خبرنامہ

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے جرمن حکومت سے آسیہ بی بی اور ان کے خاندان کی شہریت کی اپیل کردی

سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کے مقدمے سے بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے جرمن حکومت سے درخواست کی ہے کہ محفوظ زندگی گزارنے کے لیے آسیہ بی بی کو خاندان سمیت جرمنی میں پناہ دی جائے تاکہ وہ ایک نئی زندگی شروع کرسکیں۔

فرینکفرٹ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وکیل سیف الملوک کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کو رہائی مل چکی ہے لیکن انہیں سفر کرنے کے لیے پاسپورٹ درکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر جرمن چانسلر اینجیلا مرکل پاکستان میں جرمنی کے سفیر کو احکامات دیں کہ انہیں پاسپورٹ اور جرمن شہریت دی جائے تو آسیہ بی بی بحفاظت جرمنی آسکیں گی۔

تاہم جرمنی کی حکومت نے اس بارے میں اب تک کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔

آسیہ بی بی کیس— کب کیا ہوا؟

صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا، جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔

بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔

امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی، جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

تاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔

ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں ماہ 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا اور بعدازاں 31 اکتوبر کو آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے خاتون کی رہائی کے احکامات جاری کیے جانے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔

بریت کے فیصلے کے بعد 8 نومبر کو آسیہ بی بی کو ویمن جیل ملتان سے رہا کر دیا گیا، جس کے بعد خبریں سامنے آئی تھیں کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہوچکی ہیں، تاہم دفتر خارجہ نے ان رپورٹس کی تردید کردی تھی۔