جلتے ہیں۔
ساؤتھ ویسٹ ایئرلائنز نے اپریل میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا‘ برکلے‘ کے ایک طالب علم کو لاس اینجلس میں آف لوڈ کر دیا تھا۔ ایک اور مسافر نے اسے عربی بولتے سنا تھا۔ وہ دراصل عراقی خیرالدین مخزومی تھا‘ جسے امریکی حکومت نے باقاعدہ پناہ دے رکھی تھی۔ شکایت ملنے پر فضائی کمپنی کا کارکن اس سے پوچھتا رہا کہ طیارے پر وہ عربی کیوں بول رہا تھا؟
کچھ کوتاہی امریکی مسلمانوں کی جماعتوں کی بھی دکھائی دیتی ہے‘ جن کی اکثریت ستمبر کے مہینے میں اپنے سالانہ اجلاس کرتی ہیں‘ اور سینکڑوں قراردادیں پاس کرنے کے باوصف اس معاملے میں خاموش رہتی ہیں۔ لیبر ڈے (5 ستمبر) کے موقع پر جب ویک اینڈ تین دنوں پر پھیل جاتا ہے تو ملک کے مختلف حصوں میں اثنا (اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ) اکنا (اسلا مک سرکل آف نارتھ امریکہ) اور مسلم سوسائٹی آف امریکہ‘ جو بڑی حد تک افریقی امریکیوں کی تنظیم ہے‘ کے اجلاس ہوتے ہیں‘ لیکن ان تنظیموں کے لیڈر بھی چپ رہتے ہیں۔ شاید وہ اسٹیبلشمنٹ سے خوف کھاتے ہیں۔ اصولاً تو انہیں قانون سے ڈرنا چاہیے جو مذہب‘ رنگ، نسل اور زبان وغیرہ کی بنیادوں پر امتیاز و تفریق پر سزا دیتا ہے۔ ایئرلائنوں کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ وہ اپنے بے گناہ مسافروں کو آزادانہ سفر کی سہولتیں دیتی ہے یا نہیں؟
کالی اقلیت پر گوری پولیس کے مہلک حملوں کے بعد دو سال سے یہاں ایک تحریک چل رہی ہے جس کا نام ہے: The Black Lives Matter یعنی سیاہ فام زندگی کی بھی وقعت ہے۔ اس کی بنا پر ایک مسلمان نے یہ تحریک شروع کی ہے: مسلم زندگی کی بھی وقعت ہے۔ یہ ساری دنیا میں مسلمانوں کی زبوں حالی کی روک تھام کی تحریک ہے‘ جو سانحہ کوئٹہ کے بعد زیادہ معنی خیز ہو گئی ہے۔ اس واقعہ میں 74 افراد‘ جن میں اکثریت وکیلوں کی تھی‘ جاں بحق اور ایک سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس سے پہلے پشاور اور لاہور میں ایسے دھماکے ہوئے جن میں سینکڑوں لوگوں کی‘ جن میں اکثریت بچوں کی تھی‘ جانیں گئیں۔
تازہ واقعے کی مذمت میں سیاسی زعما کی طرف سے جو بیانات سامنے آئے‘ ان میں ایک بات لغوی اعتبار سے صحیح ہے‘ یہ کہ سانحے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جسے پُر کرنا محال ہو گا۔ ہر بڑے آدمی کی وفات پر بالعموم ایسے ہی بیا نات دیے جاتے ہیں مگر یہ وکلا قانون دانوں کی کریم تھے۔ ایسے دانشور روز روز پیدا نہیں ہوتے؛ البتہ یہ خیال محلِ نظر ہے کہ وکلا پر یہ حملہ بزدلانہ تھا۔ حملہ آوروں نے ایک ہسپتال کو نرم ہدف کے طور پر تاکا۔ وکلا کی مقامی برادری کے صدر کی کار کو نشانہ بنایا‘ اور جب وکیلوں کا ایک جم غفیر اپنے محبوب لیڈر کی میت وصول کرنے کے لئے جمع ہوا تو ایک شخص نے‘ جو خود کشی کے لئے تیار تھا‘ دھماکہ کر دیا۔
وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی میں آئے اور انہوں نے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کوتاہیوں کا اعتراف کیا‘ مگر انہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی خود کشی کا تہیہ کر لے تو اسے کوئی انٹیلی جنس یا سکیورٹی فورس روک نہیں سکتی؛ تاہم ان کی یہ رائے صائب ہے کہ ہمیں متحدہ طور پر اس ”نظریے‘‘ پر حملہ کرنا ہے‘ جو اس ذہنیت کا باعث بنا ہے اور جو بے نظیر بھٹو کے قتل کا قصوروار ہے۔ نواز شریف صاحب کی بدقسمتی ہے کہ اس مرتبہ وہ ایک ایسے وقت برسر اقتدار آئے جب قوم دو گروہوں میں بٹ چکی ہے‘ جو آپس میں دست و گریبان ہیں اور فوج اکثریتی گروہ کا ساتھ دے رہی ہے۔ یہ حقیقت امریکی محکمہ خارجہ کی ایک تازہ رپورٹ سے بھی منعکس ہوتی ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان‘ افغانستان‘ سعودی عرب‘ ایران‘ سوڈان اور موریطانیہ ان ملکوں میں شامل ہیں‘ جو مذہبی احکامات سے انحراف کرنے والے لوگوں کو سخت سزا دیتے ہیں جو انسانی حقوق کے عالمی منشور کے منافی ہے۔