خبرنامہ

Pervez Elahi Always Prevails (2)

Pervez Elahi Always Prevails (2)

چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست کے اگلے دور کا آغاز اٹھاسی کے الیکشنوں کے بعد ہوتا ہے ۔جب ایک بار پھر میاں نواز شریف ہی صوبائی وزیر اعلیٰ بن بیٹھے کیونکہ جنرل ضیاء الحق کی نظر کرم مسلسل ان پر مرکوز تھی ، نواز شریف نے اتفاق ہسپتال کا افتتاح جنرل ضیاء الحق سے کروایا جہاں ضیاء الحق نے دو اہم باتیں کیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ارکان اسمبلی کے لیے بہت بڑا فنڈ مختص کر رہے ہیں جس کی مدد سے وہ اپنا سیاسی کلہ مضبوط کر سکتے ہیں ،یہاں سے ارکان اسمبلی کے صوابدیدی بجٹ کا نام کلہ فنڈ پڑگیا۔جنرل ضیاء نے یہ دعا بھی کی تھی کہ اللہ میاں ان کی باقی ماندہ عمر نواز شریف کو لگا دے ۔ یہ دعا قبول ہوگئی اور ضیاء الحق بہاولپور طیارے حادثے میں شہادت سے ہمکنار ہوگئے ۔نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوسرے دور میں بھی چوہدری پرویز الٰہی صوبائی کابینہ کے رکن بنے ،وفاق میں محترمہ بے نظیر کی حکومت صدر اسحاق خان کے ساتھ نباہ نہ کرسکی ،اور یوں منتخب حکومتوں کی گاڑی پٹڑی سے اتر گئی ۔ مگر اس دوران میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا اور اس کی قیادت نواز شریف کو سونپ دی گئی ۔ پاکستانی سیاست میں بلیم گیم کا دور یہیں سے شروع ہوتا ہے ۔آئی جے آئی نے پیپلز پارٹی اور خاص طور پر بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر کیچڑ اچھالا اور انہیں پاکستان کے لیے سکیورٹی رسک بھی قرار دیا،نئے انتخابات ہوئے تو نواز شریف وزیر اعظم کے منصب کی سیڑھی چڑھنے کے لیے کامیاب ہوگئے۔ اب سوال یہ تھا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کس کو سونپی جائے،اس موقع پر سب سے زیادہ موزوں امید وار چوہدری پرویز الٰہی تھے کیونکہ وہ پارلیمانی پارٹی کے بہت بڑے دھڑے کی قیادت کر رہے تھے مگر میاں نواز شریف کا دل ان کے لیے صاف نہیں ہوا تھا اور انہوں نے ایک غیر معروف اور غیر مقبول شخص غلام حیدر وائیں کو وزیر اعلیٰ بنا کر پنجاب پر مسلط کردیا،میری ذاتی معلومات کے مطابق میاںغلام حیدر وائیں چوہدری خاندان کے پروردہ تھے،ان کے ہر الیکشن کے اخراجات چوہدری خاندان برداشت کر تا تھا حتیٰ کہ لاہور میں وائیں صاحب کی اپنی کوئی رہائش گاہ نہیں تھی اس لیے وہ چوہدری خاندان کے ہی گھر میں رہتے تھے اور وہیں سے اٹھ کر وہ سیون کلب روڈ میں مسند نشین ہوگئے ،میں پھر ذاتی معلومات کی بنیاد پر ہی کہتا ہوں کہ وائیں صاحب کی وزارت اعلیٰ کے دور میں چوہدریوں کو کسی کام میں رکاوٹ پیش نہیں آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام حیدر وائیں محض ایک کٹھ پتلی تھے اور پردے کے پیچھے بیٹھ کر شہباز شریف وزارت اعلیٰ چلا رہے تھے۔بد قسمتی کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی محاذ آرائی تیز ہوتی چلی گئی ، ارکان اسمبلی کی مویشی منڈی پہلے سے لگ چکی تھی کبھی انہیں ہانک کر چھانگا مانگا لے جایا جاتا کوئی انہیں مالم جبہ لے جاتا کبھی میریٹ ہوٹل میں میلہ جمتا ۔ اس تماشے نے حکومت اور سیاست کو غیر مستحکم کردیا اور وزارت عظمیٰ کا منصب کے بار پھر محترمہ بے نظیر کو مل گیا ۔ مسلم لیگ تحریک نجات چلانے تک محدود ہوگئی ان دنوں چوہدریوں کے گھر کی رونقیں بڑھ گئیں کیونکہ شریف خاندان ،دسترخوان سجانے سے کتراتا تھااور چوہدریوں کے گھر روٹی شوٹی کا سلسلہ چوبیس گھنٹے چلتا رہتا ۔ ایک روز مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا بہت بڑا اجتماع چوہدریوں کے لان میں ہوا جہاں کی دو باتیں مجھے اب تک یاد ہیں ایک تو اچھرا والے میاں منیر نے کہا کہ اقتدار لینے کے لیے تین الف درکار ہیں ،انہوں نے میاں نواز شریف سے سوال کیا کہ کیا اللہ ،امریکہ اور آرمی میں سے کوئی ہمارے ساتھ ہے دوسری بات بھولے نے کی وہ امام کالم نویساں عبد القادر حسن کے کالموں کا ایک جیتا جاگتا کردار تھے۔بھولے نے اس اجتماع میں تجویز پیش کی کہ میاںؒ نواز شریف یہاں یہ اعلان کریں کہ آئندہ کبھی مسلم لیگ کو اکثریتی مینڈیٹ ملا تو چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب میں وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا ۔ نواز شریف نے میاں منیر کے نکات اللہ امریکہ اور آرمی پر تو کوئی تبصرہ نہ کیا مگر بھولے کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ آئندہ پنجاب میں مسلم لیگ کو اکثریت ملی تو صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہوں گے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ اگلے الیکشنوں میں مسلم لیگ کو دو تہائی اکثریت تو مل گئی ،نواز شریف مرکز میں وزیر اعظم بھی بن گئے مگر انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو اپنے وعدے کے مطابق پنجاب کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا بلکہ ان کی بجائے یہ منصب اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو سونپ دیا ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف وعدوں کو نبھانے کے قائل نہیں تھے اور وہ چوہدری پرویز الٰہی کی بغاوت کو نہیں بھولے تھے جبکہ چوہدریوں نے ہر مرحلے پر میاں نواز شریف کے قد کاٹھ میں اضافے کے لیے پوری کوشش کی ،ایک موقع پر وزیر اعلیٰ نواز شریف کو گجرات مدعو کیا تو چناب کا پل عبور کرنے کے بعد چوہدریوں نے نواز شریف کی جیپ کو کندھوں پر اٹھا کر ظہور پیلس تک پہنچایا ۔مگر نواز شریف اس وفاداری کو بھی بھو ل گئے ،وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پنجاب میں اصل دھڑا چوہدریوں کا ہے اور اگر پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دے دی تو پھر وہ پرویز الٰہی کے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں روک سکیں گے ، مگر خدا کا کہنا ہے کہ یہ لوگ چال چلتے ہیں اور اللہ بھی چال چلتا ہے اور اللہ بہترین چال چلنے والا ہے ۔نواز شریف نے اپنی طرف سے پرویز الٰہی کو کونے کھدے لگانے کے لیے پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنا دیا لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسپیکری کے منصب پر بیٹھ کر چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے مستقبل کی سیاست کی نقشہ گری کی ۔ (جاری)