خبرنامہ پاکستان

،، تو ڈیوا بال کے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے ،،

اسلام آباد(آئی این پی ) قومی اسمبلی میں جمعرات کو ملک کے ممتازسرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا وفاقی حکومت سے ان کی کفالت اور علاج معالجہ کے لئے فنڈز کے اجراء کا مطالبہ کیا گیا ہے ملک و قوم کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ان کی ،، تو ڈیوا بال کے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے ،، کے عنوان سے نظم بھی ایوان میں پڑھ دی گئی ہے۔گزشتہ روز ایوان میں ایم کیو ایم پاکستان کے رکن ساجداحمدنے ایوان میں شاعر شاکر شجاع آبادی کی علالت سے آگاہ کیا اور کہا کہ سیاستدان شاکر شجاع آبادی کے اشعارکو اپنی تقاریر میں استعمال کرتے ہیں مگر ان کی حالت زار اور ان کے خاندان کو درپیش معاشی مسائل کا کسی کو احساس نہیں ہے اس آگاہی پر ایوان میں شاعر شاکر شجاع آبادی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا ساجد احمد نے یہ نظم پڑھی
تو محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا‘ ہوا جانے خدا جانے
خزاں دا خوف تے مالی کوں بزدل کرنہیں سکدا
چمن آباد رکھ ‘ باد صبا جانے خدا جانے
مریض عشق خود کوں کر‘ دوا دل دی سمجھ دلبر
مریض جانے ‘ دوا جانے‘ شفا جانے‘ خدا جانے
جے مر کے زندگی چیندا فقیری ٹوٹکا سن گھن
وفادے وچ وفا تھیون‘بقا جانے خدا جانے
اے پوری تھیویں نہ تھیویں مگر بیکار نہیں ویندیں
دعا شاکر تو مانگی رکھ دعا جانے خدا جانے۔
ساجداحمد نے کہا کہ معاشرے کو اس قسم کی شاعری کے ذریعے سے حوصلہ دینے والا شاعر بیمار ہے ۔سرپرست اعلی پاکستان سوئیٹ ہومز زمردخان نے ان کی مددکے لئے اقدام کیا تھا اب شاعر شاکر شجاع آبادی ملتان کے قریب اپنے گاؤں جاچکے ہیں علیل ہیں وفاقی حکومت ان کے لئے فنڈز جاری کرے اس ملک پر شاعر شاکر شجاع آبادی کا بھی حق ہے ۔۔